اپنے بچوں کو وقت دیں

350

زوہیب: (غصے سے) اب چھوڑو اس وقت صفائی کی کیا ضرورت ہے! صبح کام والی آئے گی تو کرلے گی۔
اریبہ: تھوڑی ہی دیر کا کام ہے۔ رات کے میلے گندے برتن باورچی خانے میں چھوڑنے سے کاکروچ ہوجاتے ہیں۔
اریبہ گھر میں داخل ہوئی تو سارا گھر پھیلا ہوا تھا۔ بچوں کی کتابیں میز پر بکھری تھیں، زوہیب نے چائے پی کر کپ وہیں چھوڑ دیا تھا۔ کہیں گلاس تو کہیں بسکٹ و چاکلیٹ کے ریپرز… گھر کی یہ حالت دیکھ کر اس کی حالت خراب ہورہی تھی۔ وہ انتہائی نفاست پسند اور ہمت و برداشت والی تھی، اس نے بڑے ضبط سے کام لیا اور بچوں سے کہنے لگی ’’آجائو مما کی مدد کرو… جو اچھی طرح کام کرے گا اسے انعام ملے گا‘‘۔ وہ بچوں کی تربیت کرنا چاہ رہی تھی۔ مما کی بات سن کر چاروں بہن بھائی جُت گئے… اور چند لمحوں میں گھر صاف ستھرا ہوگیا… اریبہ نے وعدے کے مطابق چاروں بچوں کو آئسکریم کھلائی… اور پارک بھی لے گئی۔ آہستہ آہستہ چاروں بچے بھی گھر کی صفائی ستھرائی میں ہاتھ بٹانے لگے، بلکہ ان کی یہ کوشش ہوتی کہ گھر گندا نہ ہو… اب آس پڑوس والے بھی اس کے گھر آکر متاثر ہوتے۔ اگرچہ زوہیب اریبہ کی صفائی کی اس عادت سے چڑتا کہ بچوں والا گھر ہے، چیزیں تو بکھری ہوں گی۔ دو کمروں کا گھر ہے، بے کار میں ہر وقت ٹینشن میں رہتی ہو۔
اریبہ حسبِ معمول مسکرا کر کہتی ’’دیکھیں نا، اب بچے بھی ماشاء اللہ سلیقہ مند ہوتے جا رہے ہیں… اور یہ تو آپ کی بھی عزت ہے کہ آپ کا گھر صاف ستھرا رہے۔‘‘
اریبہ فارغ وقت میں بچوں کو اسلامی تاریخی سبق آموز کہانیاں سناتی… انہیں زیادہ وقت دیتی۔ نہ صرف پڑھائی بلکہ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھتی۔
نئی پڑوسن: السلام علیکم! آپ اسی بلڈنگ میں رہتی ہیں، کس فلور پر؟
اریبہ: وعلیکم السلام آنٹی! (مسکراتے ہوئے) جی، سیکنڈ فلور پر ہمارا گھر ہے، آپ آئیں نا آنٹی ہمارے گھر، اچھا لگے گا۔
اگلے دن دستک ہوئی تو اریبہ نے دروازہ کھولا۔ سامنے نئی پڑوسن کو دیکھ کر اسے خوشی ہوئی… ’’السلام علیکم آنٹی آئیے آئیے۔‘‘
آنٹی نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ چھوٹا سا لیکن صاف ستھرا اپارٹمنٹ تھا۔ لائونج میں بچے پڑھ رہے تھے۔ بچوں نے آنٹی کو ادب سے سلام کیا۔
اریبہ آنٹی کو لے کر ڈرائنگ روم میں آگئی۔
آنٹی: اریبہ آپ کی والدہ کہاں ہیں؟
اریبہ: آنٹی، میری امی… وہ تو اپنے گھر میں ہوتی ہیں۔
آنٹی: تو پھر یہ بچے… کس کے ہیں؟
اریبہ: (ہنستے ہوئے) یہ میرے بچے ہیں۔
آنٹی: (حیرانی سے) یہ بچے تمہارے ہیں! تم شادی شدہ ہو…؟ میرا مطلب ہے کہ ان بچوں کے شور شرابے کی آواز نہیں آتی۔ محلے میں تو سب کے بچوں کے چیخنے چلاّنے کی آواز آتی ہے… اور سارا دن یہاں سے وہاں بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ آپ کے بچے تو نظر ہی نہیں آتے۔
اریبہ: آنٹی یہ بھی پڑھائی سے فارغ ہوجائیں گے تو ایک گھنٹے کے لیے نیچے گرائونڈ میں کھیلنے جائیں گے۔ مغرب کی نماز کے وقت نماز کے لیے جائیں گے۔
آنٹی: ماشاء اللہ… ماشاء اللہ… بیٹا میں یہاں سارے پڑوسیوں کے گھر گئی ہوں، آپ کے بچے چھوٹے ہیں لیکن ہر چیز قرینے سے رکھی ہے، بڑا صاف ستھرا اپارٹمنٹ ہے، کوئی چیز بکھری ہوئی نہیں ہے۔
اریبہ: (ہنس کر) بکھیر دیتے ہیں، لیکن آنٹی یہ خود ہی سمیٹ کر صفائی بھی کردیتے ہیں۔
آنٹی کو اریبہ سے مل کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ نہ صرف خود نفاست پسند تھی بلکہ اس نے بچوں کی بھی اچھی تربیت کی تھی۔ وہ ایک گھنٹہ اریبہ کے گھر میں رہیں۔ تھوڑی دیر بعد بڑا بیٹا ڈرائنگ روم میں آیا اور ماں سے کہنے لگا: ’’مما ہم نے ہوم ورک مکمل کرلیا ہے، کتابیں رکھ دی ہیں‘‘۔ اور مما کی اجازت لے کر وہ دوبارہ لائونج میں اپنے بہن بھائیوں کے پاس چلا گیا جہاں سے ان کی آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ آنٹی تو سمجھ رہی تھیں کہ اب بچے فارغ ہوکر اُدھم مچائیں گے، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا… اریبہ آنٹی کے لیے چائے اور بسکٹ لے کر آئی تو ساتھ میں اریبہ کی بیٹی بھی آئی جو آٹھ سال کی تھی۔ اس نے پانی کی بوتل اور گلاس سینٹر ٹیبل پر رکھے اور آنٹی سے پوچھا: آنٹی آپ پانی پئیں گی؟
