قیصروکسریٰ قسط(86)

333

اُس کی بدحواسی نے عاصم کے شبہات میں اضافہ کردیا۔ میدان میں پہلوانوں کی زور آزمائی شروع ہوچکی تھی۔ لیکن عاصم کو اب کھیلوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ بار بار اِس آدمی کی طرف دیکھتا اور ہر بار اپنے دل کی دھڑکنوں میں اضافہ محسوس کرتا۔ میدان میں ایک قوی ہیکل رومی دو پہلوانوں کو چت کرنے کے بعد ایک نئے مدمقابل کے ساتھ زور آزمائی شروع کرچکا تھا اور تماشائی داد و تحسین کے نعرے بلند کررہے تھے۔ عاصم اچانک اپنی جگہ سے اُٹھ کر ولیریس کے قریب پہنچا اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر اُٹھاتے ہوئے بولا۔ ’’ولیریس اگر تمہیں تکلیف نہ ہو تو تم میری جگہ بیٹھ جائو‘‘۔

ولیریس کشتی دیکھنے میں اِس قدر منہمک تھا کہ وہ کوئی سوال کیے بغیر اُٹھ کر عاصم کی جگہ بیٹھ گیا، اور عاصم نے اُس کی جگہ لے لی… قدرے توقف کے بعد اُس نے سیتھین کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا، اور فارسی میں کہا۔ ’’ایرج تم نے مجھے ابھی تک نہیں پہچانا؟‘‘۔

اور ایرج جس کے خون کا ہر قطرہ منجمد ہوچکا تھا اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے سہمی ہوئی آواز میں بولا، ’’میں نے تمہیں پہچان لیا ہے، لیکن یہ جگہ باتوں کے لیے موزوں نہیں‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’لیکن میرا خیال ہے کہ یہ لوگ فارسی نہیں جانتے۔ اور تمہیں یہاں راز کی کوئی بات ظاہر کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ اِس خطرناک مہم کے لیے کسی تجربہ کار آدمی کو بھیجیں گے‘‘۔

ایرج کے چہرے پر قدرے اطمینان کے آثار ظاہر ہونے لگے اور اُس نے پہلی بار مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہاں تمہاری موجودگی میں کسی اور تجربہ کار آدمی کی ضرورت نہ تھی۔ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ تم یہاں پہنچ چکے ہو تو میں اِس مہم کے لیے اپنا نام پیش نہ کرتا۔ لیکن تمہارے متعلق تو وہاں یہ مشہور تھا کہ تم کہیں روپوش ہوچکے ہو‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’جو فرائض میرے ذمے لگائے گئے تھے اُن کی تکمیل کے لیے میرا روپوش ہونا ضروری تھا۔ لیکن میں حیران ہوں کہ میرے بعد سین نے تمہیں یہاں بھیجنے کی ضرورت کیوں محسوس کی انہیں مجھ پر اعتماد کرنا چاہیے تھا‘‘۔

ایرج نے جواب دیا۔ ’’مجھے سین نے نہیں بھیجا ہے۔ میں براہ راست کسریٰ کے حکم سے خاقان کے پاس آیا تھا‘‘۔
عاصم نے کچھ سوچ کر سوال کیا۔ ’’تمہارا مطلب ہے کہ تم سین کے علم کے بغیر خاقان کے پاس پہنچ گئے تھے؟‘‘۔
’’نہیں، اُس نے جواب دیا۔ میں راستے میں سین سے ملا تھا۔ لیکن انہوں نے مجھ سے تمہارا ذکر تک نہیں کیا۔ فسطینہ اور اُس کی والدہ کی باتوں سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ تمہارے متعلق کچھ نہیں جانتے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’ایرج مجھے جس قدر اپنی ناکامی کا افسوس ہے، اُسی قدر تمہاری کامیابی کی خوشی ہے۔ لیکن اپنی مہم کی اہمیت کے پیش نظر تمہیں قیصر اور خاقان کے قریب بیٹھنا چاہیے تھا‘‘۔

