آخر کب تک ہم حادثات پر صرف افسوس کریں گے؟

حیدرآباد کے قریب پیش آنے والے حالیہ ٹرین حادثے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق تین افراد لقمہ اجل بنے اور متعدد زخمی ہوئے اور ریلوے ٹریک پندرہ گھنٹوں تک آمد و رفت کے لئے معطل رہا۔
قیام پاکستان کے بعد وطن عزیزمیں ٹرین حادثات میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ زیادہ تر حادثات غفلت کے باعث پیش آئے ،جس میں ریلوے کے عملے کی لاپروائی سرفہرست ہے۔
1990پاکستان کی تاریخ کا وہ سال تھا جس میں سکھر کے قریب سانگی کے مقام پر دو ٹرینیں ٹکرانے سے ساڑھے تین سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ پاکستان ریلوے کی تاریخ کا سب سے اندوہ ناک سانحہ تھا۔
2005میں سندھ کے بالائی ضلع گھوٹکی میں تین ٹرینوں کےآپس میں ٹکرانے سے ایک سو تیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
قیام پاکستان کے 6 سال بعد 1953 میں کراچی اور کوٹری کے درمیان ٹرین حادثے میں دو سو سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اگلے برس 1954میں جھمپیر کے قریب ریل حادثے میں 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس طرح کے درجنوں واقعات ہم آئے دن سنتے رہتے ہیں۔ سرکاری سطح پر حادثوں کی تحقیقات کا اعلان تو ہوتا ہے تاہم نتائج کچھ حوصلہ افزا نہیں نکلتے۔ وزرا اور مشیران کے ساتھ ریلوے حکام کےدھواںدھار بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں ،جذباتی نیوز کانفرنس ہوتی ہے، حادثے کے ذمہ داروں کو قانون کو کٹہرے میں لانے اور کیفر کردار تک پہنچانے کی بات ہوتی ہے ۔ لیکن اس ساری بھاگ دوڑ کا نتیجہ صفر نکلتا ہے ۔ اِکا دُکا واقعات میں تو ضرور ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے اور انہیں سزا بھی دی گئی تاہم بڑے واقعات جن میں سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے اور ہزاروں خاندان متاثر ہوئے…جو آج تک انصاف کے منتظر ہیں۔
آخر ایسا کب ہوتا رہے گا… حادثات ہوتے رہیں گے… خاندان اجڑتے رہیں گے… سرکاری بیانات آتے رہیں گے…بچوں کے سروں سے والدین کا سایہ چھنتا رہے گا۔
کہیں یتیمی کا داغ کہیں بیوگی کا دُکھ… ایسے حادثات ایسے ہی المیوں کے جنم دیتے ہیں۔