دوسروں کی خبر دینے والے کی خبرگیری کون کرے گا؟

تلملاتی دھوپ، گرجتے بادل، برستا ساون، یخ بستہ ہوائیں، سخت موسم ، سنگین حالات اور جان لیوا خطرات

 کچھ بھی مجھے میرے فرائض سے نہیں روک پاتے…

میں ہی ہوں جو خطرات مول لےکر…

جان پر کھیل کر، سچ تلاش کرتا ہوں…

سچھ لکھتا ہوں… سچ دکھاتا ہوں…

 کیونکہ……… یہی میرا فرض ہے…

اِس فرض شناسی کے باوجود 10۔15 سال بعد بھی کسی پروموشن، کسی مراعت، کسی ستائش کا حق دار نہیں مانا جاتا…

وقت کی پابندی کا خیال رکھنے والے فرض شناس کے بچوں کی اسکول فیس لیٹ، ماں کی دوا لیٹ، گھر کے تمام ضروری اُمور تاخیر کا شکارہیں۔

سچ لکھنے کی پاداش میں ہر ظالم، جابر،خائن،غاصب، سے بَیر لیا……

 ہر مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقے کی آواز بنا…

مگر……دوسروں کی خبر گیری کرنے والےکی خبر لینے والا کوئی نہیں…

انڈسٹری پر آنے والے حالیہ بحران کے نتیجے میں بیشتر صحافی تین ماہ سے لے کر ایک سال تک کی تنخواہوں سے محروم ہیں……ہزاروں واجبات کی ادائیگی کے بغیر بیروزگار ہوچکے…کئی صدمات کے باعث جاں سے گئے…

مگر فرض شناسی سے رُوگردانی نہیں کی…

عید، بقر عید، خوشی، غمی ،ہر تہوار میں فرائض انجام دینے والے اس ذمہ دار کی ذمہ داری…آخر کون اٹھائے گا؟

اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے

سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے

جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی

نہ سننا چاہو تو دل کی صدا سنائی نہ دے

جو دیکھنا ہو تو آئینہ خانہ ہے یہ سکوت

ہو آنکھ بند تو اک نقش بھی دکھائی نہ دے

یہ روحیں اس لیے چہروں سے خود کو ڈھانپے ہیں

ملے ضمیر تو الزام بے وفائی نہ دے

وحیداختر