معروف شاعر اور نقاد سرور جاوید

574

27 سال قبل کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں، دبئی کے رائل ابجارہوٹل میں ایک مشاعرہ برپا تھا۔ یہ بزم رفعت علوی اور ان کے ساتھیوں نے سجائی تھی۔ اس مجلس کو منعقد کرنے میں علوی صاحب اور ان کے شرکا کے اسمائے گرامی ہیں: حبیب اللہ خان، جمیل احمد خان، ارشد لطیف اور یہ خاکسار محمود احمد لئیق۔ کسی مشاعرے کی انتظامیہ میں شامل ہونے کا اس خاکسار کا پہلا تجربہ تھا، اس سے قبل ہمارا شمار کارکنان میں تو ہوتا تھا، انتظامیہ میں بالکل نہیں۔
وہ مرا پہلے پہل داخلِ زنداں ہونا
اس کا پہلا مصرع ہے:
دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا
ہرگز صادق نہیں آتا تھا، اس لیے کہ اس زنداں کی سیر کئی مرتبہ کرچکے تھے، اس کے نتائج سے اچھی طرح واقف تھے تھے، پھر بھی
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
کمیٹی کے سربراہ علوی صاحب نے اتنی عزت، احترام اور اس سے بڑھ کر محبت دی کہ یہ بندہ غلامِ بے دام ہوگیا۔ بدقسمتی سے یہ ستم ہنوز جاری ہے۔ اس مشاعرے کے شرکا میں معروف شاعر محترم سرور جاوید مرحوم (کس دل سے انہیں مرحوم لکھنا پڑرہا ہے، لیکن کیا کیا جائے، ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے) اور ان کی اُس وقت کی اہلیہ پروین جاوید مرحومہ بھی شامل تھے۔ تابش دہلوی، احمد فراز، جمیل الدین عالی اور میرے بزرگ دوست اعجاز رحمانی بھی شامل تھے۔ بدقسمتی سے یہ تمام شعراء ملکِ عدم روانہ ہوچکے ہیں۔
دبئی سے کراچی منتقل ہونے کے بعد سرور جاوید سے کراچی پریس کلب میں ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ دبئی کے مشاعرے کے کارکنان میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔ مشاعرے کے اگلے دن آپ کے واقف کارکے گھر دبئی کے علاقہ ’اویر‘ پہنچا تھا، پھر مزید دو روز بعد آپ دونوں کے پاسپورٹ اور ٹکٹ حوالے کرنے آیا تھا۔ اس ملاقات سے قبل ہمیں علم تھا کہ پروین جاوید صاحبہ داغِ مفارقت دے گئی ہیں۔ پھر بھی سرورصاحب نے یہ اطلاع دی، ساتھ ہی نوید دی کہ اب ان کی زندگی میں ایک اور پروین داخل ہوگئی ہیں جن کا پورا نام پروین حیدر ہے۔ (سرور جاویدکی زندگی میں آنے والی پہلی تو نیک پروین تھیں، گمان ہے کہ پروین حیدر بھی ان ہی خوبیوں سے آراستہ ہوںگی)۔ اس پر ہماری رگِ ظرافت پھڑک اٹھی اور کہا ’’یار آپ اتنی دیر نہ لگائیں، شہر میں ابھی بہت ساری پروین باقی ہیں‘‘۔ اس بات پر سرور جاوید نے زور دار قہقہہ لگایا، جب کہ چند لوگ جن کی سمجھ میں آیا وہ مسکرا دیے، اور جنہیں بات سمجھ میں نہ آئی انہیں دوسروں نے سمجھا دی۔ چند نے ہماری سرزنش کی کہ ایسا مذاق نہیں کرنا چاہیے، وہ آگ بگولہ ہوسکتے تھے۔ ان افراد کے جواب میں ہمارا کہنا تھا کہ سرور صاحب بہت سمجھ دار ہیں، تمہاری طرح بے وقوف نہیں ہیں (اُس وقت بے وقوف کی جگہ جو لفظ استعمال کیا تھا وہ قابلِ تحریر نہیں ہے تاہم جوش ملیح آبادی کی سوانح ’یادوںکی برات ‘میں جا بجا استعمال کیا گیا ہے)، اگر وہ زیادہ برہم ہوتے تو میں پریس کلب میں ایک ایک کو بتادیتا کہ ان سے یہ سو ال پوچھیں، اس پر کیا پورے پریس کلب کو گالیاں دیتے؟ کہاوت ہے: ایک چپ سو مسائل کا حل ہے۔ وہ تو شاعر اور نثر نگار ہیں، ان سب دائو پیچ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اسی طرح پریس کلب میں ملاقاتیںہوتی رہیں، لیکن وہ ملاقاتیں ایسی ہی رہیں جن کے متعلق اقبال عظیم کہہ گئے ہیں:
ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں مگر سنجیدہ سنجیدہ
تاہم یہ سنجیدگی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ بھلا دونوں کے جسم میں جب چھیڑچھاڑ کے جراثیم بدرجۂ اتم موجود ہوں تو یہ پابندی خواتین کی عدّت یعنی چار ماہ دس دن تک بھی کیسے چل سکتی تھی! اور تابڑتوڑ حملوںکا سلسلہ دونوں طرف سے چل پڑا۔ ہم انتہائی اطمینان سے کہہ سکتے ہیں ’’ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے‘‘۔
یہ دعویٰ کرنا بہت آسان ہے، اس لیے کہ فریقِ ثانی اس کی تردید کے لیے دنیا میںموجود نہیں ہے۔ یہ کھینچا تانی آخری ملاقات تک قائم رہی۔ انہی دنوں مرحومہ پروین جاوید کی کتاب ’’حضوری چاہتی ہوں‘‘ بیدل لائبریری (شرف آباد کلب) میں نظر آئی، پریس کلب کی لائبریری میں بھی نظر سے گزری۔ اس کے بعد جب ملاقات ہوئی، ہم نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کی زوجہ مرحومہ کی کتاب لائبریری (دونوں کا نام لیا) میں دیکھی، چند صفحات کا مطالعہ بھی کیا۔ اس میں نعت اور حمد تھیں،کوئی مرثیہ نہیں تھا۔ ان کا جواب بہت مختصر تھا ’وہ حنفی عقیدے کی تھیں جب کہ میں اثنا عشری ہوں‘۔
اس کے بعد ایک عجیب ماجرا ہوا لیکن جنگل کا جنگل ہرا نہ ہوا۔ پریس کلب میں داخل ہوا تو وہ ایک میزپر براجمان تھے، ہم نے اور ہمارے دو دوستوں نے وہیں ڈیرے جمادیے۔ ہمارا ارادہ الگ بیٹھنے کا تھا لیکن ساتھیوں کے اصرار پر ان کی صحبت سے مستفید ہونا قبول کیا۔ اس دن تو کچھ خاص بات نہ ہوئی، ساتھی بڑے مایوس ہوئے۔ ہم نے نائو نوش کا آرڈر دیا۔ ان سے پوچھا تو انہوںنے معذرت کی کہ ابھی چندمنٹ قبل فارغ ہوئے ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ اس کام کے لیے بھی فارغ ہونا کہا جاتا ہے؟ ہم تو سمجھے کہ پیٹ ہلکا کرنے کے لیے ہی مخصوص ہے۔ اس پر انہوں نے کئی مثالیں دیں، مثلاًکھانے سے فارغ ہونا، غسل سے فارغ ہونا، لباس تبدیل کرنے سے فارغ ہونا وغیرہ۔ ہم بھی اس فضول کی بحث کے میدان میں اترنے کے لیے پر تول رہے تھے کہ ہمارے ساتھیوں نے ہمیں ٹوکا کہ سرور صاحب ناقد اور مصنّف بھی ہیں اور ان کی کتاب شائع ہوچکی ہے۔ ہم نے کہا: جس بندے میں تخلیقی صلاحیت نہ ہو وہ تنقید نگاری کرتا ہے۔ اس پر جواب آیا کہ ہمارے ممدوح سلیم احمد مرحوم بھی تنقید نگارتھے۔ ہمارا کہنا تھا کہ سلیم احمد میں بے شمار صلاحیتیں تھیں، وہ تنقید نگار تھے، شاعر تھے، ڈرامہ نگار تھے، مزاح نگار تھے اورکیا کیاکچھ تھے! ’آداب عرض‘ والے نصراللہ خان کی کتاب ’کیا قافلہ جاتا ہے‘ پڑھ لو، وہ لکھتے ہیں سلیم احمد آل رائونڈر(ہرفن مولا) تھا،کاغذ اور قلم سامنے رکھ دو اور جو چاہے لکھوالو،کمال یہ کہ سب معیاری۔ اس کے ساتھ ہم نے سلیم احمد کے چند اشعار بھی سنائے۔ جواب آیا کہ سرورجاوید شاعر بھی ہیں، اسی اثناء میں بیرا بل لے آیا، قبل اس کے کہ کوئی دوسرا اسے ادائیگی کے لیے لیتا، ہم نے اسے آتا دیکھا تو اٹھ کرایک قدم اس کی طرف بڑھ کر بل وصول کیے۔ عموماً پریس کلب میں بیرے بل دے کر چلے جاتے ہیں، اس کے بعد انہیں بلاکر رقم ادا کی جاتی ہے (ایک غلط روایت یہ بھی ہے کہ اسے حساب میں ڈالنے کا کہا جائے)۔ خیر، بیرے کے جاتے ہی جیب سے پیسے نکالتے ہوئے اپنے ان ساتھیوں سے کہا: عجیب ’غیرت مند‘ہو، کھائو پیو میرا، اور گائو سرور صاحب کا! ساتھ ہی اقبال کا شعر دہرایا:
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
یہ سنتے ہی وہ تینوں ہی برس پڑے کہ ایک چائے اور پکوڑے کھلا کر تمہیں حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی جرات کیسے ہوئی! ہمارا کہنا تھا کہ حاتم طائی تمہارا بہنوئی ہے یا تمہارے باپ کا بہنوئی (پھوپھا) ہے کہ جس کی تضحیک پر تم لوگوں کو آگ لگ رہی ہے؟ یہ بھی کہا کہ دھیمے لہجے میں بات کرو، جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ بات آگے بڑھتی گئی اور وہی ہوا جو اکبر الٰہ آبادی کہہ گئے ہیں:
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی
شکر ہے تُو سے ’تیری‘ تک نہ پہنچی۔ دوستوں کے ساتھ دھول دھپّا ہونے کی نوبت ’’شیریں کلامی‘‘ تک تقریباً آچکی تھی، بس دوچارقدم لب بام رہ گئے تھے۔
بہت جلد سرور جاوید نے مک مکاکروادیا۔ بل کی ادائیگی کی طرف توجہ کی تو دیکھا دو بل ہیں، ایک ہمارا اور دوسرا سرور جاوید کا صرف پچاس روپے کا۔ ہم نے وہ بل اُن کی طرف بڑھایا تو فرمایا ’’تم دے دو‘‘۔ ہم نے بے چوں و چرا ادا کردیا۔ سوچا ان کے پاس بڑا نوٹ ہوگا۔ اگر نوٹ پانچ ہزار کا ہوا تو پچاس روپے کی ادائیگی مضحکہ خیز ہوگی۔ پریس کلب سے واپسی پر گاڑی میں سرورجاوید نے جیب سے پچاس روپے نکال کر ہمیں دینا چاہے۔ ہم حیران تھے کہ یا الٰہی یہ ماجرکیا ہے! عجیب صورت حال تھی، دوتین مرتبہ اس سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن وہ ضد پر قائم رہے۔ ہم نے سوچا ’’مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے!‘‘ یہ مفت ہاتھ تو نہیں آیا تھا لیکن عجیب مخمصے میں تھے۔ آخر گردن جھٹک کر ہم نے ان کی بات مان لی۔
سرور جاوید کی اُس دور کی اہلیہ پروین حیدر میٹروول، ابوالحسن اصفہانی روڈ پر اپنے بچوںکے ساتھ رہتی تھیں (اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہر دور میں ان کی اہلیہ بدلتی رہتی تھیں)، اور وہ خود اپنے بچوں کے ساتھ عزیزآباد میں رہتے تھے۔ اس پر ہمیں پنڈی والے انور مسعود بہت یاد آتے ہیں۔ ایک خاتون کے ساتھ ایک صاحب نے قدمِ رنجہ فرمانے کی جرات کی تو ادھر سے جواب آیا:
دیکھیے محتاط ہی رہیے اس جاسوس زمانے سے
میں بھی بچوںوالی ہوںاورآپ بھی بچوں والے ہیں
