جہاد

اسلام کا مقصودِ حقیقی:
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبوں میں بار بار میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ نماز‘ روزہ اوفر یہ حج اور زکوٰۃ جنہیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے ار اسلام کا رکن قرار دیا ہے یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوںکی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر و نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کر دیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو جائے‘ بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں۔ اب چونکہ میں اس تربیت اور اس تیاری کے ڈھنگ کو کافی تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں‘ اس لیے وقت آگیا ہے کہ آپ کو یہ بتایا جائے کہ وہ مقصد کیا ہے جس کے لیے یہ ساری تیاری ہے۔
مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹا کر خدائے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام ’’جہاد‘‘ ہے اور نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ سب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں‘ لیکن چونکہ آپ لوگ مدت ہائے دراز سے اس مقصد کو اور اس کام کو بھول چکے ہیں اور ساری عبادتیں آپ کے محض تصوّف بن کر رہ گئی ہیں اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس ذرا سے فقرے میں جو مطلب میں نے ادا کیا ہے اسے آپ ایک معمے سے زیادہ کچھ نہ سمجھے ہوں گے۔ اچھا تو آیئے! اب میں آپ کے سامنے اس مقصد کی تشریح کروں۔
خرابیوں کی اصل جڑ… حکومت کی خرابی
دنیا میں آپ جتنی خرابیاں دیکھتے ہیں‘ اُن سب کی جڑ دراصل حکومت کی خرابی ہے۔ طاقت اور دولت حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ قانون حکومت بناتی ہے۔ انتظام کے سارے اختیارات حکومت کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ پولیس اور فوج کا زور حکومت کے پاس ہوتا ہے لہٰذا جو خرابی بھی لوگوں کی زندگی میں پھیلتی ہے وہ یا تو خود حکومت کی پھیلائی ہوئی ہوتی ہے یا اس کی مدد سے پھیلتی ہے‘ کیوں کہ کسی چیز کو پھیلنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ حکومت ہی کے پاس ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھتے ہیںکہ زنا دھڑلے سے ہو رہا ہے اور علانیہ کوٹھوںپریہ کاروبار جاری ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حکومت کے اختیارات جن لوگوں کے ہاتھ میں ہیں‘ ان کی نگاہ میں زنا کوئی جرم نہیں ہے۔ وہ خود اس کام کو کرتے ہیں اور دوسروں کو کرنے دیتے ہیں‘ ورنہ وہ اسے بند کرنا چاہیں تو یہ کام اس دھڑلے سے نہیںچل سکتا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ سود خواری کا بازار خوب گرم ہو رہا ہے اور مال دار لوگ غریبوں کا خون چوسے چلے جاتے ہیں۔ یہ کیوں؟ صرف اس لیے کہ حکومت خود سود کھاتی ہے اور کھانے والوں کو مدد دیتی ہے۔ اس کی عدالتیں سود خواروں کو ڈگریاں دیتی ہیں اور اس کی حمایت ہی کے بل پر یہ بڑے بڑے ساہوکارے اور بینک چل رہے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں بے حیائی اور بداخلاقی روز بہ روز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہ کس لیے؟ محض اس لیے کہ حکومت نے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا ایسا ہی انتظام کیا ہے اور اس کو اخلاق اور انسانیت کے وہی نمونے پسند ہیں جو آپ کو نظر آرہے ہیں۔