گھیگوار

397

قدر ت نے اس پودے میں متعدد امراض کیلئے شفا رکھی ہے
شدید سردیوں کی ایک رات خاندان کے افراد میں آتش دان کے قریب بیٹھے ہاتھ تاپ رہے تھے۔ ان میںایک بچہ بھی تھا جو ردی کاغذ کے چھوٹے ٹکڑے آگ سے جلا کر کھیل رہا تھا۔ بچے کی والدہ اسے کئی بات ڈانٹ چکی تھیں لیکن بچہ ذرا دیر تو خاموش بیٹھا رہتا لیکن اس سے رہا نہ جاتا اور وہ پہلے کی طرح کاغذات کی مشعلیں بنانے کے کھیل میں مصروف ہو جاتا۔ آخر ایک بار اس کی کاغذی مشعل نے اس کی انگلیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بچے نے درد سے بے چین ہو کر زور زور سے رونا شروع کردیا۔ خاندان کے تمام لوگ پریشان ہو گئے۰ ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق مشورہ دینے لگا۔ کسی نے کہا کہ سکر لگا دو‘ کوئی بولا ناریل کا تیل لگا دو‘ کسی نے تجویز دی نیلی دوائی مل دو۔
ابھی یہ مشورے جاری تھے کہ بچے کی دادی جان شال لپیٹ کر اٹھیںاور کمرے سے باہر نکل گئیں۔ چند لمحوںبعد وہواپس لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں ایک لانبا سا دبیز پتا تھا۔انہوں نے اس پتے میں چھری سے شگاف دے کر اندر سے شفاف جیلی کی طرح کا گودا نکالا اور اسے بچے کی جھلسی ہوئی انگلیوں پر لگا دیا۔ یہ دیسی علاج دیکھنے کے لیے گھر کے تمام ہی لوگ بچے کے گرد جمع ہو گئے تھے۔ جیلی نما گودے کے بچے کی انگلیوں پر لگنے کے چند سیکنڈ بعد ہی بچے کے رونے کی شدت میں کمی آگئی اور تھوڑی دیر بعد وہ خاموش ہو گیا۔ دوسرے دن لوگوں نے دیکھا کہ بچے کی جھلسی ہوئی انگلیوں پر چھالے نہیں پڑے تھے۔ سرخی نمایاں طور پر کم تھی اور بچہ کسی قسم کی جلن یا درد کی شکایت نہیں کر رہا تھا۔
دادی جان نے اپنے پوتے کی جھلسی ہوئی انگلیوں کا علاج جس پودے کے پتوں سے کیا تھا وہ پودا ’’گھیگوار‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ پودا صرف جلے ہوئے اعضا کے لیے ہی اکسیر نہیں بلکہ قدرت نے اس پودے میں نہایت حیرت انگیز خصوصیات کو یکجا کر دیا ہے۔ یہ پودا زخموں کو بھرنے‘ درد سے نجات دلانی‘ جلد کا سرطان‘ خارش‘ ایگزیما اور دیگر جلدی امراض‘ بالوں کے گرنے‘ خشکی کو دور کرنے‘ جوڑوں کے درد‘ نیند نہ آنے‘ مسوڑھوں کے امراض‘ معدہ کی خرابی‘ السر‘ قبض‘ بواسیر‘ سر درد‘ گردے کے امراض اور کئی دوسری تکالیف میں بے حد مفید ثابت ہوگا ہے حتیٰ کہ ایکسریز اور ایٹمی تابکاری سے پیدا ہونے والے زخم جب کسی طرح مندمل نہ ہوئے تو ڈاکٹروں نے گھیگوار کی خدمات حاصل کیں اور اس کے حیرت انگیز نتائج نے انہیں ششدر کرکے رکھ دیا۔
اس پودے کے ہمہ جہت اثرات نے دنیا کے ماہرین طب کو چونکا دیا ہے۔ چنانچہ بہت سے ممالک میں اس پودے پر بڑے پیمانے پر تحقیق ہو رہی ہے گو کہ تحقیق کا یہ کام گزشتہ تیس سال سے جاری ہے لیکن چند برسوں کے دوران یورپ کے کئی ملکوں امریکا اور خصوصاً روس میں اس پودے پر بے پناہ تحقیقی کام ہوا ہے۔ روس اور کئی ملکوں میںگھیگوار کی باقاعدہ کاشت ہو رہی ہے اور کئی ادارے اس پودے سے مختلف اقسام کی دوائیں‘ مرہم‘ شیمپو‘ کریم‘ پومیڈ‘ کنڈیشنر اور دوسرا سامانِ آرائش تیار کر رہے ہیں۔ ان ملکوں میں گھیگوار کا گودا اور رس بھی بند ڈبوں میں دستیاب ہے۔