یہاں یہ بھی واضح کردیںکہ یہ دوری 1971ء کے بھٹو اورشیخ مجیب الرحمن کے درمیان کے بحران کے اندازکی نہیں تھی جس میں بھٹو صاحب نے مجیب الرحمن کو مخاطب کرکے کہا تھا ’’اِدھرہم اُدھر تم‘‘۔ یہاں قصہ جدا تھا، اس لیے کہ دونوں رشتہ ازدواج میں پہلے ہی منسلک تھے۔ مولانا مودودیؒ لکھ گئے ہیں ’ایک زنا سے بچنے کے لیے چار نکاح (بعض شرائط کے ساتھ) بھی کرلے تو بہترہے‘۔ جب کہ یہاں تو دونوں شریکِ حیات کے جدا ہونے کے بعد محرومی اورتنہائی کا ازالہ کرنے کا اک بہانہ تھا۔ اب یہ رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ اللہ پروین حیدر کو اپنی حفظ و امان میں رکھے،صبر دے اور پروین جاوید کی مغفرت فرمائے، رتبہ بلند کرے اور کوتاہیوںسے صرفِ نظر کرے۔
سرورجاوید جب بھی پریس کلب میں ملتے تو مجھ سے کہتے کہ واپسی پر مجھے راستے میں چھوڑ دینا۔ ان کا حکم کیسے ٹال سکتا تھا! لیکن مقطع میں سخن گسترانہ بات کہہ دیتا کہ پرانی سبزی منڈی تک یہ نیکی کرسکتا ہوں۔ اس طرح مجھے اپنے راستے سے صرف ایک کلومیٹر آگے جانا پڑتا تھا۔ اترتے وقت پوچھ لیتا:کہاںکا قصد ہے، کوچۂ جاناں کی سمت یا بچوں کے پاس؟ وہ کچھ جواب نہ دیتے، بس ہنس دیتے۔ یہ بھی پوچھتا کہ اس طرف کا رخ تو’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت ہی کیا جاتا ہوگا۔ سنتے ہیں ایک چپ ہزار بلا ٹالتی ہے، سو سرور جاوید نے یہ سبق یاد کیا ہوا تھااور اس پر عمل پیرا بھی تھے۔ان کے مجموعہ کلام ’خواب بدل گئے میرے‘کے فلیپ پرپروین حیدر رقم طراز ہیں ’’سرورجاوید کراچی کے ادبی حلقوں میںاپنی شعلہ بیانی کے لیے معروف ومشہورہیں، لیکن بہ حیثیت شاعر وہ اتنی مکمل شخصیت ہیں کہ ان سے ٹوٹ کر محبت کی جاسکتی ہے‘‘۔
محترمہ کی رائے اپنی جگہ، لیکن پندرہ سال کی ملاقاتوں میں کبھی ان کی شعلہ بیانی دیکھنے میں نہیںآئی۔ ہاں ان کی رائے کے دوسرے حصے سے متفق ہوں۔ عین ممکن ہے کہ یہ ان کا ذاتی تجربہ بھی ہو۔
انہیں اشعارسنانے کی عادت بالکل نہیں تھی،نہ اپنے اور نہ کسی اور کے۔ احباب نے مشہور کردیا تھا کہ وہ غالب، میر اور اقبال کو بھی بڑا شاعر نہیں سمجھتے۔ یہ بھی مشورہ بصد اصرار دیا گیاکہ اس موضوع پر ان کی رائے طلب کروں، یعنی ایک انٹرویو کروں۔ احباب کا مشورہ ہمارے لیے حکمِ حاکم مرگِ مفاجات کی حیثیت رکھتاتھا، سواُس وقت ہم نے سرجھکا دیااور سرورجاویدکے دربارمیںحاضری دی۔ پہلا سوال تھاکہ یاس یگانہ چنگیزی تو غالب کو بڑا شاعر نہیں مانتے، مشہور منتظم اور براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری ’’اپنی اپنی ادھوری سوانح‘‘ (سرگزشت) میں رقم طراز ہیںکہ وہ غالب کے پیروکار کو غلبچئے کہتے تھے۔کوئی شعر پسند نہ آئے تو ایسے شاعروں کوکہتے: معنی پرغور نہ کیا، الفاظ کی رو میں بہہ گئے اورالفاظ بھی کیسے ’’آگہی دام شنیدن، جس قدر چاہیے بچھائے‘‘۔ اس کے بعدایک زوردار قہقہہ لگاتے… غالب دشمنی ان کی عادت بن گئی۔ پھر عرض کیا: یگانہ تو صرف غالب کے خلاف تھے، آپ تو سنا ہے میر،غالب اوراقبال کسی کو شاعر نہیںمانتے؟ یہ سن کربڑی سادگی سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں، میں تو انہیں نہیں جانتا۔ اس طرح یہ دھماچوکڑی شروع ہونے سے قبل ختم ہوگئی،اور احباب کو مایوسی ہوئی۔