کسی دوسرے طرز کی تعلیم و تربیت سے آپ کسی اور نمونے کے انسان تیار کرنا چاہیں تو ذرائع کہاں سے لائیں گے؟ اور تھوڑے بہت تیار کر بھی دیں تو وہ کھپیں گے کہاں؟ رزق کے دروازے اور کھپت کے میدان تو سارے کے سارے بگڑی ہوئی حکومت کے قبضے میں ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بے حد و حساب خون ریزی ہو رہی ہے۔ انسان کا علم اس کی تباہی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ انسان کی محنت کے پھل آگ کی نذر کیے جارہے ہیں اور بیش قیمت جانیں مٹی کے ٹھیکروں سے بھی زیادہ بے دردی کے ساتھ ضائع کی جارہی ہیں۔ یہ کس وجہ سے؟ صرف اس وجہ سے کہ آدم کی اولاد میں جو لوگ سب سے زیادہ شریر اور بد نفس تھے وہ دنیا کی قوموں کے رہنما اور اقتدار کی باگوںکے مالک ہیں۔ قوت اُن کے ہاتھ میںہے‘ اس لیے وہ دنیا کو دھر چلا رہے ہیں اسی طرف دنیا چل رہی ہے۔ علم‘ دولت‘ محنت‘ جان ہر چیز کا جو مصرف انہوں نے تجویز کیا ہے اسی میں ہر چیز صَرف ہو رہی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر طرف ظلم ہو رہا ہے‘ کمزور کے لیے کہیں انصاف نہیں‘ غریب کی زندگی دشوار ہے‘ عدالتیں بنیے کی دکان بنی ہوئی ہیںجہاں سے صرف روپے کے عوض ہی انصاف خریدا جا سکتا ہے۔ لوگوں سے بے حساب ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں اور افسروں کی شاہانہ تنخواہوں پر‘ بڑی بڑی عمارتوں پر‘ لڑائی کے گولہ بارود پر اور ایسی ہی دوسری فضول خرچیوں پر اڑا دیے جاتے ہیں۔ ساہوکافر‘ زمین دار‘ راجا اور رئیس خطاب یافتہ اور خطاب کے امیدوار عمائدین‘ گدی نشین پیر‘ اور مہنت‘ سنیما کمپنیوں کے مالک‘ شراب کے تاجر‘ فحش کتابیں اور رسالے شائع کرنے والے‘ جوئے کا کاروبار چلانے والے اور ایسے ہی بہت سے لوگ خلقِ خدا کی جان‘ مال‘ عزت‘ اخلاق ہر چیز کو تباہ کر رہے ہیں اور کوئی اُن کو روکنے والا نہیں۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ صرف اس لیے کہ حکومت کی کل بگڑی ہوئی ہے۔ طاقت جن ہاتھوں میںہے وہ خراب ہیں۔ وہ خود بھی ظلم کرتے ہیں اور ظالموں کا ساتھ بھی دیتے ہیں اور جو ظلم بھی ہوتا ہے اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ اس کے ہونے کے خواہش مند یا کم از کم روادار ہیں۔
ان مثالوں سے یہ بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ لوگوںکے خیالات کا گمراہ ہونا‘ اخلاق کا بگڑنا‘ انسانی قوتوں اور قابلیتوں کا غلط راستوں میں صَرف ہونا‘ کاروبار اور معاملات کی غلط صورتوں اور زندگی کے برے طور طریق کا رواج پانا‘ ظلم و ستم اور بدافعالیوں کا پھیلنا اور خلقِ خدا کا تباہ ہونا‘یہ سب کچھ نتیجہ ہے اس ایک بات کا کہ اختیارات اور اقتدار کی کنجیاں غلط ہاتھوں میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب طاقت بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور جب خلقِ خدا کا رزق انہی کے تصرف میں ہوگا تو وہ نہ صرف خود بگاڑ کو پھیلائیں گے‘ بلکہ بگاڑ کی ہر صورت ان کی مدد اور حمایت سے پھیلے گی اور جب تک اختیارات اُن کے قبضے میں رہیںگے‘کسی چیز کی اصلاح نہ ہو سکے گی۔
اصلاح کے لیے پہلا قدم… اصلاحِ حکومت:
یہ بات جب آپ کے ذہن نشین ہو گئی تو یہ سمجھنا آپ کے لیے آسان ہے کہ خلقِ خدا کی اصلاح کرنے اور لوگوں کو تباہی کے راستوں سے بچا کر فلاح اور سعادت کے راستے پر لانے کے لیے اسکے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ حکومت کے بگاڑ کو درست کیا جائے۔ معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جہاں لوگوں کو زنا کی آزادی حاصل ہو‘ وہاں زنا کے خلاف خواہ کتنا ہی وعظ کیا جائے زنا کا بند ہونا محال ہے‘ لیکن اگر حکومت کے اختیارات پر قبضہ کرکے زبردستی زنا کو بند کر دیا جائے تو لوگ خود بخود حرام کے راستے کو چھوڑ کر حلال کا راستہ اختیار کر لیں گے۔ شراب‘ جوا‘ سود‘ رشوت‘ فحش تماشے‘ بے حیائی کے لباس‘ بد اخلاق بنانے والی تعلیم اور ایسی ہی دوسری چیزیں اگر آپ وعظوں سے دور کرنا چاہیں تو کامیابی ناممکن ہے‘ البتہ حکومت کے زور سے یہ سب بلائیں دور کی جاسکتی ہیں۔ جو لوگ خلقِ خدا کو لوٹتے اور اخلاق کو تباہ کرتے ہیں ان کو آپ محض پندونصیحت سے چاہیں کہ اپنے فائدوں سے ہاتھ دھو لیں تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ ہاں اقتدار ہاتھ میں لے کر آپ بزور اُن کی شرارتوں کا خاتمہ کر دیں تو ان ساری خرابیوں کا انسداد ہو سکتا ہے۔ اگر آپ چاہیں کہ بندگان خدا کی محنت‘ دولت‘ ذہانت وقابلیت غلط راستوں میں ضائع ہونے سے بچے اور صحیح راستوں میں صَرف ہو‘ اگر آپ چاہیں کہ ظلم مٹے اور انصاف ہو‘ اگر آپ چاہیں کہ زمین میں فساد نہ وہ‘ انسان انسان کا خون نہ چوسے نہ بہائے‘ دبے اور گرے ہوئے انسان اٹھائے جائیں اور تمام انسانوں کو یکساں عزت‘ امن‘ خوش حالی اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں تومحض تبلیغ و تلقین کے زور سے یہ کام نہیں ہو سکتا البتہ حکومت کا زور آپ کے پاس ہو تویہ سب کچھ ہونا ممکن ہے۔ پس یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے کچھ بہت زیادہ غوروفکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اصلاحِ خلق کی کوئی اسکیم بھی حکومت کے اختیارات پر قبضہ کیے بغیر نہیں چل سکتی۔ جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلقِ خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اٹھنا چاہیے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کرکے‘ غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے۔
حکومت کی خرابی کی بنیاد… انسان پر انسان کی حکمرانی:
یہ نکتہ سمجھ لینے کے بعد ایک قدم اور آگے بڑھیے۔ آپ کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ بندگانِ خدا کی زندگی میں جو خرابیاں پھیلتی ہیں ان کی جڑ حکومت کی خرابی ہے اور اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ اس جڑ کی اصلاح کی جائے‘ مگر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود حکومت کی خرابی کی بنیادی سبب کیا ہے؟ اس خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ اور اس میں کون سی بنیادی اصلاح کی جائے کہ وہ برائیاں پیدا نہ ہوں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جڑ دراصل انسان پر انسان کی حکومت ہے اور اصلاح کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسان پر خدا کی حکومت ہو‘ اتنے بڑے سوال کا اتنا مختصر سا جواب سن کر آپ تعجب نہ کریں‘ اس سوال کی تحقیق میںجتنا کھوج آپ لگائیں گے‘ یہی جواب آپ کو ملے گا۔
ذرا غور کیجیے‘ یہ زمین جس پر آپ رہتے ہیں‘ یہ خدا کی بنائی ہوئی ہے یا کسی اور کی؟ یہ انسان جو زمین پر بستے ہیں ان کو خدا نے پیدا کیا گہے یا کسی اور نے؟ یہ بے شمار اسبابِ زندگی جن کے بل پر سب انسان جی رہے ہیں‘ انہیںخدا نے مہیا کیا ہے یا کسی اور نے؟
