داماد عرف جوائی

302

پاکستان کے دوسرے صوبہ جات کا تو مجھے علم نہیں، لیکن شاید ہمارے لوگوں نے پنجاب کی ثقافت میں عزیز واقارب میں خوشیوں کے مواقع پر اپنی اہمیت کا احساس دلوانے کی شق بھی شامل کردی ہے۔ یہ احساس خوشیوں سے سرشار گھرانے سے روٹھ کر دلایا جاتا ہے۔ ان مواقع میں سب سے اہم موقع شادی بیاہ ہے۔ اکثر اوقات کوئی نہ کوئی چچا، ماموں، پھوپھی روٹھے ہوتے ہیں۔ انہیں پرانے سے پرانے گلے شکوے خوشی کے اس موقع پر یاد آتے ہیں۔کبھی کبھی تو بارات والے دن بھی دولہا میاں سجنے سنورنے سے پہلے اپنے باپ کے ساتھ مل کر ان رشتوں کو منا رہے ہوتے ہیں کہ یہ لوگ بارات کے ساتھ جائیں۔ ان روٹھنے والے رشتوں میں سب سے اہم رشتہ جوائی عرف داماد کا ہے، جسے روٹھنے کے لیے کسی معقول وجہ کی بھی ضرورت نہیں۔ اس داماد نامی مخلوق کے اردگرد سیکڑوں وجوہات بکھری پڑی ہوتی ہیں، اور وہ بیچارہ ماتھے پر سات سلوٹیں ڈال کر گھور گھور کر ان وجوہات میں سے اپنی پسند کی وجہ کا انتخاب کررہا ہوتا ہے۔
رشتہ طے کرنے سے لے کر دن مقرر کرنے ہوں یا مینو کا انتخاب ہو، ہر معاملے میں اسے برکت کے طور پر شامل رکھا جاتا ہے۔ پھر ساس صاحبہ اُس کے ہر رشتے دار کو فون کرکے شادی میں شامل ہونے کا کہتی ہیں۔ بیٹے کی شادی سے پہلے ہی داماد کا بہترین جوڑا سلوا کر بھیج دیا جاتا ہے کہ ہمارے بیٹے کی بارات والے دن یہ پہننا ہے۔ شادی میں ساس صاحبہ کو کسی اور مہمان کی فکر ہو نہ ہو، داماد کی فکر میں وہ ضرور گھل رہی ہوتی ہیں کہ اس نے ناشتا کیا ہے یا نہیں، کھانا کھایا ہے یا نہیں! اگر داماد کا نوالہ ذرا سا بھی حلق سے اوپر رہ گیا تو یہ روٹھ جائے گا اور کھٹ سے کہے گا ’’مجھے تو کسی نے پوچھا ہی نہیں، میری تو کوئی وقعت ہی نہیں سسرال میں، میں بھوکا رہا‘‘۔
بھلا اتنی قدروقیمت کم ہے کیا؟ پورا سسرالی کنبہ اس کے آگے پیچھے دوڑ رہا ہوتا ہے، چاہے اس بھاگ دوڑ میں وہ آپس میں ہی ٹکراتے رہیں۔ ایک داماد ہی سارے مہمانوں سے بھاری نظر آرہا ہوتا ہے۔ اگر شومئی قسمت داماد ایک سے زیادہ ہوں، تو زیادہ تر ان کی آپس میں مخالفت ہی رہتی ہے۔ وہ سسرال میں بیٹھ کر غصے سے ایک دوسرے کو ایسے گھور رہے ہوتے ہیں جیسے گھر میں بندھی ہوئی ایک مخلوق گھر میں آنے والے اجنبی لوگوں کو گھورتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے موقع ملتے ہی یہ ایک دوسرے کو کچا چبا جائیں گے۔
ان کی آپس میں دوستی… ارے نہیں نہیں… وہ بھی خطرناک ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ مل بیٹھ کر سسرال کے خلاف ہی پلاننگ میں مشغول رہتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دکھ درد سانجھا ہوتا ہے۔ ایک سادہ لوح داماد جس نے اپنے سسرال میں اوپر دیکھا، نیچے دیکھا، دائیں دیکھا، بائیں دیکھا، روٹھنے کی کوئی وجہ نہ مل سکی۔ آخرکار تنگ آکر تھک ہارکر بچوں کے ہاتھ میں گھی کے خالی کنستر اور ڈنڈے پکڑا دیے کہ چھت پر جاکر انہیں ڈھول کی طرح پیٹو تاکہ لوگوں کو معلوم ہوکہ یہ شادی والا گھر ہے۔ بچوں نے ایسا ہی کرنا شروع کردیا۔ کانوں کے پردے پھاڑنے والا شور سن کر نیچے موجود کچھ لوگوں نے کہہ دیا: ’’یہ کون ہے اوپر؟‘‘
بس جی، اسی بات پر اعتراض ہوگیا کہ ’’اب ہم کون ہیں؟ ہم کون ہیں تو کون ہی سہی‘‘۔ اتنی سی بات پر روٹھ کر یہ جا اور وہ جا۔
ایسے ہی ایک بار ایک داماد اپنے سسرال مخالف تانے بانے بُننے کی مصروفیت میں الجھا ہوا موٹر سائیکل پر جا رہا تھا۔ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کر گیا۔ ٹریفک کانسٹیبل نے روک کرگرج دار آواز میں پوچھا ’’اوئے توں کی لگا ایں؟‘‘ یعنی کس بڑے عہدے پر فائز ہو جس کے غرور میں قانون کی خلاف ورزی کردی؟ خیالات کی دنیا میں تذبذب کا شکار اس شخص نے جواب دیا ’’ میں جوائی لگا ہوں‘‘۔ (میں داماد کے عہدے پر فائز ہوں)
ضروری نہیں کہ سارے داماد ایسے ہی ہوں، مذکورہ قسم کے برعکس بھی داماد ہوتے ہیں۔

حصہ