مختلف امراض کے علاج میں گھیگوار کے استعمال پر نظر ڈالنے سے قبل آیئے گھیگوار سے تعارف حاصل کریں۔ یہ پودا کئی ناموں سے مشہور ہے کنوار گندل‘ گوار پاٹھا‘ ایلوویرا وغیرہ۔ بہت سے علاقوں میں اس کی خوبی کی بنا پر اسے مختلف نام دیے گئے ہیں مثلاً دوائی پودا‘ برن پلانٹ‘ فرسٹ ایڈ پلانٹ‘ مریکل پلانٹ وغیرہ۔ سنسکرت میں اسے گھرتیا کماری اور چینی زبان میں ’’لوہوئی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یونانی‘ رومن‘ اطالوی‘ جرمن‘ روسی اور فرانسیسی زبانوں میں اسے ’’ایلوویرا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
نباتات کی سلطنت کا یہ حیرت انگیز پودا صدیوں پرانی روایات کا حامل ہے‘ تاریخ کہتی ہے کہ مشہور زمانہ قلوپطرہ اسے باقاعدگی سے استعمال کرتی تھی اور اس کے حسن و دل کشی کا راز اس پودے میں پنہاں تھا۔ تاریخی کتابوں کی ورق گردانی کریں تو یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ارسطو نے سکندر اعظم کو براعظم افریقہ کے بعض علاقے فتح کرنے کے لیے کہا تھا اور جب سکندر نے اپنے استاد سے اس کی وجہ پوچھی تو ارسطو نے بتایا کہ افریقہ کے ان علاقوں میں گھیگوار کا پودا کثرت سے پیدا ہوتا ہے اور ہمیں اپنی زخمی فوجیوں کی مرہم پٹی اور بیشتر امراض کے علاج میں اس پودے سے بڑی مدد ملے گی۔ یہ پودا مصر‘ روم‘ یونان‘ الجزائر‘ مراکش‘ تیونس‘ عرب‘ چین اور برصغیر پاک و ہند میں عرصۂ دراز سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
گھیگوار کے استعمال سے عام طور پرکوئی نقصان نہیں ہوتا تاہم سو میں سے ایک مریض ایسا ہو سکتا ہے جسے گھیگوار سے الرجی محسوس ہو۔ اس طرح کی صورت میں معمولی سوزش یا خراش پیدا ہو جاتی ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ پہلی بار گھیگوار کا گودا یا رس بغل میں یا کان کے پیچھے لگایا جائے اگر الرجی ہوگی تو اس کا احساس چند منٹ میں ہو جائے گا۔ جسم کے متاثرہ حصے کو پانی سے دھویا جا سکتا ہے جس سے سوزش ختم ہو جائے گی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے مریض جن کی الرجی کسی دوا سے دور نہیں ہوتی وہ گھیگوار سے شفایاب ہو جاتے ہیں۔
مرض کی نوعیت کے اعتبار سے گھیگوار کا استعمال بیرونی طور پر (یعنی جسم پر لگا کر یا مل کر) یا اندرونی طور پر (یعنی دوا کے طور پر کھا کر) یا پھر دونوں طرح سے بیک وقت کیا جاتا ہے۔ ضرورت کے مطابق کسی مرض میںگھیگوار کا گودا استعمال کیا جاتا ہے اور کسی مرض میں گھیگوار کے گودے کو نچوڑ کر اس کا رس کام میں لایا جاتا ہے۔
پہلے ہم ان امراض کا ذکر کرتے ہیں جن میں گھیگوار کو بیرونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