اگر ان سب سوالات کا جواب یہی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ زمین اور انسان اور یہ تمام سامان خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے ہیں‘ تواس کے معنی یہ ہوئے کہ ملک خدا کا ہے‘ دولت خدا کی ہے اور عیت بھی خدا کی ہے۔ پھر جب معاملہ یہ ہے تو آخر کوئی اس کا حق دار کیسے ہو گیا کہ خدا کی رعیت پر خدا کے ملک میں اپنا حکم چلائے؟ آخر یہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ خدا کی رعیت پر خدا کے سوا کسی دوسرے کا قانون یا خود رعیت کا اپنا بنایا ہوا قانون جاری ہو؟ ملک کسی کا ہو اور حکم دوسرے کا چلے۔ ملکیت کسی کی ہو اور مالک کوئی دوسرا بن جائے‘ رعیت کسی کی ہو اور اس پر فرماں روائی دوسرا کرے۔ یہ بات آپ کی عقل کیسے قبول کر سکتی ہے؟ ایسا ہونا تو صریح حق کے خلاف ہے اور چونکہ یہ حق کے خلاف ہے اس لیے جہاں کہیں اور جب کبھی ایسا ہوتا ہے نتیجہ برا ہی نکلتا ہے‘ جن انسانوں کے ہاتھ میںقانون بنانے اور حکم چلانے کے اختیارات آتے ہیں وہ کچھ تو اپنی جہالت کی وجہ سے مجبوراً غلطیاں کرتے ہیں اور کچھ اپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے قصداً ظلم اور بے انصافی کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں کیوں کہ اوّل تو ان کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے صحیح قاعدے اور قانون بنا سکیں اور پھر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ خدا کے خوف اور خدا کے سامنے جواب دہی سے غافل ہو کر لامحالہ وہ شتر مہار بن جاتے ہیں۔ ذرا سی عقل اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ جو انسان خدا سے بے خوف ہو‘ جسے یہ فکر ہو ہی نہیں کہ کسی کو حساب دینا ہے‘ جو اپنی جگہ یہ سمجھ رہا ہو کہ اوپرکوئی نہیں جو مجھ سے پوچھ گچھ کرنے والا ہو‘ وہ طاقت اور اختیارات پا کر شتر بے مہار نہ بنے گا تو اور کیا بنے گا؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے شخص کے ہاتھ میں جب لوگوںکے رزق کی کنجیاں ہوں‘ جب لوگوں کی جانیں اور ان کے مال اس کی مٹھی میں ہوں‘ جب ہزاروں لاکھوں سر اس کے حکم کے آگے جھک رہے ہوں تو کیا وہ رستی اور انصاف پر قائم رہ جائے گا؟ کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ وہ خزانوں کا امین ثابت ہوگا؟ کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ وہ حق مارنے‘ حرام کھانے اور بندگانِ خدا کو اپنی خواہشات کا غلام بنانے سے باز رہے گا؟ کیا آپ کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایسا شخص خود بھی سیدھے راستے پر چلے اور دوسروں کو بھی سیدھا چلائے؟ ہرگز ہرگز نہیں‘ ایسا ہونا عقل کے خلاف ہے۔ ہزارہا برس کا تجربہ اس کے خلاف شہادت دیتا ہے۔ آج اپنی آنکھوں سے آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ جو لوگ خدا سے بے خوف اور آخرت کی جواب دہی سے غافل ہیں وہ اختیارات پا کر کس قدر ظالم‘ خائن اور بد راہ ہو جاتے ہیں۔
اصلاح کی بنیاد… انسان پر خدا کی حکومت ہو:
لہٰذا حکومت کی بنیاد میں جس اصلاح کی ضرورت ہے‘ وہ یہ ہے کہ انسان پر انسان کی حکومت نہ ہو‘ بلکہ خدا کی حکومت ہو‘ اس حکومت کو چلانے والے خود مالک الملک نہ بنیں‘ بلکہ خدا کو بادشاہ تسلیم کر کے اس کے نائب اور امین کی حیثیت سے کام کریں اور یہ سمجھتے ہوئے اپنے فرائض انجامِ دیں کہ آخر کار اس امانت کا حساب اس بادشاہ کو دینا ہے جو کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے۔ قانون اس خدا کی ہدایت پر مبنی ہو جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے اور دانائی کا سرچشمہ ہے۔ اس قانون کو بدلنے یا اس میں ترمیم تنسیخ کرنے کے اختیارات کسی کو نہ ہوں‘ تاکہ وہ انسان کی جہالت یا خود غرضی اور ناروا خواہشات کے دخل پا جانے سے بگڑ نہ جائے۔
