مولانا محترم ۔ ۔ ۔ خوشبو لپٹی یادیں

479

وننگ لائن پر کون پہنچاتا ہے‘‘ بڑی محبت اور توجہ سے لکھی کتاب ہے جو زندگی میں کامیاب ہونے، آگے بڑھنے اور قابلِ رشک عادتوں اور خوبیوں کو اختیار کرنے پر بات کرتی ہے۔

میں نے اس کا انتساب اپنی زندگی کے دو بہت ہی پیارے اور محترم باباؤں کے نام کیا تھا۔ دونوں سے عمر کے مختلف حصوں میں محبت کی، دونوں سے سیکھنے کی کوشش کی۔ جہاں محبت ہو وہاں چاہے ان چاہے دل بہت سی باتیں آسانی سے مان لیتا ہے، آنکھیں بہت سی باتیں سن لیتی ہیں اور یوں روح خوب آسودہ ہوجاتی ہے۔ اے پیارے بابو۔۔۔ میری زندگی کو اس قدر خوشی، آسانی اور آسودگی عطا کرنے کا شکریہ۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جنہیں میں اپنی زندگی کی اوّلین یعنی پہلی محبت سمجھتا ہوں، اپنی تحریر کی خوبصورتی، تاثیر کی شدت اور دلیل کی مضبوطی کے ساتھ میرے دل میں تب داخل ہوئے جب میں اسکول کا طالبعلم تھا، وہ آج تک وہاں شاد اور آباد ہیں۔ انہوں نے کیا خوب کہا تھا ’’اللہ اور اس کے رسولؐ کی دعوت لے کر اٹھو اور ساری دنیا پر چھا جاؤ‘‘۔ میں نے یہ جملہ اپنے لیے ہدایت سمجھا اور سیدھا پینٹر کے پاس جاکر ایک بڑے سے بورڈ پر لکھوا کر دم لیا۔

یہ 1984ء کا تیسرا مہینہ اور چو تھی تاریخ تھی۔ 1۔ اے ذیلدار پارک اچھرہ لاہور جس کے ایک کمرے میں میری رہائش تھی، اسی بلڈنگ کی دوسری منزل پہ جب یہ بورڈ لگوا چکا تو ایسا محسوس ہوا جیسے مولانا اس راستے سے گزرے ہوں اور انہوں نے مسکراکر مجھے دیکھا ہو۔ وہاں سے ٹھیک ایک گھر اور ایک ڈسپنسری چھوڑ کر ان کا گھر تھا۔ ادارہ مطبوعات کا انچارج بنا تو اسی جملے کو پہلی بار کاپیوں، کیلنڈروں اور اسٹیکروں کی زینت بنایا کہ شہر شہر دیوار پر چاکنگ کا پسندیدہ جملہ بن گیا۔

۔5 ۔ اے ذیلدارپارک یعنی مولانا محترم کا گھر جہاں برسوں ہم ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں ادا کرتے رہے، ان کے برآمدے میں بچھی صفوں کے ساتھ ہی وہ دروازہ تھا جس کے پیچھے بیٹھے میں نے ان کو پہلی بار1979ء میں دیکھا تھا اور دل ہار دیا تھا۔ تب ایس ای کالج بہاولپور میں طلبہ یونین کا الیکشن جیت کر میں یو نین کا جوائنٹ سیکرٹری بن چکا تھا اور اپنے صدر میاں طفیل (اسکواڈرن لیڈر) اور ظفراللہ عالم (تب سی آر اب اسسٹنٹ کمشنر) کے ہمراہ اسلام آباد جاتے ہوئے لاہور ان کو دیکھنے رکا تھا، میرے ساتھ والی کرسی پر انہوں نے نماز پڑھی میں کن اکھیوں سے انہیں دیکھتا، ان کے بے شکن کپڑوں اور عمدگی سے تراشی ہوئی داڑھی میں کھویا رہا۔ نماز کے فوراً بعد انہیں واپس اپنے مطالعہ کے کمرے میں لے جایا گیا۔ ان سے محبت کرنے والے دو طرح کے لو گ تھے۔ ایک وہ جو انہیں پڑھ کر نئے سرے سے مسلمان ہونے کی خوشی اور لذت سے ہم کنار ہوئے تھے، انہیں لگتا تھا برسوں سے وہ اپنے رب کو مسلمان ہونے کے باوجود نہ جان پائے نہ مان پائے۔ مولانا محترم نے انگلی پکڑکر رب سے، اس کی پسند سے، اس کی کتاب سے اور اس کے پسندیدہ نظام اور تصورِ زندگی سے ایسا جوڑ دیا جیسے کسی نے دلائل کی ایلفی لگادی ہو۔ ان میں طالب علم اور پڑھے لکھے لوگ زیادہ تھے۔ دوسری طرح کے لوگ جنہوں نے انہیں سنا، دیکھا، ان کے بارے میں ڈھیروں الٹی سیدھی باتیں سنیں اور پھر عصر کے بعد ان کے لان میں بیٹھ کر انہیں دیکھا اور سنا، جہاں روز عصری مجلس منعقد ہوتی، انہوں نے انہیں دھیمے، مضبوط، مہربان اور معاف کرنے والے عالم، استاد اور انسان کے طور پر دیکھا جسے غصہ نہ آتا تھا، جو اپنے خلاف بات سن کر بے مزہ نہ ہوتا تھا، معاف کردیتا تھا۔ اپنی محفل اور الفاظ میں دوسروں کے خلاف بات کرنے پر آمادہ نہ ہوتا تھا۔ انہیں پڑھا تو پتا چلا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی اپنے عہد کے اُن نوجوانوں میں سے منفرد مقام اور مرتبہ رکھتے ہیں جنہیں مدارس یا انگریزی اسکولوں سے تعلیم پانے کا موقع ملا، انہوں نے اپنے ذاتی مطالعے کو ایک نظام اور مقصد کے تحت اتنی عمدگی سے مکمل کیا کہ وہ اردو، عربی اور انگریزی کی تمام تاریخی اور دینی کتابوں کو فہم اور تدبر کے اس درجے تک لے گئے جہاں دنیا نے خود انہیں ایک عالم اور مفکر کے طور پر تسلیم کرلیا۔