ایرج نے قدرے فکر مند ہو کر عاصم کی طرف دیکھا اور دبی زبان میں جواب دیا۔ ’’میں خاقان کے پاس صرف ایک ایلچی کی حیثیت سے پہنچا تھا۔ اور میں اپنا فرض پورا کرچکا ہوں‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’میں نے تمہیں دیکھتے ہی پہچان لیا تھا اور میں بار بار یہ سوچ رہا تھا کہ اگر آوار نے اچانک مار دھاڑ شروع کردی تو تمہارے لیے یہاں سے بچ نکلنے کے امکانات کیا ہیں؟ تمہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ رومی ہر غیر متوقع صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔

ایرج کا اضطراب اب خوف میں تبدیل ہورہا تھا، تاہم اُس نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’میرا گھوڑا یہاں سے زیادہ دور نہیں، اور مجھے اتنا وقت ضرور مل جائے گا کہ میں اطمینان سے اُس پر سوار ہوسکوں‘‘۔

عاصم اپنی توقع سے کہیں زیادہ معلومات حاصل کرچکا تھا اور ہر لحظہ اُس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جارہی تھی۔ اُس نے کہا۔ ’’ایرج اگر خاقان واقعی کسریٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے اِس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا۔ لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر اِس وقت قیصر پر ہاتھ اُٹھانے کی غلطی کی گئی تو رومی ان اڑھائی یا تین سو آدمیوں میں سے ایک کو بھی بچ کر بھاگنے کا موقع نہیں دیں گے۔ وہ ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اِس وقت بھی میدان سے باہر اُن کے پانچ ہزار سپاہی گشت کررہے ہیں اور شامیانے کے اردگرد بھی قیصر کے حفاظتی انتظامات کا یہ عالم ہے کہ اگر اُسے کوئی خطرہ پیش آیا تو رومی آنکھ جھپکنے کی دیر میں خاقان کو موت کے گھاٹ اُتار دیں گے‘‘۔

ایرج نے ملتجی ہو کر کہا۔ ’’عاصم ذرا احتیاط سے باتیں کرو۔ اگر کسی رومی نے ہماری گفتگو کا ایک فقرہ بھی سمجھ لیا تو ہم دونوں کی خیر نہیں‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’تم مطمئن رہو، سردست رومیوں کو کھیلوں کے سوا کسی بات سے دلچسپی نہیں‘‘۔

ایرج بولا۔ ’’میں تمہاری تسلی کے لیے صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ آج کا دن بازنطینی سلطنت کی تاریخ کا منحوس ترین دن سمجھا جائے گا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’ایرج اگر تم کسی مرحلہ پر میری مدد کی ضرورت محسوس کرو۔ تو تم مجھے حکم دے سکتے ہو۔ اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اِس عظیم مہم کی کامیابی کا تمام سہرا تمہارے سر ہوگا۔ اور میں تمہارے اشارے پر جان کی بازی لگانے کے بعد بھی انعام میں حصہ دار بننے کی کوشش نہیں کروں گا‘‘۔

ایرج نے جواب دیا۔ ’’اگر تم میرا حکم مان سکتے ہو تو خاموشی سے یہاں بیٹھے رہو۔ مجھے معلوم نہیں کہ تم کس حد تک رومیوں کا اعتماد حاصل کرچکے ہو، لیکن خاقان کے نزدیک میری حیثیت کسریٰ کے ایک معمولی ایلچی سے زیادہ نہیں اور خاقان کے ساتھیوں سے بعید نہیں کہ وہ مجھے تمہارے ساتھ اِس قدر مانوس دیکھ کر کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں۔ تم نے جس بے تکلفی سے ایک رومی کو یہاں سے اُٹھا کر اپنی جگہ بٹھادیا تھا، وہ اُن کے دِل میں اَن گنت شبہات پیدا کرسکتی ہے۔ تمہارے بائیں ہاتھ بیٹھنے والا دیوقامت سیتھین بڑی دیر سے میری طرف گھور رہا ہے۔ تمہیں میرے ساتھ اس جگہ ہمکلام ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’مجھے اپنی غلطی کا افسوس ہے، لیکن تمہیں دیکھ کر خاموش رہنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ تم اِس وحشی کو تسلی دے سکتے ہو کہ میں تمہارا دوست ہوں‘‘۔

