اور دیواریں بڑی بڑی

جیون کا دریا ہے چھوٹا اور ہیں لہریں بڑی بڑی
جرمِ وفا کی بھگت رہی ہوں میں تعزیریں کڑی کڑی
ہاتھوں میں ہے اب تک خوشبو دُکھ اور سُکھ کے پھولوں کی
میں نے سارے پھول پرو کر ، کر ڈالے ہیں، لڑی لڑی
آنے والے! تجھ کو تو احساس نہیں اس کا شاید
میں پتھر کی ہو جاتی ہوں، دروازے میں کھڑی کھڑی
قاتل شاید بھول گیا ہے، دار پہ کھینچ کے الفت کو
میت کب سے سوکھ رہی ہے ، سولی پر ہی چڑھی چڑھی
جھاڑ پھٹک کے آج سجا لی، دل کے شیشہ خانے میں
ہونے کو جو بوسیدہ تصویر تھی، اب تک پڑی پڑی
مجھ کو گرانا سہل نہیں ہے ، سن لو تم صیّاد ذرا
حق کی خاطر جان لٹا دوں، نا حق پر ہوں اَڑی اَڑی
کیسے توڑ سکو گی پرویںؔ رستے میں جو حائل ہیں
ہاتھ ترے چھوٹے چھوٹے ہیں اور دیواریں بڑی بڑی