کرونا وائرس سزا یا سازش

یہ حقیقت ہے کہ انسانوں میں وبائی امراض کا پھیل جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم موجودہ وائرس کے باعث پھیلنے والی وبا کو بعض حلقے کسی سازش یا حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر دیکھ رہے ہیں جبکہ بعض کے مطابق یہ فطرت کی جانب سے سزا ہے۔کچھ افراد کا خیال ہے کہ یہ فائیو جی نیٹ ورک کے پھیلائو کی کوئی مہم ہے تو کوئی اسے فائیو جی نیٹ ورک کے پھیلائو کا باعث بتا رہا ہے۔ کرونا وائرس حیاتیاتی ہتھیاریا سازش ہے یا فطرت کے خلاف انسانی طرز عمل کا شاخسانہ اس کے لئے سائنسی حقائق کو دیکھنا ہوگا۔جن حلقوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی سازش ہے ان میں سے اکثر کسی فلم،کتاب یا ناول میں موجود تذکرہ کو بطور حوالہ بیان کرتے ہیں جس میں 2011میں اس موضوع پر بننے والی فلم)Contagionکن ٹیجن( سرفہرست ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس فلم کے بننے سے تقریباً 10سال قبل چین میںSARSوائرس جو کہ کرونا ہی کی ایک قسم ہے کسی وبا کی صورت میں سامنا آیاتھا۔ تاہم یہ وائرس صرف تیس ممالک تک پھیلا اور اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 700کے قریب رہی۔ SARSوائرس چونکہ پوری علامات ظاہر ہونے کے بعد دوسرے شخص میں منتقل ہوتا لہٰذا اُس کی روک تھام کرونا وائرس کے مقابلے میں آسان رہی۔ تاہم نیاCoronavirusدوسرے شخص میں خاموشی سے منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی علامت ظاہر نہ ہوں تب بھی ایک متاثرہ شخص بیماری آگے پہنچانے کا موجب بن سکتا ہے۔
اس فلم کے مصنف Scott Z. Burns نےفلم کی تصنیف سے قبل اپنے والد جو ایک سائنسدان تھے اُن سے برڈ فلو کے انسانوں میں منتقل ہونے کے حوالےکئی سوالات کئے اور وبائی امراض کے ماہر Larry Brilliant لیری برلینٹ سمیت کئی ماہرین حیاتیات اور سائنسدانوں سے انسانی طرز زندگی میں آتے بدلائو کے باعث وبائی امراض کے تیزی پھیلائو کے خدشات پر گفتگوکی اور ان سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں فلمContragionیعنی”متعدی“تحریر کی۔ فلم کے مصنف کے مطابق سائنسدانوں اور ماہرین حیاتیات کے نزدیک یہ بات اہم نہیں تھی کہ وائرس سے بیماریاں پھیلیں گی بلکہ ان کے نزدیک سوال یہ تھا کہ یہ بیماریاں کب پھیلیں گی۔ فلم چونکہ SARSوائرس سے متاثرہ افراد میں پائی جانے والی علامات،سائنسدانوں کی تحقیق اور پیش گوئی کی روشنی میں بنائی گئی جو موجودہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی علامات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات سے کافی حد تک مماثلت رکھتے ہیں لہٰذا ایک عام انسان اسے اسی تناظر میں دیکھ رہا ہے گویا یہ سب طے شدہ پلان کا حصہ ہو۔
2009میں بھی سوائن فلو کی وبا پھیلی اور دنیا میں لاکھوں افراد اس کا شکار ہوئے۔ طبی ماہرین نے اس وقت بھی اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ اس سے زیادہ شدید وبا پھیلنے کااندیشہ ہے۔
1981ء میں Dean Koontz ڈین کونس نے اپنے ناول The Eyes ot the Darckness میںبھی ایسی پیش گوئی کی تھی جسے لوگ آج حوالے کے طور پر بیان کررہے ہیں ۔اس میں جس ہلاکت خیز وائرس کو گورکی 400کا نام دیا گیا تھاوہ روس کے علاقے گورکی کی نسبت سے رکھا گیا جبکہ طباعت ثانی میں اس نام کو تبدیل کرکےاس وائرس کا نام ووہان 400رکھا گیا ۔
چونکہ ان دونوں مقامات پردنیا کی ایسی قدیم لیبارٹیز موجود ہے جہاں وائرسز پر تحقیق کی جاتی ہیں لہٰذا ناول ان مقامات کا تذکرہ کیا گیا تاہم میں جو پیش گوئی کی گئی وہ یہ کہ اس وائرس کا شکار 24گھنٹوں میں مر جائے گا ساتھ ہی یہ بھی ذکر موجود ہے کہ کسی بھی متاثر شخص سے ملنے والا فرد چار گھنٹوں میں اس وائرس کا شکار ہوکر آئندہ چوبیس گھنٹوں میںہلاک ہو گا۔جو کہ بالکل غلط ثابت ہوئی ہے۔ یہ ناول چونکہ وائرس کے حیاتیاتی حملے کے تناظر میں لکھا گیا تھا ۔لہٰذا بہت سے افرا داس افسانے کو آج کے حالات پر قیاس کرکے یقین کررہے ہیں۔