جل جانا: اگر جسم کا بڑا حصہ جل جائے یا نازک اور حساس اعضا جھلس کر متاثر ہو جائیں تو بہتر ہے کہ مریض کو فوری طور پر اسپتال لے جایا جائے لیکن اگر اسپتال قریب نہ ہو یا جلنے کی کیفیت شدید نہ ہو تو گھیگوار کا استعمال بہت مفید رہتا ہے۔ گھیگوار کے گودے کو نچوڑ کر اس کے رس سے‘ جلے ہوئے حصہ جسم کو تر کر دیا جائے اس طرح جلن بھی فوری طور پر دور ہو جاتی ہے اور گھیگوار کے جراثیم کش اثرات زخموں کو خراب نہیں ہونے دیتے۔ یہ زخموں کے بھرنے کے عمل کو بھی تیز کر دیتا ہے اور اگر چھالے یا آبلے پڑ گئے ہوں تو وہ بھی مندمل ہو جاتے ہیں۔ زخم زیادہ شدید ہو تو اس پر پٹی باندھ کر پٹی کو گھیگوار کے رس سے 48 گھنٹوں تک تر رکھا جاتا ہے۔اگر کسی تیزاب کی وجہ سے جلد جھلس جائے تو پہلے جلد کو پانی سے اچھی طرح دھو لیا جائے اس کے بعد گھیگوار کا گودا یا رس لگایا جائے۔
کٹنے یا زخم بن جانے پر: کٹے ہوئے حصہ یا زخم کوصاف کرکے گھیگوار کا تازہ گودا زخم پر رکھ کر پٹی باند دی جائے‘ یہ عمل دن میں دو بار کیا جائے۔
سر کی جلد اور بالوںکی حفاظت: گھیگوار کا رس نکال کر غسل کرتے وقت شیمپو کے طور پر استعمال کریں یا غسل سے کچھ دیر قبل بالوں میں لگا کر چھوڑ دیں اور پھر نہا لیں۔ میکسیکو کے ریڈ انڈین باشندوں کایہ معمول ہے کہ وہ روزانہ رات کوسونے سے قبل گھیگوار کارس اپنے بالوں میں لگاتے ہیں اور صبح اٹھ کر بالوں کو دھو ڈالتے ہیں۔ اس طرح ان کے بال مضبوط‘ چمک دار اور ملائم ہوجاتے ہیں اور انہیں سنوارنا آسان ہو جاتا ہے۔ بالوں میں خشکی ہو یا سر میں دانے نکل آئے ہوں تب بھی گھیگوار کا رس لگانا مفید ہے۔
ورید دوالی (ویری کوزوین): یہ مرض عام طور پر لاعلاج سمجھا جاتا ہے اس میںخون کی کوئی رگ موٹی اور سخت ہو کر جلد پر ابھر آتی ہے۔ ایسا اس صورت میںہوتا ہے جب جسم کے کسی ایک حصے کی رگوں پر مسلسل دبائو پڑتا رہے‘ مثلاً کوئی شخص سارا دن ایسا کام کرتا ہو جسمیں اسے کھڑا رہنا پڑے‘ گھیگوار اس مرض سے بھی نجات دلاتا ہے۔ا گر وریدووالی پر گھیگوار کا رس کئی دنوں تک پابندی سے لگایا جائے تو حیرت انگیز نتائج نکلتے ہیں۔
جلد کا سرطان: سرطان (کینسر) بڑی موذی بیماری ہے اور اس کا علاج عام طور پر بہت مشکل ہوتا ہے لیکن گھیگوار کا رس اگر دن میں تین یا چار مرتبہ جسم کے متاثرہ حصے پر لگایا جائے اور خشک ہونے دیا جائے تو یہ جلد میں اندر تک جذب ہو کر اپنا کام دکھاتا ہے۔
پھپھوندی سے پیدا ہونے والے امراض: پھپھوندی کی وجہ سے داد (رنگ ورم)‘ ایتھلٹ فوٹ اورناخنوں کے امراض ہو جاتے ہیں ان تمام امراض میں گھیگوار کا گودا یا رس لگانا روئی کو بھگو کر اس مقام پر باندھنا بہت مفید ثابت ہوتا ہے بعض لوگ گھیگوار کے رس کو آفٹر شیو لوشن کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ گھیگوار کا رس انفیکشن کو دور کرتاہے اور جراثیم کو ہلاک کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ بلیڈ کی رگڑ سے جلد میں پیدا ہونے والے کھردرے پن کو دور کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے چنانچہ جلد نرم اورملائم رہتی ہے۔
