لٹھ ڈیم ٹوٹنے کی کہانی-کتنی حقیقت، کتنا فسانہ

حالیہ بارشوں میں ایک بار پھر لٹھ اور تھڈو ڈیم ٹوٹ جانے کاواویلہ مچاہوا ہے۔ اس بار پھر ذرا معمول سے زیادہ بارش ہوئی اور سعدی گارڈنز ، سعدی ٹائون اور اس سے ملحقہ علاقے زیر آب آگئے۔ گھروں میں کئی کئی فٹ پانی بھر گیا، قیمتی سامان اور گھروں کو نقصان پہنچا۔
حسب سابق لٹھ اور تھڈو ڈیم ٹوٹنے کی افواہ گردش کرنے لگی۔ہر بار کی طرح اس بار بھی میڈیا خصوصاً الیکٹرانکس میڈیا میں کوئی تھڈو ڈیم توڑ رہا ہے تو کوئی لٹھ ڈیم جبکہ حقیقت میں یہ دونوں صحیح سلامت ہیں۔
اصل معاملہ ہے کیا ؟آئیے اس کو سمجھنے کے لیے پورے علاقے کا جائزہ لیتے ہیں۔
یہ ہے کیرتھر نیشنل پارک کا پہاڑی علاقہ … کراچی کا 20فیصد رقبہ اس نیشنل پارک میں شامل ہے ۔ کراچی کی تمام ندیاں جس میں ملیر ندی، لیاری ندی، حب ندی شامل ہے اسی پہاڑی علاقے سے نکلتی ہیں۔
لٹھ ندی بھی ان ہی پہاڑوں سے شروع ہوتی ہے۔ آگے آکر چند دوسری ندیاں بھی اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔ اس ندی پردو ڈیم بنے ہیں۔ کلمتی ڈیم جو کیرتھر نیشنل پارک کی حدود سے تھوڑا پہلے بنا ہوا ہے۔جبکہ لٹھ ڈیم دیہہ ناراتھر میں گنور جوکھیو گوٹھ کے قریب ہے۔ یہ ڈیم بمشکل ڈیڑھ سو میٹر چوڑا ہے اور اس کی گہرائی بھی زیادہ نہیں ہے۔ بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو سیلابی ریلہ ڈیم سے اوور فلو ہوجاتا ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ سیلابی ریلہ جونہی اوور فلور ہوا لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ ڈیم ٹوٹ گئے۔
کچھ ندیاں ایسی ہوتی ہیں جو کہ آگے جا کر کسی دوسری ندی یا دریا میں شامل ہوجاتی یا سمندر میں جاگرتی ہیں۔ جبکہ کچھ ندیاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی اونچائی سے اُترتے ہوئے کسی وسیع میدان میں پھیل کر ختم ہوجاتی ہیں۔ لٹھ ندی کے ساتھ بھی یہی دوسرا معاملہ ہے۔
لٹھ ندی لٹھ ڈیم سے آگے بڑھ کر تیسر ٹائون کے بلاک 12-B تک آتی ہے۔
اگر آپ نقشے میںدیکھیں یا خود اس علاقے میں جا کر معائنہ کریں تو دیکھیں گے کہ پیر بخش بروہی گوٹھ تک ندی کا وجود ہے اس کے بعد ندی کا پاٹ ختم ہوگیا ہے۔ برسات کے ریلے یہاں آکر کھلے میدانی علاقے میں پھیل جاتے تھے ۔ اور اس کی شدت میں کمی آجاتی تھی۔
دس بارہ سال پہلے اس میدانی علاقہ میں ناردرن بائی پاس تعمیرکی گئی۔ ناردرن بائی پاس کی تعمیر طریقہ کار کے مطابق زمین سے 12 فٹ سے زیادہ اونچائی تک بھرائی کرکے کی گئی ہے۔ لٹھ ندی سے آنے والابارش کا سیلابی پانی جو کہ وسیع میدانی علاقے میں پھیل جایا کرتا تھااس پانی کے لئے یہ بھرائی یا پشتہ ایک فطری ڈیم بن گیا ہے۔ لٹھ ندی کے پاٹ ختم ہونے کے بعدناردرن بائی کے پشتہ کے درمیان فاصلہ تین کلو میٹر سے بھی کم ہے۔
بارش میں اگر آپ ناردرن بائی پاس پر منگھوپیر کے رُخ سے سپرہائی وے کی طرف آرہے ہیں تو ٹول سے سپر ہائی وے تک اپنے بائیں جانب بائی پاس کے ساتھ ساتھ ایک دریا بہتا دیکھیں گے۔ برساتی پانی کا یہ دریا پشتہ کے اختتام تک ساتھ ساتھ چلتا ہےجس کا اختتام سپر ہائی وے پر ہوتا ہے۔ لہٰذا سپر ہائی وے اور ناردرن بائی پاس کے انٹر چینج پر یہ ریلہ طوفانی انداز میں سپر ہائی وے کو کراس کرکے سامنے واقع سعدی گارڈنز، سعدی ٹاون اور ملحقہ علاقوںمیں داخل ہوجاتا ہے۔ اسی مقام پر سپر ہائی وے پربھی آمد و رفت بسا اوقات معطل ہو جاتی ہے۔
آسانی سے یوں سمجھیں جیسے قیف کام کرتی ہے اسی طرح ناردرن بائی پاس کا یہ پشتہ میلوں پھیلے ہوئے پانی کو سمیٹ کر ٹھیک انٹر چینج کے نیچے جمع کرکے طوفان پیدا کردیتا ہے۔ اور یہ قیف عین سعدی گارڈنز کے اوپر نصب کردی گئی ہے۔ ریلہ جب بھی آئے گا سعدی گارڈن، سعدی ٹائون، گلشن عثمان، گلشن الٰہی،گلشن کریم سمیت اردگرد کے علاقے زیر آب آجائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے حکومتی سطح پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اوربرساتی ریلہ کے لیے متبادل راستہ نہیں بنایا جائے ۔تاکہ سعدی ٹائون، سعدی گارڈنز اور اس سے ملحقہ علاقوں کی آبادی کو جانی و مالی نقصان سے تحفظ فراہم کیا جاسکے۔