میں مولانا کی طلبہ کے لیے بنائی گئی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ بن چکا تھا جب انہیں دنیائے اسلام کے سب سے بڑے عالم اور مفکر کا ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ بہت اعزاز کی بات تھی۔ مولانا نے ایوارڈ کو قبول کرکے اس کی عزت اور وقعت بڑھا دی مگر دنیا حیران رہ گئی کہ اس پاک نفس رہنما نے ایوارڈ کے ساتھ ملنے والے پانچ لاکھ روپے جو آج کے پانچ کروڑ سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل تھے، کراچی اور لاہور میں ادارہ معارف اسلامی بنانے اور دین کے فکری کام کو آگے بڑھانے کے لیے وقف کردیے اور ایک لاکھ شاید جمعیت کو بھی دیئے تھے۔ میری سوچ کو مولانا کی جس تحریر نے تبدیل کیا وہ ’’خطبات‘‘ حصہ دوم تھی۔ اور اس میں خاص طور پر وہ خطبہ جس میں وہ نمازوں کے بے اثر ہونے کی وجہ بتاتے ہیں۔ میں فلم بھی شوق سے دیکھتا تھا اور نمازیں بھی باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ پسند اور ناپسند کے معیارات اپنی مرضی، مفاد اور ضرورت کے لحاظ سے بنتے اور بگڑتے تھے۔ پھر یہ بھی خیال تھا کہ ایسا کیا ہے کہ ملک میں تبدیلی نہیں آتی، اسلامی سوچ رکھنے والے لوگ حکمران بن کر ہر طرف خیر و سلامتی اور انصاف کا بول بالا کیوں نہیں کردیتے؟ تب انہوں نے رہنمائی کی کہ یہ جو تمھاری دیوار پر وال کلاک لگا ہے یہ تب ہی چلے گا اگر بنانے والے کی مرضی کے مطابق چلاؤ گے۔ اپنی پسند کے بڑے بڑے پرزے لگانے سے یہ وہ کام کبھی نہیں کرے گا جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔ خطبات ایسی شاندار کتاب ہے کہ جس جس نے پڑھی اس کی سوچ بدل کر رہ گئی۔ چند برس قبل ہمارے مرحوم دوست عبدالحفیظ احمد نے خطبات کے 100 ایڈیشن مکمل ہونے پر ایک سال کے اندر اسلامک پبلی کیشنزکی طرف سے ایک لاکھ کاپیاں فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ مشورے کے لیے خصوصی طور پر میرے دفتر بھی تشریف لائے۔ کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ لوگ اب کم پڑھتے ہیں، شاید ممکن نہ ہو۔ مگر الحمدللہ مولانا کی تحریرکی تاثیر اسی شدت سے قائم ہے اور اس کو پڑھنے کا ذوق اور شوق بھی۔ پہلی کاپی جناب سراج الحق نے خریدی۔ مجھے البتہ حفیظ بھائی نے تحفۃً پیش فرمائی۔ مولانا سے ان کی محبت بھی مثالی تھی۔ 5 اے ذیلدارپارک کی عصری مجلسوں کی روداد میں اکثر انہی سے سنا کرتا۔ میرے دوستوں میں جنہیں مولانا محترم کی قربت ملی ان میں صفدر چودھری شامل ہیں۔ انہیں ان کی خدمت کا موقع ملا، ان کو قریب سے دیکھنے اور ان کی ٹیم کا حصہ بن کر کام کا بھی۔ قربت ہمیشہ محبت پیدا نہیں کرتی مگر صفدر چودھری صاحب کی یادیں بہت مثالی اور خوشی اور رہنمائی دینے والی ہیں۔