سرورصاحب کئی برسوں سے کے،ایم،سی کلب کشمیر روڈ پر ہر مہینے کے پہلے اور تیسرے منگل کو ایک ادبی نشست جماتے تھے۔ اس کے آخر میں چائے اور کچھ لذتِ کام و دہن کا بھی اہتمام کرتے۔ اس کے موضوع سے متعلق موبائل فون (SMS)کے ذریعے مدعوئین کو دو دن پہلے اطلاع دی جاتی۔ گفتگو کے اختتام پرشعری نشست برپاکی جاتی اور حاضرین میں جو شعراء ہوتے اُن کا کلام سنا جاتا۔ افتتاحی گفتگو وہ خودکرتے۔ وسیع مطالعہ توتھاہی، پھر بھی بڑی تیاری کے ساتھ آتے اور پُرمغز گفتگوکا آغاز کرتے، پھر دیگرشرکاکو دعوتِ اظہارِ رائے دی جاتی۔ ایک نشست کا موضوع تھا ’’آزاد شاعر ی یا نثری شاعری‘‘۔ ہماری باری آئی تو ہم نے چند دن قبل شاہد احمد دہلوی کی خاکوںکی کتاب ’گنجینۂ گوہر‘ پڑھی تھی جس میں شاہد احمددہلوی، منٹو اور ن۔ م۔ راشد کے درمیان ہونے والا مکالمہ درج تھا۔ شاہد احمد دہلوی نے ن۔م۔ راشدسے کہا ’’یہ آپ کی چھوٹی بڑی شاعری ہمیں اچھی نہیں لگتی، آخر اس میںکیا بات ہے؟‘‘راشد نے RythmاورRhymeپرایک مختصرلیکچر جھاڑنے کے بعد اپنی نظم ’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘سنائی… اور کہا ’’دیکھیے میں نے اس نظم میں ڈانس کا روم رکھا ہے‘‘۔ میں بڑی سعادت مندی سے سنتا رہا، مگر منٹوکب تاب لاسکتے تھے، چٹخ کر بولے’’کون سا ڈانس؟ والز، رمبا، سمبا، کھتا کلی، کتھک، منی پوری… فراڈکہیںکا‘‘۔ بے چارے راشدکھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔ یہ قصہ سناکر میں نے کہا’’میرے خیال میں، میں نے اپنا مؤقف بیان کردیا ہے۔ میرے کہنے پرحاضرین ہنس پڑے، بعد میں انہوں نے شکایت کی کہ تم ماحول خراب کردیتے ہو۔ دراصل اس سے قبل بھی ایک دو مرتبہ ایسی صورت حال پیدا ہوچکی تھی۔ میںنے کہا ’’شعر ہم نہیںکہتے توکیا ہم گوتم بدھ کی طرح خاموش بیٹھے رہیں!‘‘ تمام شعرا کے بعد اُن کا نمبرآتا تو بڑی حیل و حجت سے کام لیتے اور اکثر توکلام سنائے بغیرمجلس برخواست کردیتے۔
2020ء میں کورونا کا چرچا ہوا، یہ بے سبب نہ تھا،بڑی تباہی مچی، پوری دنیامیں بھونچال آگیا،آمدورفت ساکت و جامد ہوگئی، ہمارا گھر سے نکلنا دوبھر بلکہ سہ بھر ہوگیا۔ فیض کہہ گئے ہیں:
وہ وسوسے بتوں نے ڈالے کہ دل سے خوفِ خدا گیا
اس مصرع میں بتوںکی جگہ اہلیہ ڈال دیں توکچھ صداقت ہوگی۔ انہی الجھنوں میں مبتلا تھے کہ ٹی وی کی خبر میں بتایا گیا کہ سرورجاوید اُس سفر پر روانہ ہوگئے ہیں جہاں ہم سب کو جلد یا بدیر جاناہے
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
ڈاکٹر توصیف نے بتایا کہ آنتوںکے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور دو مہینوںمیںزندگی کا چراغ گل ہوگیا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
سرورجاوید کئی کتابوںکے مصنف تھے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے
ہجر کے آدمی ہیں ہم (شعری مجموعہ)، خواب بدل گئے میرے(شعری مجموعہ)، متاعِ نظر(تنقیدی مضامین)، اردونظم کی عظیم روایت(تنقید)، میرے عہد کے لوگ (ادبی شخصیات کے انٹرویو)،کراچی میںاردوادب (ادبی کالموںکامجموعہ)

حصہ