پاکستان نصف صدی قبل(اگست 1971 )

345

اس سلسلہ ہائے مضامین کے تحت نصف صدی قبل یعنی سن 1971ء کے حالات ماہ بہ ماہ بیان کیے جارہے ہیں۔ اُس زمانے میں یعنی اگست 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بھارت کی سرپرستی میں مکتی باہنی کی کارروائیاں عروج پر پہنچ گئی تھیں۔ جبکہ عالمی اور سفارتی سطح پر بھی کارروائیاں جاری تھیں، لیکن عالمی برادری خاص طور پر مغربی طاقتوں کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں۔
اسی دوران روس نے 9 اگست 1971ء کو بھارت کے ساتھ جنگی معاہدہ کرکے پاکستان کے خلاف اُس کے عزائم کو مزید شہ دی۔ اس کے فوری بعد یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کے سیکرٹری امورِ خارجہ کا روس کا دورہ ملتوی ہوگیا ہے، یہ کہا گیا کہ 17اگست کو صدر جنرل یحییٰ خان اور پاکستان میں روسی سفیر روڈیونوف کی تندو تیز میٹنگ ہوئی۔
11اگست کو اقوام متحدہ میں پاکستانی نمائندے آغاشاہی نے سلامتی کونسل کے صدرکو تجویز پیش کی کہ کشیدگی دور کرنے کے لیے سلامتی کونسل کا ایک وفد پاکستان اور بھار ت کی سرحد کو دورہ کرے۔20اگست کو معلوم ہوا کہ اقوام متحدہ میں روسی نمائندے نے سیکرٹری جنرل کو مطلع کیا کہ ان کا ملک مشرقی پاکستان کے معاملے پر بحث کے لیے سلامتی کونسل کے اجلاس کی طلبی کے خلاف ہے۔
18اگست کو جب بھارت نے دوسری مرتبہ اس خیال کو مسترد کیا کہ اقوام متحدہ کے مبصر یا کونسل کا وفد دونوں ملکوں کی سرحدوں کا معائنہ کرے تو بھارت کا یہ عمل ایسے بین الاقوامی ماحول میں وقوع پذیر ہوا جو اُس ماحول سے یکسر مختلف تھا جس میں دوہفتے بھارت نے اوتھان کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔
اگست کے آخر میں تو نوبت یہاں تک آپہنچی کہ مکتی باہنی کے ’’نمائندے‘‘ وارننگ دے رہے تھے کہ اقوام متحدہ کے کارندوں نے اگر ان کی کارروائیوں میں مداخلت کی تو ان کے مرنے جینے کی پروا نہیں کی جائے گی۔ مغربی ممالک میں پاکستانی مشنوں کے بنگالی افسر ساتھ چھوڑ رہے تھے اور غیر ممالک میں پروپیگنڈے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے تھے۔
اب بھارتی سرپرستی میں لڑنے والی مکتی باہنی کی کارروائیوں میں بھی شدت پیدا ہوگئی تھی، فیصلہ ہوچکا تھا کہ مکتی باہنی کے بجائے اب اسے مکتی فوج کہا جائے، کیونکہ اس میں فضائیہ اور بحریہ کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ اگست کے دوسرے ہفتے میں سپلائی لے جانے والے بحری جہازوں پر بھی حملے شروع ہوگئے۔ 23 اگست کو چاٹگام کی بندرگاہ پر سرنگیں بچھا کر دو جہاز غرق کردیئے گئے۔ اگلے دنوں میں اس طرح کی بحری کارروائیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی۔ بحری راستے سے مشرقی پاکستان کو ساز و سامان اور فوجیوں کی آمد، اور مشرقی پاکستان کے اندرونی علاقوں میں خشکی اور تری میں نقل وحمل کے خلاف تخریبی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔
اگست کے آخر میں بھارتی وزارتِ داخلہ کے پالیسی پلاننگ کے ڈائریکٹوریٹ کے چیئرمین ڈی پی دھر نے مشرقی پاکستان کے قائدین سے سلسلہ وار ملاقاتیں کیں۔ 30اگست کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا کہ مشرقی پاکستان کے سیاسی حل کے متعلق بھارت کی عمومی کمٹمنٹ اب مکمل آزادی کی اُس قرارداد سے مخصوص ہوگئی ہے جو مشرقی پاکستان کے منتخب ارکان نے منظور کی تھی۔ قومی اسمبلی کے 110 اور صوبائی اسمبلی کے 200 اراکین نے جنرل یحییٰ خان کی سیاسی پیش قدمی کے جواب میں جولائی میں ’’آخر تک جنگ کا حلف‘‘ اٹھایا تھا۔
اسی دوران مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے باغیوں اور پاک فوج کے درمیان مقابلوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اگست میں ضلع نواکھالی کے ایک علاقے سے اطلاع ملی کہ وہاں مکتی باہنی نے مصیبت ڈھا رکھی ہے۔ ایک نوجوان افسر کو سات سپاہیوں سمیت ان کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا گیا اور چلتے وقت اسے ہدایت کی گئی کہ وہ طاقت کے بجائے سلیقے اور لچک سے کام لے کر اس علاقے کو تخریب کاروں سے پاک کردے۔ سلیقے اور لچک کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے وہ سات میں سے پانچ سپاہیوں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اطلاع ملنے پر ایک اور کپتان کو کمک دے کر روانہ کیا گیا۔ اُس نے اندازہ لگایا کہ باغی زیادہ اسلحہ کے ساتھ مورچہ بند ہیں اور باقاعدہ محاذ آرائی پر تلے بیٹھے ہیں۔ اس میں بڑی مشکل یہ تھی کہ اُن کے مورچے ایک گاؤں میں تھے، جہاں سویلین آبادی بھی تھی۔ نوجوان کپتان نے دور سے کئی بار انتباہ کیا، مگر کوئی اثر نہ ہوا، چنانچہ اُس نے سارے گاؤں کو گھیرے میں لے کر چاروں طرف سے اس پر گولہ باری شروع کردی۔ دھویں کے بادلوں کے ساتھ لوگوں کے چیخنے چلاّنے کی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک بوڑھا سفید پرچم اٹھائے باہر نکلا اور امن کی بھیک مانگنے لگا۔ اس کی درخواست فوراً قبول کرلی گئی، لیکن اس دوران بہت سے بے گناہ مارے گئے۔
یہ تو تھا باغیوں کو پناہ دینے والوں کا حشر… جو بنگالی پاک فوج سے تعاون کے ’’مرتکب‘‘ پائے جاتے، ان کا حشر کہیں زیادہ عبرتناک ہوتا۔ انہیں نہ صرف ہلاک کردیا جاتا، بلکہ بعض اوقات ان کی لاشیں درختوں سے ٹانگ دی جاتیں۔
مومن شاہی سے پچیس میل دور پھول پور میں ’’تل کلا‘‘ نامی پانچ میل چوڑی جھیل ہے جس میں کئی جزیرے ہیں۔ اگست کے آخری ہفتے میں اطلاعات ملیں کہ اس علاقے میں مکتی باہنی کا ہیڈکوارٹر ہے۔ جب البدر کے مجاہدین اس جھیل کے نزدیک پہنچے تو اس اسکیم کے تحت کہ وہاں پہنچنے کے فوری بعد فوجی کمک میں اضافہ ہوگا اور وہ ان ایجنٹوں کا صفایا کردیں گے، چنانچہ انہوں نے کارروائی کی تیاری شروع کی۔ مگر اس اسکیم کے تحت کارروائی شروع کرنے سے قبل ہی البدر اور پاک فوج کے مشترکہ دستے کا مکتی باہنی سے آمنا سامنا ہوگیا۔ اس مہم میں صرف چوبیس البدر کیڈٹ اور پندرہ فوجی جوان تھے، جبکہ مقابلے میں مکتی باہنی کے تین سو سے زائد مسلح افراد تھے۔
مکتی باہنی نے انہیں چاروں طرف سے گھیرلیا، لیکن مجاہدین نے ہمت نہ ہاری۔ سارا دن فائرنگ ہوتی رہی۔ پاک فوج کی چیک پوسٹ 9 میل دور تھی اور رابطہ قائم نہیں ہورہا تھا۔ اس صورت حال میں وہ بہت محتاط ہوکر فائر کررہے تھے۔ یہ اندیشہ موجود تھا کہ اگر گولہ بارود ختم ہوگیا تو بُری طرح مارے جائیں گے، لیکن محتاط انداز سے فائرنگ سے بھی دشمن کے قدم اکھڑنے شروع ہوگئے، اور جب وہ فرار ہوئے تو 21 مشین گنیں، 9 بندوقیں اور25 گرنیڈ مالِ غنیمت میں ملے۔
اس کامیابی کے بعدالبدر اور پاک فوج کا وہ دستہ پانچ پانچ افراد کا گروپ بن کر چیک پوسٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ اپنا ایمونیشن ساتھ لیا اور وہاں سے نکلنے لگے۔ لیکن مکتی باہنی نے گھات لگا کرانہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ وہ راستوں کے ارد گرد چھپ گئے اوریوں ان کے لیے پھر خطرہ پیدا ہوگیا۔ اسی دوران فوجی جوانوں نے راکٹ لانچر کا استعمال شروع کردیا۔ اس ہتھیار کی آواز بہت ہی خوفناک ہوتی ہے۔ وہ سمجھے کہ شاید انہیں کمک مل گئی ہے اور اب پاک فوج نئے اسلحہ سے ان پر حملہ آور ہوئی ہے۔ اس لیے خوف زدہ ہوکر انہوں نے اپنے مورچے بھی خالی کردیئے اور البدر اور پاک فوج کے جوان رات نو بجے خیریت سے اپنی چیک پوسٹ پر پہنچ گئے۔
ان حالات میں اہم مسئلہ یہی تھا کہ باغیوں کو معصوم شہریوں سے کس طرح الگ کیا جائے! ایک موقع پر جنرل ٹکا خان کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ سرحد سے ملحق دومیل کی پٹی کو آبادی سے خالی کرا لیا جائے تاکہ جو مشتبہ شخص نظر آئے اُسے گولی سے اڑا دیا جائے۔ جنرل ٹکا نے یہ تجویز مسترد کردی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس سے آبا دکاری کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوگا۔ اُن کا خیال تھا کہ 4ستمبر کو عام معافی کے اعلان کے بعد بھارت سے پناہ گزین بھی واپس آنا شروع ہوجائیں گے جن کی آبادکاری بجائے خود بہت بڑا مسئلہ ہوگا، سرحدی علاقے کو خالی کراکے اضافی دردِسر کیوں مول لیا جائے ؟
(حوالہ جات: ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ از کرنل صدیق سالک، ’’البدر‘‘ از سلیم منصور خالد، ’’شکستِ آرزو‘‘از پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین، ’’خون اور آنسوؤں کا دریا، بچھڑ گئے‘‘ از کرنل زیڈ آئی فرخ،’’ المیہ مشرقی پاکستان‘‘ ازاعجاز ابن اسد، ’’پاکستان ٹوٹنے کی کہانی‘‘ از وسیم گوہر، ’’مشرقی پاکستان کا زوال‘‘ از سعید الدین، ’’پاکستان توڑنے والے‘‘ ازافتخار علی شیخ)

حصہ