جناب ظفر جمال بلوچ جمعیت کے ناظم اعلیٰ بھی رہے اور مولانا کی نوجوانوں سے محبت کے گواہ بھی بنے۔ ان کی تو شادی کا اہتمام بھی مولانا نے خود ہی کیا۔ ان سے بھی بہت باتیں سنیں۔ میرے بہاولپور کے قیام اور کام کے دوران استادِ محترم میاں سعید صاحب جو تب ایس ای کالج بہاولپور میں کیمسٹری کے استاد تھے، بتایا کرتے تھے کہ وہ شیخوپورہ سے عصری مجلس میں شرکت کے لیے آتے اور علم و محبت کے اس سرچشمے سے فیض یاب ہوتے، وہ آج تک اس سحر میں ہیں۔ مجھے مولانا کے بارے میں لکھی ایک کتاب ’’5۔ اے ذیلدار پارک‘‘ ہمیشہ بہت پسند رہی۔ یہ ان کی مجلس کے احوال، سوالات اور جوابات کی اتنی عمدہ عکاسی کرتی ہے کہ پڑھنے والا مولانا کے حضور حاضر ہوجاتا ہے۔ یہ کتاب حفیظ الرحمان احسن اور عبدالحفیظ احمد نے شائع کی تھی۔ دو جلدوں میں ملاکرتی تھی۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی کی لکھی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ پڑھی تو پہلی بار پتا چلا کہ قرآن پاک کا موضوع ہی ’’انسان‘‘ ہے۔ اس کے بعد اس کو پڑھنا اور سمجھنا بے حد آسان ہوگیا۔ ماشاء اللہ یہ تفسیر لاکھوں کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔ مولانا کے ترجمہ القرآن کی تعداد بھی چار لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔
25 ستمبر 1903ء سے زندگی کا سفر شروع کرنے والے سید ابوالاعلیٰ نے حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی اور ستمبر 1979ء میں لاہور میں اپنی آخری آرام گاہ میں جا سوئے۔ بفیلو امریکا سے لاہور آنے تک ہر ائیرپورٹ پر انہیں دعاؤں اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش ہوا۔ جنازے کے موقع پر قذافی اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی۔ تب پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق کو ہیلی کاپٹر میں اسٹیڈیم لانا پڑا تھا۔ رش کا یہ عالم تھا کہ اسٹیڈیم میں گھستے اور نکلتے وقت کتنے ہی لوگ زخمی ہوگئے۔ ہمارے بچپن کے ساتھی ظفر جو شاید چشتیاں سے جنازہ پڑھنے کے لیے لاہور آئے تھے، اُن کی پسلیاں اسی رش میں ٹوٹنے کے باعث کتنا عرصہ انہیں تکلیف دیتی رہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جنازہ پڑھنے اور آنسو بہانے والے وہ نوجوان جو اپنے مرشد کے لیے دعاؤں کا نذرانہ لے کر آئے تھے، جس نے انہیں زندگی گزارنے، اپنی زندگی ہی نہیں دوسروں کی زندگی بھی تعمیر کرنے، بہتر بنانے کا راستہ دکھایا اور یہ بھی بتایا تھا کہ ایسا کرنے سے وہ معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرنے والے لوگ غالب ہوں گے اور ملک و حکومت کے نظام کی اصلاح کرکے معاشرے کو ایک اسلامی اور فلاحی معاشرہ بناسکیں گے۔ ان کے سفرِ آخرت کے موقع پر بی بی سی لندن کے صدر ایوب کے زمانے کے ممتاز بیوروکریٹ اور ممتاز دانش ور الطاف گوہر نے لندن ائیرپورٹ پر جنازہ پڑھنے جاتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور سے جب جلدی چلنے کو کہا تو اس نے پوچھا کہ کیا کوئی عزیز ہے؟ الطاف گوہر کا جواب تھا: عزیز نہیں عزیز جہاں ہے۔
ایسے عالمِ بے بدل کو یاد کرنے کے لیے کوئی دن، مہینہ یا سال مختص نہیں ہوسکتا، مگر ہم روایات سے بندھے لوگ اپنی محبتوں کے اظہار کے لیے کوئی مخصوص دن ڈھونڈتے ہیں۔ 5۔اے ذیلدار پارک والے گھر کے لان میں تہہ خاک سوئے ہوئے سید ابوالاعلیٰ نے کب سوچا ہوگا کہ ان کی وفات کے ربع صدی سے زائد وقت گزر جانے کے بعد بھی وہ تیسری نسل کے دلوں میں ان کے آباو اجداد کی محبت سے زیادہ محبت کے ساتھ یاد کیے جارہے ہوں گے۔ وہ گھر اب سید ابوالاعلیٰ لائبریری بن چکا ہے جہاں جمعیت کے نوجوان اپنے مرشد کو یاد کرتے ہیں، ان کو پڑھتے ہیں اور ان کے پسندیدہ معاشرے کو بنانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اسی گھر سے متصل ایک گھر کو ان کی صاحب زادی حمیرا مودودی نے خرید کر ابوالاعلیٰ مسجد بنادی ہے، جہاں پانچ وقت نماز ادا کرنے والے جب باہر نکلتے ہیں تو انہیں سید کی قبر نظر آتی ہے اور وہ ان کے درجات کی بلندی کی دعا اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں، جس کی تاثیر لان میں کھلے موتیا کے پھولوں کی خوشبو میں رچ بس کر ان تک پہنچتی ہوگی۔ وہ زندگی بھر انسانوں کی فطری الجھنوں کو سلجھاتے، راحت دیتے اور اپنے رب سے ملاتے رہے۔ ان کے جانے کے بعد ان کی یادیں اور دعائیں بھی خوشبوؤں سے لپٹی ہوئی ہیں۔