2008میں شائع ہونے والی Sylvia Browne سیلویا برائون کی کتاب End of Days predictions & prophecies about the end of the worldکا بھی اس ضمن میں حوالہ بھی دیا جارہا ہےجنہوں اس وباکے علاوہ کئی پیش گوئیاں کیں تاہم اکثر غلط ثابت ہوئیں۔کتاب میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ
2020کے قریب نمونیا کی طرح کی ایک بیماری دنیا پر حملہ آور ہوگی اور اس وقت دنیا میں موجودکوئی دوا اس پر اثر انداز نہ ہوگی اور حیرت انگریز طور پر جتنی تیزی سے یہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی اتنی ہی تیزی سے یہ ختم ہوجائے گی جبکہ دس سال بعد یہ دوبارہ حملہ آور ہوگی اور پھر پوری طرح سے غائب ہوجائے گی۔
ایک طرح سے یہ پیش گوئی کافی حد تک حیران کن ہے مگر اس حوالے سےتو طبی ماہرین پہلے ہی کئی بار آگاہ کرچکےتھے کہ SARC ،MERSیا اس سے ملتی جلتی وبا انسانوں کو متاثر کرسکتی ہیں۔ جبکہ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سارس یا اس قسم کے دیگر وائرس انسان کے پھیپھڑوں اور نظام تنفس پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں ۔اس تناظر میں اگر سیلویا برائون کی پیش گوئی پر نظر ڈالیں تواندازہ ہوتا ہے جو اصل بات انہوں نے بتائی وہ یہ تھی کہ یہ اچانک آئے گا اور ایک دم واپس چلا گا ۔ جو بالکل غلط ثابت ہوئی ہےکیونکہ آج طبی ماہرین پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کرونا وائرس اتنی آسانی سے جانے والا نہیں ۔
2016ء میں افریقی ممالک میں نمودار ہونے والے ایبولا وائرس کی آج بھی موجودگی اس بات کو تقویت بخشتی ہے اور اس وائرس کے شکار افراد میں شرح اموات 90فیصد بتائی جاتی ہے۔
انسان جوں جوں ترقی کی منازل طےکررہا ہےیہ اپنے لئے مشکلات میں بھی اضافہ کرتا جارہا ہے۔سب سے پہلے اس نے ترقی کے نام پر دنیا کو آلودہ کرنا شروع کیاپھر خود کو تحفظ فراہم کرنے،دشمن کو نیست و نابود کرنے لئے ایٹمی ہتھیارایجاد کئےجس سے پوری دنیا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ آواز کی رفتار سے سفر کرنے کا خواہشمند بھی ہے۔ اس کی ترقی کا سفر نہیں رُکا اور اس نےآئے روز نت نئی اور حیران کن ایجادات کا ایک طوفان برپا کردیا ہے۔یہ اب اپنی ذہانت مشینوں کو منتقل کرنے کی جستجو میں لگا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے بارے میں مایاناز سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے بھی دنیا کے سائنسدانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یا تو یہ ہمارے لئے اب تک کی سب سے بہترین چیز ثابت ہوسکتی یا بدترین،اگر ہم اس حوالے سے محتاط نہیں تو یہ ہمارے لئے آخری چیز ہوسکتی ہے۔ہاکنگ نے یہ بھی کہا تھا کہ اس حوالے سے ابتدائی خدشہ تو ہے کہ اسے کون کنٹرول کررہا ہے جبکہ انتہا یہ ہے کہ آیا اسے مکمل کنٹرول بھی کیا جاسکے گا؟اس امکان کو مسترد کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔
انسان کے فطرت سے دوری کے اس سفر میں اس نے جنگلات اور جنگلی حیات کو بھی بری طرح نقصان پہنچا یا ہے۔ اس وائرس سے قبل بھی ایسے علاقوں میں جہاں جنگلی جانوروں کا گوشت مرغوب غذا رہا ہو ایسی وبائوں کا پھیلنا کوئی نئی بات نہیں ۔ ایبولا، یلو فیور،زیکا،سوائن فلو سمیت کئی ایسے وائرس ہیں جنہوں نے انسانی زندگی کو شدید متاثر کیا …ماہرین طب اس بات سے بارہا دنیا کو آگا کرتے رہے کہ نئے وائرس انسانی زندگیوں کے لئے خطرات کا باعث بن سکتے ہیں ۔ یہ بات بھی طے ہے کہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا بھی انسانوں کی جانب سے جنگلی حیات کومتاثرین کرنے کے نتیجے میں سامنے آئی ہے اورCovid19نامی وائرس اس کا موجب بنا۔ سائنسی حقائق تو اس بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ انسان نےجس تیزی سے کرۂ ارض کے ماحول کو متاثر کیا اور جنگلی حیاتیات کو نقصان پہنچایا اس کے باعث ہر آنے والا دن کسی خوفناک موسمی تغیر یا جان لیوا بیماری اوروائرس کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ انسان کرۂ پر اپنی جس کارگزاری کو ترقی کا نام دے رہا ہے دراصل وہی اس کی مشکلات میں بھی اضافے کے باعث ہے۔ ترقی اور تباہی کا یہ سفر ابھی تھما نہیں ہے آنے والے دنوں میں انسانیت مزید کتنے سانحات کا شکار ہوتی ہے یہ خود ایک سوال ہے۔