اُن کی دنیابدل گئی!۔

310

تنویر اللہ
وہ اپنے رب سے جاملے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، منور حسن کیا تھے! ولی تھے، سیاسی و دینی رہنما تھے، دانش ور تھے، بہادر تھے، ہار نہ مانے والے جنگ جو تھے، مایوس نہ ہونے مربی تھے،شعلہ بیاں خطیب تھے، نوجوانوں میں اسلام کو فخر کا سبب بنانے والے تھے، ڈاڑھی کو دقیانوسی کے بجائے جدت کی علامت بنانے والے تھے، ذھین اور کامیاب طالب علم تھے، طالب علم رہمناء تھے، عمر فاروق کی طرح اسلام دشمنوں کے سینے پر مونگ دلنے والے تھے، بیٹی کے شفیق باپ تھے، بیٹے کی طاقت تھے، تعاون کرنے والے شوہر تھے، پکے اور اچھے نمازی تھے ان کی نماز کے بارے میں میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کہتے تھے کہ نماز ہو تو منور جیسی ہو، میں نے قریب چالیس برس انھیں مختلف تربیت گاہوں اور اجتماعات میں دیکھا، منورحسن ہمیشہ ہر نماز میں ٹھیک امام کے پیچھے موجود ہوتے تھے، کبھی انھیں نماز سے پہلے وضو کے لیے دوڑتے ہوئے نہیں دیکھا وہ ہمیشہ باوضو رہتے تھے۔
وہ بہت خوش لباس تھے ہمیشہ بے شکن بے داغ اجلے کپڑے پہنتے تھے، موقع کی مناسبت سے وہ کبھی جناح کیپ، دوپلی ٹوپی، پشاوری ٹوپی، جالی والی ٹوپی پہنتے تھے۔
اللہ نے منور حسن کو دنیا کی ہر خوبی اور صلاحیت سے نوازا تھا وہ مشہور تھے لیکن انھیں شہرت کی چاٹ نہیں تھی، صبح منور شام منور روشن تیرا نام منور کے نعرے سن کر بھی وہ نمود و نمائش سے پاک تھے، وہ ریا کاری کی ہر شکل کو وہ پہچانتے اسے اپنے کارکنوں کی رہنمائی کے لیے بیان بھی کرتے تھے لیکن ویہ اس کی ہر شکل سے محفوظ تھے، وہ ہر دل عزیز تھے لیکن ان کا ہر تعلق اللہ کے لیے تھا، انھوں نے کبھی اپنے منصب اور مقام کو ذاتی فائدے کا ذریعہ نہیں بنایا۔
میں الخدمت کراچی کا سربراہ تھا میں نے اپنے آفس میں اسے جاب کے بارے میں بات کرتے سنا، امیر جماعت اسلامی پاکستان کا بیٹا طلحہ حسن کو عام نوجوان کی طرح ملازمت کررہا تھا، باپ کے چاہنے والے پاکستان کیا دنیا بھر میں موجود تھے لیکن باپ نے خلیفہ دوئم عمر فاروق طرح اپنے نام اور منصب کا فائدہ اولاد کو نہیں پہنچایا، سفارش کا کوئی داغ اپنے دامن پر لگنے نہیں دیا۔
زمانہ طالب علمی میں منور حسن بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف میں رہے تھے ان کی ساری سرگرمیوں کے لیڈر تھے، لیکن جب انھیں چھوڑا تو ایسا کہ قرون اولی کے مسلمانو کی یاد تازہ کردی۔
وہ دنیا کے ہر عیش سے وہ واقف بھی تھے اور اسے پانے کی استطاعت بھی رکھتے تھے لیکن پھر بھی وہ دنیا پرست نہ تھے، خطابت بغیر مبالغے کے ناممکن ہوتی ہے لیکن ان کی بات مبالغے سے خالی ہوتی تھی، اتنے ٹہرے لہجے میں جوش بھر دینے والا خطیب میں نے نہیں سنا، اکثر لوگ تقریر کرتے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں آسیتینں چڑھا لیتے ہیں، اپنا بلڈ پریشر بڑھا لیتے ہیں، لیکن وہ بات کرتے تھے یوں لگتا تھا کہ ہموار سطح پر پانی بہہ رہا ہو، وہ اپنی ہر تقریر میں کوئی نہ کوئی نیا زاویہ خیال پیش کرتے تھے۔