آنٹی: نہیں بیٹا شکریہ، اِدھر آئیں… کیا نام ہے آپ کا؟
بیٹی: ارم۔
آنٹی: گڈ، بہت اچھا نام ہے۔ کون سی کلاس میں پڑھتی ہو؟
ارم: تیسری کلاس میں، ابھی میرے امتحان بھی ہونے والے ہیں۔
آنٹی: ماشاء اللہ۔
اریبہ اور آنٹی دونوں آپس میں باتیں کرنے لگیں۔ اریبہ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اپنے بھائیوں کے پاس چلی گئی۔آنٹی گھر واپس آکر اپنے شوہر اور بیٹے سے بھی اریبہ اور اس کے بچوں کی تعریف کرنے لگیں۔
بیٹا: مما بھوک لگی ہے، کیا بنایا ہے آپ نے؟
اریبہ: آپ کی پسند کے دال چاول…
چاروں بچے خوش ہوگئے۔ دال چاول ان کی پسندیدہ ڈش تھی، بلکہ اریبہ نے شروع سے ہی انہیں گھر میں پکی سبزیاں وغیرہ کھانے کا عادی بنایا تھا۔
اریبہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ شوہر کی محدود کمائی اور آس پڑوس کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر گھر کا خرچہ بڑی کفایت شعاری سے پورا کرتی، اور ہر گھڑی اللہ کا شکر ادا کرتی کہ اللہ نے اسے کسی کا محتاج نہیں بنایا۔ اریبہ کے تمام رشتے دار امیر تھے اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ اس نے اپنے بچوں کے ذہن میں بھی یہ بات بٹھائی کہ الحمدللہ اللہ نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہم آپ کو بہترین اسکولوں میں تعلیم دلوا رہے ہیں جو آپ کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس لیے ہم آپ کی جائز ضرورتیں پوری کررہے ہیں۔ اس طرح ان بچوں کے ذہنوں میں تعلیم کی اہمیت اس طرح پیوست ہوگئی کہ وہ نہ صرف اپنی تعلیم کو اہمیت دینے لگے بلکہ انہیں اپنے ماں باپ کی بھی قدر ہونے لگی جو اپنی بہت سی ضروریات کو نظرانداز کرکے بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کو اہمیت دے رہے تھے۔
میں نے اریبہ کی زندگی سے متعلق مندرجہ بالا سطور آپ سے شیئر کیں، اس لیے کہ آج میں چاروں طرف دیکھتی ہوں تو ایسی مائیں کم نظر آتی ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ میں آج کی تمام مائوں کو غلط کہہ رہی ہوں، یقینا آج بھی ایسی مائوں کی اکثریت نہ سہی لیکن قلت بھی نہیں ہے۔ مائیں ملازمت اور اپنی مصروفیات کے باوجود ہر ممکن طور پر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دیتی ہیں جو کہ ان کے بچوں پر ایک نظر ڈالنے سے ہی نظر آتی ہے۔ ملازمت پیشہ ایک ماں نے بتایا کہ میں ملازمت، گھر، شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال کے علاوہ بچوں کی تربیت پر ضرور نظر رکھتی ہوں۔ بچے گرچہ ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں (پڑوس میں) لیکن میں ان کی واپسی پر ان کے ہوم ورک اور ان کے ٹیسٹ وغیرہ کے بارے میں مکمل جائزہ لیتی ہوں کہ آیا ان کی مکمل تیاری ہے یا نہیں۔ اگر کوئی کمی نظر آتی ہے تو فوراً سارے کام چھوڑ کر انہیں ٹیسٹ و امتحان کی تیاری کرواتی ہوں۔
لیکن افسوس ناک پہلو یہ بھی نظر آتا ہے کہ کچھ گھریلو پڑھی لکھی خواتین بھی بچوں کی پڑھائی و تربیت سے لاتعلق رہتی ہیں۔ ٹی وی، دوستوں سے گپ شپ میں سارا وقت ضائع کردیتی ہیں۔ میں ان سطور کے ذریعے اپنی تمام بہنوں، بیٹیوں سے التماس کرتی ہوں کہ اپنا وقت اولاد کی تعلیم و تربیت پر صرف کریں، یقینا کل یہی اولاد اللہ رب العالمین کی رضا سے آپ کے بڑھاپے کا سہارا اور ساتھی بنے گی (ان شاء اللہ)۔

حصہ