چند ماہ قبل اقبالیات کے ممتاز ماہر احمد جاوید نے مولانا محترم کے حوالے سے کچھ باتیں کیں۔ سن کر مجھے وہ اچھے لگنے لگے۔ میں کبھی کبھی مسکرا دیتا ہوں کہ ہم کتنے ہی بڑے اور سمجھ دار ہوجائیں، ہماری محبتیں ہمیشہ پسند و ناپسند کے ایسے غلاف میں چھپے تعصب سے جڑی ہوتی ہیں جو ہم نے اپنی اپنی مرضی سے چڑھا رکھا ہوتا ہے۔ جو جو ہمارے محبوب کو پسند کرتا، اسے جانتا اور عزیز رکھتا ہے وہی ہمیں عزیز ہوتا ہے۔ کوئی سو بار کہے مگر اس معیار کو بدلنا بڑا ہی مشکل ہوتا ہے۔
میری زندگی کا 1988ء میں حصہ بننے والے اشفاق احمد بے شک بڑے ڈراما نگار، افسانہ نگار اور تمثیل نگار تھے، تصوف کے دروازے پر دستک دیتے وہ خود تو صوفی نہ بنے مگر کتنے ہی لوگوں کو اس راہ سے آگاہ کرگئے۔ ان کی باتیں سننا، انہیں دیکھنا، ان کی داستانوں میں کھو جانا سب برحق۔ وہ آسانیاں دیتے، آسانیاں دینے کا گر سکھاتے۔ پورے شہر میں ان سا بڑے دل والا، صاحبِ حال بابا کوئی اور نہیں تھا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ میرے دل میں وہ تبھی اترے جب انہوں نے میرے مرشد کا ذکر پیار و محبت سے کیا۔ کبھی اختلاف بھی کیا تو میرے دل کو دونوں ہاتھوں میں محبت سے تھام کر، دھیرے سے کہ اختلاف کرنے کے بھی تو آداب ہوتے ہیں۔ 7 ستمبر 2004ئکو وفات پا جانے والے اس بابے نے بھی ستمبر ہی چنا، رخصت ہونے کے لیے۔ وننگ لائن پر پہنچانے والا یہ دوسرا بابا ہے جو میری زندگی میں آیا اور اسے نکھار گیا۔
مولانا محترم کی ایک بات عہدِ حاضر میں سب سے نرالی ہے۔ وہ یہ کہ ملک کے اندر تو وہ محبت اور تعلق کا حوالہ ہیں ہی، ملک سے باہر جہاں جہاں جانے کا اتفاق ہوا، جو محبت ان کے حوالے سے ملی اس کی اپنی الگ لذت ہے۔ بہت سوں کو ’’دینیات‘‘ پسند ہے،کسی کو “Towards Understanding Islam”کہ یہ نوجوانوں سے لے کر بچوں تک سب کے لیے قابلِ فہم ہے۔ اور کمال اس بات کا یہ ہے کہ وہ فہمِ اسلام ہی تبدیل کردیتی ہے۔ پورا تصور ایسا کہ ذہنی خلجان اور روحانی پریشانیوں کا درماں بنتا ہے۔ وہ جذبات سے ہٹ کر دلیل کی زبان اختیار کرتے ہیں اور منواکر اپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑا کردیتے ہیں۔ ’’دینیات‘‘ میں انہوں نے لکھا: ’’انسان اپنے لیے زندگی کا کوئی بھی راستہ منتخب کرنے میں آزاد ہے۔ کوئی بھی عقیدہ رکھ سکتا ہے۔ وہ اپنے رویّے اور کردار کا تعین کرسکتا ہے۔ اپنے ذہن سے سوچنے، منتخب کرنے اور مسترد کرنے، اختیار کرنے یا چھوڑ دینے کی طاقت رکھتا ہے‘‘۔ انہوں نے قرآن کریم کی ایک آیت ’’لیس اللانسان الا ماسعا ‘‘ کو سمجھنا آسان کردیا ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے وہ مسلمان جو اللہ کے دین کو غالب کرنے کے خواہش مند ہیں ان کے درمیان مولانا محترم اور ان کا لٹریچر سب سے مضبوط کڑی ہے، محبت اور تعلق کی، اس کے بعد کسی تعارف کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ وہ امریکا کا کوئی شہر ہو یا جنوبی افریقہ کا کوئی مقام، مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک ہو یا ایشیاء کا۔۔۔ مولانا کی تحریروں کی تاثیر اور اثرات کی خوشبو ہر جگہ ہے۔ کہیں اردو کتاب کے ذریعے، تو کہیں انگریزی، سواحلی، فارسی، چینی، روسی اور عربی کے ذریعے۔ کم از کم پچاس زبانوں کا تو مجھے علم ہے جن میں سید مودودی کی تعلیمات اور ان کی تحریریں ترجمہ ہوچکی ہیں۔