ایرج نے جواب دیا۔ ’’یہ وحشی میری زبان نہیں جانتا اور میں اپنے مترجم اور دوسرے ساتھیوں کو خاقان کے کیمپ میں چھوڑ آیا ہوں۔ وہ یہاں آنے سے ڈرتے تھے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’ایرج اگر بُرا نہ مانو تو میں یہ کہوں گا کہ تمہاری یہ جرأت میری توقع سے کہیں زیادہ ہے لیکن یہ بات ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اگر رُومی قبل ازوقت ہوشیار ہوگئے تو تم اپنی جان کس طرح بچا سکو گے۔ میرے خیال میں وہ لوگ جو گھوڑوں پر بیٹھ کر یہ تماشا دیکھ رہے ہیں، اپنے اُن ساتھیوں سے کہیں زیادہ دور اندیش ہیں جو اِس وقت شامیانوں کے اندر موجود ہیں۔ میرے لیے تمہاری جان کی قیمت ان تمام سیتھین وحشیوں سے زیادہ ہے، اور اگر تم کسی مصیبت میں پھنس گئے تو میں واپس جا کر تمہارے عزیزوں اور دوستوں کو کیا جواب دوں گا‘‘۔

ایرج نے جواب دیا۔ ’’اگر تمہیں میری زندگی اس قدر عزیز ہے تو سنو! جب میرا یہاں سے اُٹھ کر گھوڑے پر سوار ہونا ضروری ہوگا تو تم مجھے یہاں نہیں دیکھو گے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’لیکن مجھے تمہاری طرح اپنی جان بھی عزیز ہے۔ اگر تمہیں یہ پریشانی ہے کہ ایک سیتھین پریشان ہو کر تمہاری طرف دیکھ رہا ہے تو مجھے بھی آس پاس بیٹھے ہوئے رومی بُری طرح گھو ررہے ہیں‘‘۔
ایرج نے کہا۔ ’’جب سورج نصف النہار پر آئے تو تمہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’تم جانتے ہو کہ میں ایک سپاہی ہوں اور ایک سپاہی ایسے معاملات کے متعلق تاریکی میں رہنا پسند نہیں کرتا جو اُس کی زندگی اور موت سے تعلق رکھتے ہوں‘‘۔

ایرج نے کہا۔ ’’تمہارے خیال میں آوار کا خاقان ایک سپاہی نہیں۔ اور وہ صرف خودکشی کے ارادے سے قیصر کے پاس بیٹھا ہوا ہے؟‘‘۔

عاصم نے بظاہر مطمئن سا ہو کر کہا۔ ’’اب میں تمہیں اپنے بیہودہ سوالات سے پریشان نہیں کروں گا۔ میں سمجھ گیا ہوں۔ جب سورج نصف النہار پر آئے گا تو خاقان اور اُس کے ساتھی کسی بہانے شامیانوں سے نکل کر اپنے گھوڑوں پر سوار ہوجائیں گے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ لشکر جسے وہ راستے میں چھوڑ آئے ہیں، اچانک کسی سمت سے نمودار ہوگا۔ ایرج! اگر تم نے خاقان کو یہاں آنے پر آمادہ کیا ہے، تو کسریٰ تمہیں بڑے سے بڑے انعام کا مستحق سمجھے گا‘‘۔

ایرج نے جواب دیا۔ ’’میں نے خاقان کو یہاں آنے پر آمادہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ ملاقات رومیوں کی اپنی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ میں صرف کسریٰ کی طرف سے دوستی کا پیغام لے کر خاقان کے پاس پہنچا تھا۔ لیکن قیصر کا ایلچی مجھ سے ایک ہفتہ قبل ہی خاقان سے مل چکا تھا‘‘۔

’’ایرج میں تمہارا شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے ایک خطرے سے خبردار کردیا ہے۔ اب اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو میں باقی تماشا گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر دیکھنا بہتر سمجھتا ہوں۔ میرا گھوڑا یہاں سے کچھ دور ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ میرے لیے اچانک وہاں پہنچنا آسان نہیں ہوگا‘‘۔