یہی وہ بنیادی اصلاح ہے جس کو اسلام جاری کرنا چاہتا ہے۔ جو لوگ خدا کو اپنا بادشاہ (محض خیالی نہیں بلکہ واقعی بادشاہ) تسلیم کر لیں اور اس قانون پر جو خدا نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بھیجاہے‘ ایمان لے آئین‘ اُن سے اسلام یہ مطالبہکرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اُس کا قانون جاری کرنے کے لیے اٹھیں۔ اس کی رعیت میں سے جو لوگ باغی ہو گئے ہیں اور خود مالک الملک بن بیٹھے ہیں‘ ان کا زور توڑ دیں اور اللہ کی رعیت کو دوسروں کی رعیت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا۔ نہیں! اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہو جاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو‘ جس سرزمین میں بھی تمہاری سکونت ہو‘ وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اٹھو‘ حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو‘ ناخدا ترس اور شتر بے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق‘ آخر کی ذمے داری و جواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے‘ حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور اسی جدوجہد کا نام ’’جہاد‘‘ ہے۔
حکومت ایک کٹھن راستہ:
لیکن حکومت اور فرماں روائی جیسی بدبدلا ہے ہر شخص اس کو جانتا ہے۔اس کو حاصل ہونے کا خیال آتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اٹھنے لگتے ہیں۔ خواہشاتِ نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلقِ خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے۔ حکومت کے اختیارات پر قبضہ کر لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ان اختیارات کے ہاتھ میں آجانے کے بعد خدا بننے سے بچنا اور بندۂ خدا بن کر کام کرنا مشکل ہے۔ پھر بھلا فائدہ ہی کیا ہوا اگر فرعون کو ہٹا کر تم خود فرعون بنگئے؟ لہٰذا اس شدید آزمائش کے کام کی طرف بلانے سے پہلے اسلام تم کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ تم کو حکومت کا دعویٰ لے کر اٹھنے اوردنیا سے لڑنے کا حق اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچتا جب تک تمہارے دل سے خود غرضی اور نفسانیت نہ نکل جائے۔ جب تک تم میں اتنی پاک نفسی پیدا نہ ہو جائے کہ تمہاری لڑائی اپنی ذاتی یا قومی اغراض کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا اور خلق اللہ کی اصلاح کے لیے ہو اور جب تک تم میں یہ صلاحیت مستحکم نہ ہو جائے کہ حکومت پا کر تم اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو بلکہ خدا کے قانون کی پیروی پر ثابت قدم رہ سکو۔ محض یہ بات کہ تم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے ہو‘ تمہیں اس کا مستحق نہیں بنا دیتی کہ اسلام تمہیں خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دے دے اور پھر تم خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر وہی سب حرکتیں کرنے لگو جو خدا کے باغی اور ظالم لوگ کرتے ہیں۔ قبل اس کے کہ اتنی بڑی ذمے دارریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تم کو حکم دیا جائے‘ اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تم میں وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے تم اس بوجھ کو سہار سکو۔
عبادات… ایک تربیتی کورس ہیں:
یہ نماز اور روزہ اور یہ زکوٰۃ اور حج دارصل اسی تیاری اور تربیت کے لیے ہیں جس طرح تمام دنیا کی سلطنتیں اپنی فوج‘ پولیس اور سول سروس کے لیے آدمی کو پہلے خاص قسم کی ٹریننگ دیتی ہیں پھر ان سے کام لیتی ہیں۔ اُسی طرح اللہ کا دین (اسلام) بھی ان تمام آدمیوںکو‘ جو اس کی ملازمت میں بھرتی ہوں‘ پہلے خاص طریقے سے تربیت دیتا ہے‘ پھر اُن سے جہاد اور حکومتِ الٰہی کی خدمت لینا چاہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا کی سلطنتوں کو اپنے آدمیوںسے جو کام لینا ہوتا ہے اس میں اخلاق اور نیک نفسی اور خدا ترسی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی‘ اس لیے وہ انہیں صرف کاردَان بنانے کی کوشش کرتی ہیں‘ خواہ وہ کیسے ہی زانی‘ شرابی‘ بے ایمان اور بدنفس ہوں‘ مگر دینِ الٰہی کو جو کام اپنے آدمیوں سے لینا ہے وہ چونکہ سارے کا سارا ہے ہی اخلاقی کام‘ اس لیے وہ انہیں کاردَان بنانے سے زیادہ اہم اس بات کو سمجھتا ہے کہ انہیں خدا ترس اور نیک نفس بنائے۔ وہ ان میں اتنی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب وہ زمین میں خدا کے خلافت قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھیں تو اپنے دعوے کو سچا کرکے دکھا سکیں۔ وہ لڑیں تو اس لیے نہ لڑیں کہ انہیں خود اپنے واسطے مال و دولت اور زمین درکار ہے‘ بلکہ ان کے عمل سے ثابت ہو جائے کہ ان کی لڑائی خالص خدا کی رضا کے لیے اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ وہ فتح پائیں تو متکبر و سرکش نہ ہوں‘ بلکہ ان کے سر خدا کے آگے جھکے ہوئے رہیں۔ وہ حاکم بنیں تو لوگوں کو اپنا غلام نہ بنائیں بلکہ خود بھی خدا کے غلام بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی خدا کے سوا کا غلام نہ رہنے دیں۔ وہ زمین کے خزانوں پر قابض ہوں تو اپنی یا اپنے خاندان والوں یا اپنی قوم کے لوگوں کی جیبیں نہ بھرنے لگیں بلکہ خدا کے رزق کو اس کے بندوں پر انصاف کے ساتھ تقسیم کریں اور ایک سچے امانت دار کی طرح یہ سمجھتے ہوئے کام کریں کہ کوئی آنکھ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہی ہے اور اوپر کوئی ہے جسے ہم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔ اس تربیت کے لیے ان عبادتوں کے سوا اور کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں ہے اور جب اسلام اس طرح اپنے آدمیوں کو تیار کر لیتا ہے‘ تب وہ ان سے کہتا ہے کہ ہاں اب تم روئے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو‘ لہٰذا آگے بڑھو‘ لڑ کر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر دو اور خلافت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو۔
قرآن اس سلسلے میں اہل ایمان سے یوں خطاب کرتا ہے:
’’دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسان کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘بدی سے روکتے ہوا ور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران۔ 110:3)
خدا شناس حکومت کی برکات:
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں فوج‘ پولیس‘ عدالت‘ جیل‘ تحصیل داری‘ ٹیکس کلکٹری اور تمام دوسرے سرکاری کام ایسے اہل کاروں اورعہدے داروں کے ہاتھ میں ہوں جو سب کے سب خدا سے ڈرنے والے اور آخرت کی جواب دہی کا خیال رکھنے والے ہوں اور جہاں حکومت کے سارے قاعدے اور سارے ضابطے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر قائم ہوں‘ جس میں بے انصافی اور نادانی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے اور جہاں بدی و بدکاری کی ہر صورت کر بروقت تدارک کر دیا جائے اور نیکی و نیکو کاری کی ہر بات کو حکومت اپنے رویے اور اپنی طاقت سے پروان چڑھانے کے لیے مستعد رہے‘ ایسی جگہ خلقِ خدا کی بہتری کا کیا حال ہوگا۔ پھر آپ ذرا غور کریں تو یہ بات بھی آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجائے گی کہ ایسی حکومت جب کچھ مدت تک کام کرکے لوگوں کی بگڑی ہوئی عادتوں کو درست کر دے گی‘ جب وہ غلط قسم کی تعلیم و تربیت کا انسداد کرکے صحیح تعلیم و تربیت سے لوگوں کے خیالات ٹھیک کر دے گی اور جب اس کے ماتحت عدل و انصاف‘ امن وامان اور نیک اطواری و خوش اخلاقی کی پاک صاف فضا میں لوگوں کو زندگی بسر کرنے کا موقع ملے گا تو وہ آنکھیں جو بدکار اور ناخدا ترس لوگوں کی سرداری میں مدت ہائے دراز تک رہنے کی وجہ سے اندھی ہوگئی تھیں‘ رفتہ رفتہ خود ہی حق کو دیکھنے اور پہچاننے کے قابل ہو جائیں گی۔ وہ دل جن پر صدیوں تک بد اخلاقیوں کے درمیان گھرے رہنے کی وجہ سے زنگ کی تہیں چڑھ گئی تھیں‘ آہستہ آہستہ خود ہی آئینے کی طرح صاف ہوتے چلے جائیں گے اور ان میں سچائی کا عکس قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔ اس وقت لوگوں کے لیے اس سیدھی سی بات کا سمجھنا اور مان لینا کچھ بھی مشکل نہ رہے گا کہ حقیقت میں اللہ ہی اُن کا خدا ہے اور اس کے سوا کوئی اس کا مستحق نہیں کہ وہ اس کی بندگی کریں اور یہ کہ واقعی وہ پیغمبر سچے تھے جن کے ذریعے سے ایسے صحیح قوانین ہم کو ملے۔ آج جس بات کو لوگوں کے دماغوں میں اتارنا سخت مشکل نظر آتا ہے اس وقت وہ بات خود دماغوں میں اترنے لگے گی۔ آج تقریروں اور کتابوں کے ذریعے سے جس بات کو نہیں سمجھایا جا سکتا اس وقت وہ ایسی آسانی سے سمجھ میں آئے گی کہ گویا اس میں کوئی پیچیدگی تھی ہی نہیں۔ جو لوگ اپنی آنکھوں سے اس فرق کو دیکھ لیں گے کہ انسان کے خود گھڑے ہوئے طریقوں پر دنیا کا کاروبار چلتا ہے تو کیا حال ہوتا ہے اور خدا کے بتائے ہوئے طریقوں پر اسی دنیا کے کام چلائے جاتے ہیں تب کیا کیفیت ہوتی ہے۔ ان کے لیے خدا کی توحید اور اس کے پیغمبر کی صداقت پر ایمان لانا آسان اور ایمان نہلانا مشکل ہو جائے گا‘ بالکل اسی طرح جیسے پھول اور کانٹوں کا فرق محسوس کر لینے کے بعد پھول کا انتخاب کرنا آسان اور کانٹوں کا چننا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس وقت اسلام کی سچائی سے انکار کرنے اور کفر و شرک پر اڑے رہنے کے لیے بہت ہی زیادہ ہٹ دھرمی کی ضرورت ہوگی اور مشکل سے ہزار میں سے دس پانچ ہی آدمی ایسے نکلیں گے جن میں زیادہ بہٹ دھرمی موجود ہو۔
بھائیو! اب مجھے امید ہے کہ تم نے اچھی طرح سمجھ لیا ہوگا کہ یہ نماز اور روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ کس غرض کے لیے ہیں۔ تم اب تک یہ سمجھے رہے ہو‘ اور مدتوں سے تم کو اس غلط فہمی میں مبتلا رکھا گیا ہے کہ یہ عبادتیں محض پوجا پاٹ قسم کی چیزیں ہیں۔ تمہیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ یہ ایک بڑی خدمت کی تیاری کے لیے ہیں۔ اسی وجہ سے تم بغیر کسی مقصد کے ان رسموں کوا دا کرتے رہے اور اس کام کے لیے کبھی تیار ہونے کا خیال تک تمہارے دلوں میں نہ آیا جس کے لیے دراصل انہیں مقرر کیا گیا تھا‘ مگر اب میں تمہیں بتاتا ہوںکہ جس دل میں جہاد کی نیت نہ ہو‘ اور جس کے پیش نظر جہاد کا مقصد نہ ہو‘ اس کی ساری عبادتیں بے معنی ہیں۔ انبے معنی عبادت گزاریوں سے اگر تم گمان رکھتے ہو کہ خداکا تقرب نصیب ہوتا ہے تو خدا کے ہاں جا کر تم خود دیکھ لوگے کہ انہوں نے تم کو اس سے کتنا قریب کیا۔

حصہ