یاد رہ جانے والی اُن سے میری پہلی ملاقات1980 اسلامی جمعیت طلبہ شکارپور کے تربیتی کیمپ میں ہوئی تھی، اس سے پہلے 1977 میں سنا تھا کہ منورحسن نام کا کوئی جوان بڑی دھواں دار تقریریں کرتا ہے میرے پھوپھا صابر علی (مرحوم) پی این اے کے جلسوں صرف ان کی تقریر سننے جاتے تھے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اسٹیج پر کچھ ہے اور نجی زندگی میں کچھ اور ہے، تقریر کچھ کرتا ہے عمل کچھ اور کرتا ہے، منورحسن ہر جگہ ایک سے تھے اللہ کے رنگ میں رنگے ہوئے۔
جب ایم کیو ایم کا سورج شباب پر تھا اُس زمانے میں طاقت کے نشے میں مدہوش الطاف کے قصاب اسلامی جمیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے لوگوں کو بے دریغ قتل کررہے تھے ایک رات منور حسن الطاف کے دفتر نائن زیرو جاپہنچے الطاف حسین سے کہا کہ آپ الیکشن جیت چکے ہیں، ہم سمجھتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ اہل کراچی نے آپ کو منتخب کیا ہے لہذا اب آپ کام کیجئے اور ہمارے کارکنان کے قتل سے باز آجائیے الطاف حسین نے جواب دیا کہ آپ اپنے درس قران اور دعوتی کاموں کو چھوڑ دیں تو ہم آپ کے لوگوں کو قتل کرنا چھوڑ دیں گے، جواب میں منورحسن نے کہا آپ کا جو دل چاھے کریں ہم اللہ کے نام کو بلند کرنے کے کام سے باز نہیں آئیں گے، میرے ایک ہاتھ پر چاند رکھ دو اور دوسرے ہاتھ پر سورج پھر بھی میں اپنی دعوت سے باز نہیں آوں گا کے پیروکار کا ایسا ہی جواب ہونا چاہیے تھا۔
رسم رواج کے سامنے اور اپنی اولادوں کی شادی بیاہ کے موقع اکثر لوگ بے بس ہوجاتے ہیں، منور حسن اس معاملے میں بھی سولہ آنے کھرے ثابت ہوئے، اپنی بیٹی کی شادی اس طرح کی کوئی بھی اسے دیکھ کر حسرت میں مبتلا نہ ہو، شادی پر ملنے والے تمام تحائف اور نقد رقم جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کروا دئیے ان کے خیال میں یہ تحائف اور رقم لوگوں نے منور حسن کی بیٹی کو نہیں بلکہ امیر جماعت کی بیٹی کو دئیے تھے، وہ کسی سرکاری منصب پر یا کسی عوامی عہدے پر فائز نہیں تھے کہ لوگ فائدہ حاصل کرنے کے لیے انھیں تحائف دیتے لیکن منور حسن نے دلیل کے بجائے تقوے اور احسان کا راستہ اختیار کیا اسی لیے آج وہ اپنے کارکن کے فخر کا سبب ہیں۔
ان کی زندگی کا کوئی پہلو بھی کمزور نہ تھا، مال، اولاد، رسم و رواج، شادی بیاہ، شہرت، منصب، مقام، سیاست، ہر معاملے میں وہ بلکل کھرے اور سچے ثابت ہوئے۔
ایسا بانکا، سجیلا، خوش شکل، خوش لباس، خوش گفتار، بلند کردار، دنیا داروں کے لیے اجنبی، جنت کے لیے موزوں اپنے رب کے حضور جاپہنچا گویا کہ مسافر نے منزل پالی، بے قرار کو قرار آگیا ہوگا، آج جنت میں ایک نئے مکین کے استقبال کی تیاریاں ہورہی ہوں گی، مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، غفور احمد، نعمت اللہ خان، نصر اللہ شجیع، اسلم مجاہد، لقمان بیگ،حافظ اسلم اور بہت سارے اپنے ساتھی کے منتظر ہوں گے، مرسی، مطیع الرحمان، غلام آعظم سب مل کر محمد رسول اللہ کے دربار میں حاضر ہوں گے، کیا خوب دیکھنے والا منظر ہوگا۔