مولانا محترم کی ایک کتاب ’’تنقیحات‘‘ ہے۔ کیا باکمال اور دل پذیر تحریر ہے۔ کچھ لوگ مشکل نام سمجھ کر آگے نکل جاتے ہیں۔ اس میں ایک لفظ، ایک فکر اور ایک لائحہ عمل کا ذکر ہے۔ مولانا چاہتے ہیں کہ تحریک اسلامی کا ہر فرد مرجع خلائق بنے۔ یہ مرجع خلائق سو خوبیوں کی ایک پیکیج ڈیل سمجھیں۔ نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، معاف کرنے والا، صاحبِ دل، صاحبِ کردار، صاحبِ فہم، صاحبِ تدبر، صاحبِ رائے، صاحبِ مشورہ، صاحبِ مطالعہ، صاحبِ تقریر، صاحبِ تفسیر، صاحبِ تحریر جیسی خوبیوں کا مرقع۔ اس سے ملنے کے بعد کسی اور طرف جانے کی وجہ ہی باقی نہ رہے۔ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حکم سے ایسے ہی صحابہؓ تیار کیے جو ان کے نمائندہ بنے اور جہاں جہاں گئے مرجع خلائق ٹھیرے۔ تحریکِ اسلامی کا حصہ بننے والے نوجوان اور جذبات سے بھرے احباب جو سوشل میڈیا پر ہر ہر بات، واقعہ اور خبر پر ذاتی تبصرہ فرماتے ہیں اُن کی نظر سے مولانا محترم کی اس برسی پر یہ کتاب اور تحریر تو ضرور گزرنی چاہیے۔ مرجع خلائق دل توڑنے والا تبصرہ کرکے بدمزگی کا شکار ہونے والا، ہر موقع پر ذاتی رائے دے کر دلوں کو تنگ کرنے والا تو کسی صورت نہیں ہوسکتا۔ مولانا محترم عمر بھر تنقید کے تیر سہتے اور طنز و الزام سنتے رہے مگر ان کے الفاظ اور زبان کسی سخت جواب سے آلودہ نہ ہوئے۔ آج ان سے محبت کرنے والے انہیں بہت اچھا تحفہ دیں گے۔ اپنی اور ان کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ اور اسلامی تحریک کی قوت اور دعوت کے فہم و توسیع کی وجہ قرار پائیں گے۔ اور وہ مولانا کی تحریروں کو لقمہ لقمہ کرکے دوبارہ سے اپنی ذات کا حصہ بنائیں۔
باتیں اور یادیں پرانی ہوکر گم ہوجاتی ہیں اگر انہیں تازہ دم محبت کے ساتھ دہرایا نہ جائے، مولانا کی یادوں کے پھول خشک نہ ہوں، ان کی خوشبو برقرار رہے اور اثر کرتی رہے۔ اس کا ایک آسان حل اور راستہ مولانا سے جڑے، ان کے قریب رہنے والے منتخب افراد، اصحاب و احباب سے ملاقاتیں بھی ہیں اور مولانا کی کتابیں بھی، جو کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ ان کے پیغام کی خوشبو کبھی کم نہیں ہوتی۔
پاکستان کی گزشتہ سیاست پر ایک نظر ڈالیے تو یہ طرح طرح کی شدید محاذ آرائیوں سے عبارت نظر آئے گی۔ ان محاذ آرائیوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے درمیان قرون وسطیٰ کے مذہبی فرقوں کی طرح عداوت اور منافرت کا بازار گرم ہوا، لیکن مولانا کی سیاسی بصیرت اس صورت حال پر دکھ بھی محسوس کرتی تھی اور اس کے نقصانات پر بھی ان کی نظر تھی۔ اس وجہ سے انہوں نے ہمیشہ ہر سیاسی فریق اور ہر سیاسی مکتب فکر کو صبر و تحمل، برداشت، رواداری اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے اور قبول کرنے کا مشورہ دیا تاکہ ملک میں وہ معقول اور معتدل سیاسی فضا قائم ہو جو کہ جمہوریت کے ارتقاء کے لیے ضروری ہے اور جس کے بغیر جمہوریت خانہ جنگی میں تبدیل ہوجاتی ہے یا آمریت کی طاقتوں کو جمہوریت اور سیاست کی بساط الٹ کر اپنا تخت بچھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا کی ایک فکر انگیز تحریر ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘جلد 44 شمارہ 5 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ تحریر مولانا کے سیاسی تصورات اور ان کی سیاسی بصیرت دونوں کی آئینہ دار ہے۔ مولانا اس مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے ہاں اختلافات کی فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔ فکرو نظر کے اختلافات، اغراض و خواہشات کے اختلافات، گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے ابھرتے رہے ہیں اور ابھرتے چلے جارہے ہیں، جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اس میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے، کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس صورت حال نے ہر پہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کررہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو۔
اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں اختلافات اور مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے ذہن کو اُن بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب، یا کم از کم باشندگانِ پاکستان متفق ہوسکیں، جن پر متفق ہوکر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجائے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔
ایسی بنیادیں تلاش کرنا درحقیقت مشکل نہیں ہے، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن وجوہِ نزاع کرید کرید کر نکالنے کے بجائے اساساتِ اتفاق ڈھونڈنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ذرا سا زاویۂ نظر بدل جائے تو ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اساساتِ اتفاق ہمارے قریب ہی موجود ہیں۔ ہم انہیں اپنے مذہب میں پاسکتے ہیں، دنیا کے تجربات میں پاسکتے ہیں اور عقلِ عام کی صاف اور صریح رہنمائی میں پاسکتے ہیں۔
اوّلین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلاف اگر ایمان داری کے ساتھ ہو، دلائل کے ساتھ ہو اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اسی طرح مختلف نقطہ ہائے نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انہیں دیکھ کر خود رائے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں، تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہوسکتا، لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘ کا ابلیسی اصول اختیار کرکے اس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے، اس کے نقطہ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلافات ہوں تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو متہم کرڈالے اور ہاتھ دھوکر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف دینی حیثیت سے گناہ اور اخلاقی لحاظ سے معیوب ہے بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی بدولت معاشرے کے مختلف عناصر میں باہمی عداوتیں پرورش پاتی ہیں، اس سے عوام دھوکے اور فریب میں مبتلا ہوتے ہیں اور اختلافی مسائل میں کوئی صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔ اس سے معاشرے کی فضا میں وہ تکدر پیدا ہوجاتا ہے جو تعاون و مفاہمت کے لیے نہیں بلکہ صرف تصادم و مزاحمت ہی کے لیے سازگار ہوتا ہے۔ اس میں کسی شخص یا گروہ کے لیے عارضی منفعت کا کوئی پہلو ہو تو ہو، مگر بحیثیتِ مجموعی پوری قوم کا نقصان ہے جس سے بالآخر وہ لوگ خود بھی نہیں بچ سکتے جو اختلافات کے اس بے ہودہ طریقے کو مفید سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔ بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔
دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے، وہ ہے اختلافات میں رواداری، ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش اور دوسروں کے حقِ رائے کو تسلیم کرنا۔ کسی کا اپنی رائے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے، لیکن رائے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کرلینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہماری رائے سے مختلف کوئی رائے ایمان داری کے ساتھ قائم نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا جو کوئی بھی دوسری رائے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کردیتی ہے۔ اختلافات کو مخالفتوں میں تبدیل کردیتی ہے اور معاشرے کے مختلف عناصر کو جنہیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں۔ اس کا نتیجہ اگر کچھ ہوسکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ مدتِ دراز تک معاشرے کے عناصرِ ترکیبی آپس کی کشمکش میں مبتلا رہیں، اور اُس وقت تک کوئی تعمیری کام نہ ہوسکے جب تک کوئی ایک عنصر باقی سب کو ختم نہ کردے، یا پھر سب لڑ، لڑا کر ختم ہوجائیں اور خدا کسی دوسری قوم کو تعمیر کی خدمت سونپ دے۔ بدقسمتی سے نارواداری اور بدگمانی اور خودپسندی کا یہ مرض ہمارے ملک میں ایک وبائے عام کی صورت اختیار کرچکا ہے، جس سے بہت کم ہی لوگ بچے ہیں۔ حکومت اور اس کے ’’اربابِ اختیار‘‘ اس میں مبتلا ہیں، سیاسی پارٹیاں اس مبتلا ہیں، مذہبی گروہ اس میں مبتلا ہیں، اخبار نویس اس میں مبتلا ہیں، حتیٰ کہ بستیوں، محلّوں اور دیہات کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں تک میں اس کے زہریلے اثرات اتر گئے ہیں۔ اس کا مداوا صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں اثر ونفوذ رکھتے ہیں، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیرِاثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعتِ ظرف کا سبق دیں۔
تیسری چیز جسے اُن تمام لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہیں‘ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجائے اپنی مثبت چیز پیش کرنے میں صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ بسا اوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے، مگر اس نفی کو اس حد تک رہنا چاہیے جس حد تک ناگزیر ہو اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ کررہے ہیں اس کی مذمت کی جائے، اس کے متعلق لوگوں کی رائے خراب کردی جائے۔ بعض لوگ تو اس منفی کام سے آگے بڑھ کر سرے سے کوئی مثبت کام کرتے ہی نہیں، اور کچھ دوسرے لوگ اپنے مثبت کام کے فروغ کا انحصار اس پر سمجھتے ہیں کہ میدان میں ہر دوسرا شخص جو موجود ہے اس کی اور اس کے کام کی پہلے مکمل نفی ہوجائے۔ یہ ایک نہایت غلط طریقہ کار ہے اور اس سے بڑی قباحتیں رونما ہوتی ہیں۔ اس سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں، اس سے تعصبات ابھرتے ہیں، اس سے عام بے اعتباری پیدا ہوتی ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے عوام کو تعمیری طرز پر سوچنے کے بجائے تخریبی طرز پر سوچنے کی عادت پڑتی ہے۔
یہ روش خصوصیت کے ساتھ موجودہ حالت میں تو ہمارے ملک کے لیے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے جو ایک (دینی یا سیاسی) قیادت پر سے اعتماد اٹھ جانے اور دوسری قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے۔ اس خلا کو اگر کوئی چیز بھر سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنارہا ہے، کیا کچھ بنانا چاہتا ہے اور کس کے ہاتھوں میں کیا بننے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی چیز آخرکار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کرسکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا۔ لیکن اگر صورت حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجائے دوسروں کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے اور ساری قوم بن سری ہوکر رہ جائے گی۔
