’’حسین حقانی دوڑ ابھی جاری ہے‘‘

189

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
مکرمی پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب!!
ہفت روزہ ’’فرائی ڈے اسپیشل‘‘ کے شمارہ نمبر 36، مؤرخہ 2 تا 8 ستمبر، 2016ء میں، آپ کا مفصَّل مضمون، جناب حسین حقّانی کے بارے میں پڑھا۔ آپ نے اِس قصۂ ماضی کو جس طرح مْصَوَّر و مْشَکَّل و مْجَسَّم کردیا ہے، اُسے ’’دیکھ‘‘ کر مزا آگیا۔ اللّٰھم زِد فَزِد!!
ہمارے خیال میں، یادِ ماضی، ہمیشہ عذاب ہی نہیں ہوتا۔ کبھی یہ خوشگوار و پُرلطف فسانہ بھی ہوتا ہے۔ کبھی عبرت کا تازیانہ، اور کبھی حقیقت کا آئینہ بھی بن جاتا ہے۔ آپ کی مذکورہ بالا تحریر، اِن سب کا مُرَکَّب نظر آئی۔ بہت سی بھولی بسری باتیں یاد آئیں۔
مثلاً یہ کہ اُس زمانے کے ہمارے بھائی اور دوست، (اور اب کے ’’اجنبی‘‘)، حسین حقّانی صاحب نے جامعہ کراچی سے، ایم اے بین الاقوامی تعلقات میں، پہلی پوزیشن لی۔ اِس پر میں نے اُن سے کہا کہ بھائی، اِس شعبہ عِلم میں ہم تقریباً ناپید ہیں۔ اللہ نے آپ کو اِس میدان میں بہت کچھ کرنے کے قابل بنایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ بطورِ استاد، یونیورسٹی جوائن کرلیں۔ آپ کا ہدف، بہترین طلبہ و طالبات کو، اسلام اور تحریکِ اسلامی کے ورلڈ ویو والے انسان بنانا ہو۔ تاکہ وہ ملّتِ اسلامیہ اور اسلام کے کام آسکیں۔ یوں انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر کے طور پر آپ بہت بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔
میری اِن گزارشات پر، ہمارے اُس وقت کے اِن بھائی اور دوست نے جواب دیا کہ ’’شاہد بھائی، آپ نے مجھے اَنڈر اسٹیمیٹ کیا ہے‘‘۔
اِس جواب پر مَیں سوچتا رہا کہ اسلامی انقلاب، دنیا بھر میں غلبۂ اسلام اور بالآخر رضائے الٰہی کے خواب دیکھنے اور تمنا کرنے والے نوجوان کے لیے، ’’انسان سازی‘‘ اور فروغِ فکرِ اسلامی سے بڑا کام اور کیا ہوسکتا ہے؟۔۔۔ ایسا ’’بڑا کام اور منزل‘‘ کہ جس پر بھائی حسین حقانی کی تو نظر ہے، مگر وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔
اس کے بعد کے تیس پینتیس سال، ہم نے اپنے سابق ساتھی کو جس صحرائے سَراب و خواب میں، بے حال اور بگٹٹ بھاگتے دیکھا، اُس نے اُن کے مَطمحِ نظر کی وضاحت کردی۔
بس مجھے یہ حسرت ہوتی رہی، اور اب بھی ہوتی ہے کہ کاش ہمارے یہ بھائی اور ساتھی، اُس وادئ عشق و آرزو ہی کے راہی و سپاہی رہتے، جہاں قدرت نے اپنے کرم سے، اُنھیں پیدائشی طور پر مامور کیا ہوا تھا، تاکہ ایک طرف اُن کی قوت و صلاحیت، دین و ملّتِ اسلامیہ اور اسلامی تحریک و جُہد کے کام آتی، تو دوسری طرف وہ (آپ کے الفاظ میں) ’’آخری فیصلہ‘‘ میں بھی سرخ رُو اور کامیاب ٹھیرتے۔
اب مَیں سوچتا ہوں کہ ہمارے، آپ کے اور اُن کے، کشکولِ حیات میں، مزید کتنے سال باقی رہ گئے ہوں گے؟ زندگی کے بہترین، نہایت تر و تازہ، قوتِ عمل سے بھرپور اور اُمنگوں اور رنگوں سے معمور و مخمور و معطر، مہ و سال تو ہم لوگ گزار آئے ہیں۔ ہماری زندگی کا سورج، نصف النہار سے آگے جا چکا ہے۔ اب وہ تیزی سے ڈھلتا ہی جائے گا۔
ہمارے حصے کی، جو ’’عزت، شہرت، دولت اور محبتیں‘‘ کاتبِ تقدیر نے لکھ دی تھیں، وہ مل چکی ہیں، مل رہی ہیں اور مل جائیں گی۔ مگر ’’انجامِ کار‘‘ ہاتھ میں کیا آئے گا؟
یہ ہے اصل سوال۔۔۔!!
کبھی کبھی مجھے یہ لگتا ہے (یا شاید یہ محض میری خواہش ہو) کہ جناب حسین حقانی، ایک بھرپور اور ’’حتمی یوٹرن‘‘ لے کر، اپنی متروک جادہ و منزل پر لوٹ آئیں گے۔ اُن کا یہ ’’حتمی یو ٹرن‘‘ اُن کے سابقہ سارے صفحاتِ حیات کو، اُجال دے گا۔۔۔ اِن شاء اللہ۔۔۔!!!
بے شک یہ بات، اللہ کریم کی توفیق و کرم کی محتاج ہے۔ تو اپنے رَبِّ کریم سے، اُس مَنبَعِ عَفو و کرم جَلِّ شانہٗ سے، اپنے لیے اُس کا عَفو و کرم مانگتے ہوئے، کیوں نا ہم دوسروں کے لیے بھی، اور اپنے اِن سابق ساتھی و بھائی کے لیے بھی، اُس کے عَفو و کرم کا سوال کریں؟
برادرِ مکرم، ڈاکٹر طاہر مسعود، آئندہ بھی، آپ کے قلم سے بہت سی عمدہ، ذہن کُشا اور عِلم اَفزا تحریروں کی توقع ہے۔
اللہ کریم، آپ کو تادیر سلامت رکھیں، اچھا اور خوش رکھیں، اور آپ سے ہمیشہ راضی رہیں۔
طویل گفتگو کے لیے معذرت!
والسلام!
شاہد ہاشمی۔ کراچی

حصہ