گہانجنی‘ مہاسے: پپوٹوں کے کناروں پر پلکوں کی جڑوں میںجو دانے نکل آتے ہیں انہیں گہانجنی کہتے ہیں اور چہرے پر نکلنے والے مختلف انداز کی پھنسیاں اور دانے‘ مہاسے کہلاتے ہیں۔گھیگوار کا گودا یا رس دن میں تین بار لگانے سے یہ شکایات دور ہو جاتی ہیں۔ اگر مہاسوں سے پیدا ہونے والے دھبوںیا نشانات پر گھیگوار کا رس مسلسل چھ ماہ تک استعمال کیا جائے تو یہ دھبے بھی جاتے رہتے ہیں۔ خواتین کو ایک شکایت یہ ہوتی ہے کہ دورانِ حمل پیٹ کی جلد کے کھنچنے کی وجہ سے نشانات پڑ جاتے ہیں اگر دوران حمل گھیگوار کا رس پابندی کے ساتھ پیٹ پر ملا جائے تو یہ نشانات پیدا نہیںہوتے اور جلد ٹھیک رہتی ہے۔
کیڑوں کا کاٹنا: شہد کی مکھی‘ بھڑ‘ چیونٹی‘ جیلی فش یا بچھو کاٹ لے تو گھیگوار کے پتے کو بیچ سے کاٹ کر گودے والی سمت سے زخم پر باندھ دیا جائے۔ ہر چار گھنٹے بعد نیا پتا کاٹ کر باندھیں۔
چہرے کی دیکھ بھال اور آرائش: رنگت میں نکھار لانے‘ جھریوں کو دور کرنے اور جلد کو تر و تازہ رکھنے کے سلسلے میں گھیگوار کئی ممالک میں بے حد مقبول ہے اس سے سینکڑوں اقسام کی کریم اور کنڈیشنر بنائے جا رہے ہیں‘ میک اَپ سے پہنچنے والے نقصانات کو دور کرنے میں بھی گھیگوار اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ دراصل جلد کے خلیات کے لیے محرک ثابت ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے جلد میں دوران خون بڑھ جاتا ہے۔ گھیگوار کا رس چہرے پر لگا کردو تین گھنٹے کے لیے چھوڑ دیں پھر منہ دھو لیں اگر جلد خشک ہو اور گھیگوار کے استعمال کے بعد خشکی کا احساس ہو تو اس میں روغنِ زیتون یا روغنِ بادام شامل کر لیا جائے۔
جسم کے کسی حصے کا سُن ہو جانا: کسی چوٹ‘ دبائو یا بیماری کی وجہ سے جسم کا کوئی حصہ سُن ہو گیا تو اس مقام پر گھیگوار کا رس دن میںدو‘ تین بار ملا جائے۔ دو تین ماہ میں حوصلہ افزا نتائج برآمد ہو ں گے۔ بہت پرانی چوٹوں سے پیدا ہونے والی اس طرح کی کیفیت میں بھی مفید ثابت ہوا ہے۔
اب ہم ان امراض کا ذکر کرتے ہیںجن میںگھیگوار کو بطور دوا کھلایا جاتا ہے۔
خونی بواسیر: خونی بواسیر سے انسان کو نجات دلانے میں گھیگوار بہت معاون ثابت ہوتا ہے اگر مسے تکلیف دہ ہو گئے ہوں اور خون بھی خارج ہو رہا ہو تو گھیگوار کا مغز ایک انگلی کے برابر موٹا لیا جائے اور سہولت کے ساتھ مبرز میں رکھ لیا جائے یا پھر گھیگوار کا رس نکال کر پانچ ملی لیٹر کی مقدار میں سرنج کے ذریعے اندر پہنایا جائے۔ یہ عمل سونے سے قبل اور اجابت سے فارغ ہونے کے بعد کرنا چاہیے۔ اگر خون بند ہونے اور تکلیف دور ہو جانے کے بعد بھی کچھ عرصے تک اسے استعمال کیا جائے مسّے ختم بھی ہوسکتے ہیں۔ کھانے کے دوران دو چمچے بھر کر گھیگوار کا گودا‘ سونے سے قبل کھا لیا جائے تو قبض بھی نہیں رہتا اور بواسیر کی شکایت بھی دور ہو جاتی ہے۔