ایک اور بات جسے ایک قاعدہ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے، جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے، اور کوئی اپنی تجویز اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو تو وہ بزور نافذ کرنے کے بجائے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو سمجھتا ہے یا ملک و ملت کے لیے صحیح اور مفید خیال کرتا ہے اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اٹھے اور زبردستی لوگوں پر اس کو مسلط کرنے کی کوشش شروع کردے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش، مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز تو مسلط ہوسکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے۔ جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا اثر ونفوذ کی، وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انہیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضائے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس طاقت کافی ہے، لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہ وبالا کردیے ہیں، ان کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹا کر بے تکے تغیرات و انقلاب کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ پاکستان کے حکمران و رہنما اگر واقعی اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں تو انہیں دھونس کے بجائے دلیل سے اور جبر کے بجائے ترغیب سے کام لینے کی عادت ڈالنی چاہیے، اور اسی طرح پاکستان کے عام باشندے بھی اگر اپنے بدخواہ نہیں تو انہیں اس بات پر متفق ہوجانا چاہیے کہ وہ یہاں کسی کی دھونس اور زبردستی نہ چلنے دیں گے۔
اسی سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کرکے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا، ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا، یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دلچسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے، اس کی تو نہ کسی طرح مذمت کی جاسکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے، مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دلچسپیوں کی بنا پر تعصب اختیار کرنا شروع کردیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اترآتے ہیں تو یہ چیز ملک اور ملت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا گیا تو ملک پارہ پارہ ہوجائے گا اور ملت کا شیرازہ بکھر جائے گا، جس کے برے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر شخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ جس فرقے، قبیلے، نسل، زبان یا صوبے سے اس کا تعلق ہو اُس کے ساتھ اس کی دلچسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دلچسپی جب تعصب کی شکل اختیار کرے گی، تباہ کن ثابت ہوگی۔ ہر تعصب لازماً جواب میں ایک تعصب پیدا کرتا ہے، اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کرتا ہے، پھر بھلا اس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کے اجزائے ترکیبی آپس میں برسرپیکار ہوں!
ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے۔ کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بنا پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحہ عمل رکھتے ہوں انہیں منظم ہوکر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی کے ہی خواہاں اور اس کے لیے کوشاں ہوں، اور دوسری شرط یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو، اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے۔ ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہوگی، اس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنادے گا‘‘۔

حصہ