ایموجی

558

’’میرے تایا بہت بیمار ہیں پلیز پلیز ان کے لیے دعا کریں اللہ ان کے لیے آسانیاں کریں۔‘‘ اور ساتھ ہی ساتھ کتنی ہی ایموجیز ،کہیں آنسو بہہ رہے ہیں ، کہیں ہاتھ جوڑ کر اللہ اور رسول کے واسطے دیے جارہے ہیں تو کہیں دعا کے لیے ہاتھوں کی تصویر، کیا ہے یہ سب ؟ ایسا پڑھ کر تو دعا کرنے کے بجائے ہنسی آنے لگتی ہے‘ مذاق محسوس ہوتا ہے۔ بھلا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی اتنا پریشان ہو اور اتنی الٹی سیدھی ایموجیز کے ساتھ دعا مانگنے کو کہے۔
امی اپنی بات پوری کرکے اب میری طرف جواب طلب نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
’’امی لوگ بہت پریشان ہوتے ہیں جبھی تو دعا کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘ ارم نے فیس بک کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
’’میرے ماموں جان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اچانک دل کا دورہ پڑا اور جان کی بازی ہار گئے۔‘‘
’’اچھا اور یہ؟‘‘امی نے ایک اور میسج کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا! فرض کرو کہ تمہارا کوئی قریبی بیمار ہو تو تم کیا فیس بک کھول کر اسٹیٹس ڈالنے بیٹھ جاؤ گی؟ یا اتنی پھول پتیوں اور ایموجیز کے ساتھ سب سے دُعا مانگنے کے میسج کرنے لگو گی یا اس پریشانی میں تمہیں یہ خیال آئے گا کہ صرف اور صرف اللہ پاک سے مدد مانگو۔‘‘
’’اوہو امی! ہم ہر جگہ خود کو کیوں رکھ کر سوچیں ، بھئی کسی نے کہا ہے کہ دعا کرلو تو بس ہم آمین لکھ کر آگے بڑھ گئے‘کیا پتا کس کی دعا قبول ہو جائے۔‘‘ ارم نے کہا اور وہاں سے اٹھ جانے میں ہی عافیت جانی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ امی اس کو قائل کر ہی لیں گی۔
یوں تو ارم کی امی بھی فیس بک استعمال کرنے والوں کے خلاف نہیں تھیں مگر کسی بھی چیز کا غلط استعمال پر ان کو غصّہ آ جاتا تھا۔ ایک دن ارم کا بھائی عدنان سیڑھیوں پر سے گر گیا‘ ارم اس کے قریب ہی تھی اس نے گھبرا کر امی کو آواز دی۔
’’امی… امی…! جلدی سے آئیں، عدنان سیڑھیوں سے گر گیا ہے۔‘‘ پھر فوراً ہی خیال آیا کہ امی تو گھر پر ہی نہیں ہیں بلکہ کام سے گئی ہوئی ہیں اس نے بڑی مشکل سے بھائی کو اٹھایا اور سہارا دے کر کمرے میں لے کر آئی۔ شکر ہے اس کا خون نہیں نکلا تھا پھر اس نے امی کو فون کیا۔ امی جلد ہی آگئیں۔
عدنان کے پاؤں میں بہت درد ہورہا تھا امی اس کو ڈاکٹر کے ہاں لے گئیں‘ اس کا ایکسرے وغیرہ کروا لیں۔ ارم گھر میں اکیلی تھی اور دعا کر رہی تھی کہ اس کا بھائی ٹھیک ہو، وہ مستقل دعا کر رہی تھی، اچانک اس کو خیال آیا کہ فیس بک پر لکھ دیتی ہوں میری دُعا پر سب آمین لکھیں گے تو بھائی جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ سوچ کر ابھی اس نے موبائل اٹھایا ہی تھا کہ امی اور بھائی واپس آگئے اور امی نے بتایا کہ ہلکی سی موچ آئی ہے جلد ٹھیک ہو جائے گا۔
ارم نے شکر ادا کیا۔
’’موبائل پر کیا کر رہی تھیں؟‘‘ ارم کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر امی نے پوچھا تو وہ تھوڑا سا گھبرا گئی۔ ’’وہ میں…‘‘
’’کیا ہوا گھبرا کیوں رہی ہو؟‘‘ امی نے بات کی نوعیت کا اندازہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ میں سوچ رہی تھی کہ فیس بک پر سب سے کہوں کہ میرے بھائی کے لیے سب دعا کریں کہ اس کو زیادہ چوٹ نہ آئی ہو۔‘‘ ارم نے کہا۔
’’اچھا پھر کیا جواب آیا۔‘‘ امی نے پوچھا۔
’’ابھی میں نے صرف سوچا تھا کہ آپ آگئیں‘ لکھا نہیں تھا۔‘‘ ارم نے بتایا۔
’’تو تم اتنی دیر تک کیا کرتی رہیں، فوراً ہی کیوں نہیں میسج لکھا۔‘‘
’’اُف امی! میں اتنی پریشان تھی بس اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتی جارہی تھی‘ فیس بک کا تو خیال بھی نہیں آیا، بس اچانک ہی جیسے خیال آیا اور آپ دونوں آگئے۔‘‘
’’اچھا یہ بتاؤ اگر تم لکھتی تو کیسے لکھتی‘ ڈھیر ساری ایموجی رونے والی، دعا والے ہاتھ ،پلیز کے لیے ہاتھ جوڑنے والی ایموجی ؟‘‘
’’نہیں امی! کہاں‘ میں تو شاید بس لکھ دیتی کہ سب دُعا کریں‘ بلکہ پتا نہیں وہ بھی لکھ پاتی یا نہیں، اتنا رونا آ رہا تھا کہ بس…‘‘
’‘تو میری گڑیا! میں تم کو یہی تو سمجھا رہی تھی کہ اگر انسان اتنا پریشان ہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگتا ہے‘ جو لوگ اس طرح کے میسج لکھتے ہیں وہ یا تو صرف لائیکس کے لیے یا فضول توجہ کے لیے‘ ایسا ناممکن ہے کہ ہم پریشانی میں ایسے پھول پتیوں اور شکلوں والے میسج کریں، تم بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ رہی تھی تو شیطان نے تم کو بہکایا اور تم اللہ کے بجائے اس کے بندوں سے مدد مانگنے کا سوچنے لگیں۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں امی! مجھے آج یہ بات اچھی طرح سے سمجھ آ گئی۔‘‘ ارم نے امی کی ہاں میں ہاں ملائی۔

حصہ