ایگزیما اور سورائیسس: یہ جلدی امراض بڑے ہٹیلے ہوتے ہیں اور آسانی سے ٹھیک نہیں ہوتے لیکن گھیگوار انہیں بھی ٹھیک کر دیتا ہے۔ گھیگوار کا رس دن میں تین چار مرتبہ متاثرہ حصے پر لگایا جائے۔ اگر خشکی زیادہ محسوس ہو رہی ہو تو گھیگوار کے رس میں زیتون کا تیل یا بے بی ائل‘ مساوی مقدار میں شامل کرکے استعمال کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ گھیگوار کا گودا کھانے کے دو چمچے دن میں تین بار کھایا جائے تو بہتر نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
معدہ اور آنتوں کے زخم: یہ مرض بہت عام ہے اور وقت کے ساتھ ٹھیک ہوتاہے۔ دنیا بھر میں شائع ہونے والے طبی جریدے اس بات کی تصدیق کرتے ہیںکہ گھیگوار نے اس میدان میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے استعمال سے مریض نے کوئی تکلیف یا نقصان محسوس نہیں کیا بلکہ اس کی بدولت نہ صرف زخم مندمل ہو گئے بلکہ معدہ کی تیزابیت اور قبض میں بھی فائدہ محسوس ہوا۔ مریض کے مزاج اور مرض کی شدت کے اعتبار سے گھیگوار کا گودا یا رس دو سے چار چمچے (کھانے کے) دن میں چار مرتبہ کھلانا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ گودا یا رس صبح ناشتا اور دوپہر و رات کے کھانوں سے نصف گھنٹہ قبل اور سونے سے پہلے لیا جائے۔ جب مرض کی شدت کم ہو جائے تو دوا کی مقدار نصف بھی کی جاسکتی ہے۔
گھیگوار کے گودے میں ہلکی سی بو ہوتی ہے اور اس کا ذائقہ اتنا خراب نہیں ہوتا لیکن اگر کسی کو اس کی بو اور ذائقہ ناگوار محسوس ہو تو اسے پھلوں کے رس یا دودھ میں ملا کر لے سکتا ہے۔ گھیگوار کا گودا نکالتے وقت یہ خیال رہے کہ اوپر کا سبز پتا پوری طرح الگ کر لیا جائے اور پتے اور گودے کے درمیان کی زرد رطوبت بھی گودے میں شامل نہ ہوسکے کیوں کہ اس رطوبت کی بُو خاصی ناگوار ذائقہ کڑوا ہوتا ہے ویسے اگر یہ رطوبت کسی طرح سے کھا لی جائے یا جسم پر لگ جائے تو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
مغربی ممالک میں تو گھیگوار سے تیار شدہ دوائیں آسانی سے دستیاب ہیں۔ پاکستان میںابھی تک گھیگوار کی باقاعدہ کاشت اور اس پر تحقیق کی جانب توجہ نہیں دی گئی ہے تاہم لوگ بڑی آسانی سے اس پودے کو گھروں میں اُگا اسکتے ہیں اس غرض سے گھیگوار کا ایک پودا خرید کر لگایا جائے۔ اس پودے سے پھر مزید کئی پودے اُگ آتے ہیں۔ یہ پودا جڑی بوٹیاں بیچنے والے فراہم کر سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا سطروںمیں گھیگوار کے جو وسیع تر فوائد بیان کیے گئے ہیں وہ محض مفروضوں یا نظریوں پر مبنی نہیں ہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں ماہرین نے گھیگوار کو ہزاروں مریضوں پر آزمانے کے بعد اس کی افادیت کی تصدیق کی ہے۔ درحقیقت گھیگوار انسان کے لیے قدرت کا ایک قیمتی تحفہ ہے۔

حصہ