عاصم نے یہ کہہ کر اُٹھنے کی کوشش کی۔ لیکن اُس کے بائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے دیوقامت سیتھین نے اچانک اُس کے کندھے پر اپنا آہنی ہاتھ رکھا اور اُسے پوری قوت سے نیچے دبا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ایرج نے عاصم کا بازو پکڑ لیا اور سراپا التجا بن کر کہا۔ عاصم اگر تم نے زور آزمائی کی تو اس کا نتیجہ ہم دونوں کے لیے خطرناک ہوگا۔ اب اس کے شبہات دور کرنے کی یہی صورت ہے کہ تم خاموشی سے اپنی جگہ بیٹھے رہو۔ دوسرے لمحے اِس مہیب صورت سیتھین کے خنجر کی تیز نوک عاصم کی پسلی کو چھو رہی تھی اور وہ اپنے اضطراب پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے ایرج سے یہ کہہ رہا تھا۔ ’’تم اِس وحشی کو یہ کیوں نہیں سمجھاتے کہ میں تمہارا ساتھی ہوں‘‘۔

ایرج نے جواب دیا۔ ’’اِس وحشی کو سمجھانا میرے بس کی بات نہیں، یہ میری زبان نہیں سمجھتا‘‘۔
عاصم کے لیے بے حس و حرکت بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، آس پاس بیٹھے ہوئے رومی کشتیاں دیکھنے میں اس قدر محو تھے کہ انہیں اپنے گردوپیش کی کوئی خبر نہ تھی۔ تھوڑی دیر بعد دوسرا سیتھین جو ایرج کے دائیں ہاتھ بیٹھا ہوا تھا، اُس کے ساتھ اپنی جگہ تبدیل کرچکا تھا اور عاصم کی حالت اُس شخص کی سی تھی، جسے دو درندوں کے درمیان باندھ دیا گیا ہو۔

ولیریس نے ایک مرتبہ عاصم کی طرف دیکھا لیکن سیتھین کے ہاتھ کا خنجر جس کا بیشتر حصہ اُس کی پوستین میں چھپا ہوا تھا، اُس کی نگاہوں سے اوجھل رہا۔ جوں جوں سورج بلند ہورہا تھا۔ عاصم کی بے قراری اور بے چینی بڑھ رہی تھی۔ اگر اُسے اِس بات کا یقین ہوتا کہ اُس کی چیک پکار سے آنے والے خطرات ٹل سکتے ہیں تو وہ شاید اپنی جان کی بھی پروا نہ کرتا۔ لیکن ان حالات میں جرأت اور بہادری کے مظاہرے سے زیادہ ضبط و سکون کی ضرورت تھی‘‘۔
O
رتھوں کی دوڑ شروع ہوچکی تھی۔ اور اُن پر شرطیں بدنے والے رومیوں کا جوش و خروش اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ جب رتھیں شامیانوں کے سامنے سے گزرنے لگیں تو عاصم بھی رومیوں کی طرح ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر نعرے لگانے لگا۔ سیتھین سپاہی نے آہستہ سے اپنا خنجر چبھو کر اُسے خاموش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن عاصم نے بے پروائی سے اُس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ جب رتھیں دوسری بار قریب پہنچیں تو وہ زیادہ بے تکلفی کے ساتھ شور مچا رہا تھا۔ اور سیتھین جو شاید ابھی تک کسی خطرناک اقدام کے لیے تیار نہ تھے، غصے اور اضطراب کی حالت میں اُس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ جب رتھیں تیسری بار شامیانے کے قریب پہنچیں تو وہ چند بار انتہائی جوش و خروش سے نعرے لگانے کے بعد اچانک اُٹھ کر کھڑا ہوگیا، سیتھین اب خون آشام نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ لیکن عاصم کے جوش و خروش نے آس پاس کئی اور آدمیوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔ جب رتھیں گزر گئیں تو عاصم خاموشی سے بیٹھ گیا اور سیتھین قدرے مطمئن ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

حصہ