اس دنیا سے جانا یقینی ہے، سب کو جانا ہے، ضرور جانا ہے، لیکن بعض جانے والے اپنے پیچھے سب کچھ ویران کر جاتے ہیں، میرا بھی لاکھوں کی طرح دل بے قرار ہے، سنا ہے قبر پر مٹھی بھر مٹی ڈالنے سے دل قرار آجاتا ہے، اپنی سی بہت کوشش کی لیکن فاصلے درمیان میں حائل ہیں کوئی سبب نہ بن سکا۔
دعا تو فاصلوں سے آزاد ہوتی ہے اسے کسی گاڑی، سواری کی ضرورت نہیں ہوتی،لہذا دل کی دھڑکن کو ان کے لیے دعاوں سے ہم آہنگ کرکے صبر کرلیا ہے۔
مرتا تو وہ ہے جو اپنے پیچھے زمین میں گھڑے محلات چھوڑ جاتا ہے یہ جانے والا تو اللہ کے سپاہیوں کی متحرک و مستعد فوج چھوڑے جارہا ہے، مرتا تو وہ ہے جو جھگڑے کے لیے مال و زر کی وراثت چھوڑ جاتا ہے اس جانے والے کی وراثت تو ہدایت ہے جس کی جتنی مرضی ہے اسے لے لے، مرتا تو وہ ہے جس کی صرف دنیا ہی آباد ہوتی ہے اور آخرت برباد ہوتی ہے اور جس کی آخرت آباد ہو اس کی تو مراد بر آتی ہے، مرتا وہ ہےجسے اس کے چاہنے والے قبر میں بے کار سمجھ کر دبا جاتے ہیںکوئی اپنا خزانہ دفن کرکے بھولتا ہے؟ مرتا وہ ہے جو پیچھے گم نامی چھوڑ جاتا ہے یہ جانے والا تو ناموری پہاڑ چھوڑے جارہا ہے، مرتا وہ جس کے دوچار ورثا ہوتے ہیں یہ جانے والا تو اپنے ذریعے ہدایت پانے والوں کی فوج ظفر موج چھوڑ گیا ہے۔
ایسے متحرک، سیمابی، پارہ صفت، دعوت الی اللہ کے لیے بے چین، اللہ کو راضی کرنے کے لیے بے قرار کی رب کے پاس روانگی کے جلوس کو جنازہ کہتے کلیجہ منہ کو آتا ہے الفاظ حلق میں گُھٹ جاتے ہیں یہ تو جنت کے مسافروں کا قافلہ جو اپنے سالار کو سفر پر روانہ کرنے کے لیے اُسے الوداع کہنے جمع ہوئے ہیں، آج الوداع کہنے ولے بھی رفتہ رفتہ اس جانے والے سے جاملیں گے۔
دنیا میں اللہ کے لیے ساتھ رہنے والوں کو جنت میں جمع کرے، جو امن، سکون، اطمینان، عدل، محبت، بے غرضی کا منظر اس دنیا میں نہ دیکھ پائے جنت ان کی منتظر ہے۔

سيد منور حسن۔۔۔

اجمل سراج

وه شخص
سچائی کا نشاں تھا
وه شخص
صحراؤں ميں اذاں تھا
وه حق کی تصوير تھا مجسم
وه اپنے وعدوں کا پاسباں تھا
علی کا بيٹا
حسينيت کا عَلَم اٹھائے
يزيديت کے خلاف اک آہنی چٹاں تھا
وه اپنے وعدے نبھاچکا ہے
اور اب بہت دور جاچکا ہے

سید منور حسن علیہ الرحمہ

ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر

استعارہ
حق و صداقت کا
جہدِ پیہم کا ،استقامت کا
بے کراں عزم کا ،شجاعت کا
ایک جادو اثر بلاغت کا
خوش کلامی کا اور فصاحت کا
فقر و درویشی و ریاضت کا
صبر کا،شکر کا ،قناعت کا
حسنِ اخلاق کا ،دیانت کا
بے نمود و ریا سیاست کا
آہ وہ شخص
اعتبارِ جہاں
دم بخود کرکے
آج روٹھ گیا!
سوئے خلدِ بریں روانہ ہوا
” اِرجِعی ” کی صدا پہ لوٹ گیا
سیدی الوداع،خدا حافظ

حصہ