کچھ اچھا بھی ہے

269

سبرینا خان
۔’’معلوم نہیں یہ مصیبت کب ٹلے گی؟ آج تو میں منہ کھول کر کہہ ہی دوں گی رہنا ہے تو طریقے سے رہیں ورنہ… نہ جانے کون لوگ ہیں جو زیرہ بسکٹ کے زیرے گن رہے ہیں، بالکونی میں کھڑے ہوکر گانے گاتے ہیں، یہاں تو رونے کی بھی فرصت نہیں ہے۔‘‘ نسرین مارا مار برتن دھوتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔
کھانا کی مختلف چیزیں پکنے کے مراحل میں تھیں۔ صفائی اور دیگر امور خاتونِ خانہ کے منتظر تھے۔ کورونا وائرس نامی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی احکام کے تحت کاروبارِ حیات بند تھے۔ انہی احتیاط کے پیش نظر معاشرتی فاصلے برقرار رکھتے ہوئے ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت کار جہاں جاری تھا۔ صبح سے شام، شام سے رات اور رات سے پھر صبح کاموں کا نہ ختم والا سلسلہ ہوتا۔ ہاؤس وائف بغیر بیرونی امداد کے گھر کا سسٹم چلا رہی تھی۔
’’امی کچھ لائٹ سا ناشتہ بنادیں۔‘‘ ارسلان نے نیند سے اٹھنے کے بعد باورچی خانے کا رخ کیا تھا۔ نسرین کا موڈ‘ جو پہلے خراب تھا‘ اب گویا فیوز اُڑ گیا تھا۔
’’یہ ناشتے کا وقت ہے؟‘‘ وہ ارسلان کی طرف مڑی۔
’’بھئی کیا … ابھی تو صرف ڈھائی بجے ہیں‘ پورا دن پڑا ہے۔ ابھی ناشتہ دے دیں دو تین گھنٹے بعد کھانا کھالوں گا۔‘‘ ارسلان فراغت سے بھرپور استفادہ کررہا تھا۔
’’کھانا تیار ہے‘ کھالو ورنہ جو لائٹ ڈارک کھانا ہے خود بنالو۔‘‘ نسرین نے چولھا بند کیا اور باورچی خانے سے نکل گئیں۔ ‘‘
امی ! میں کیسے بناؤں؟‘‘ ارسلان نے گھبرا کر دھائی دی۔
’’جیسے مرضی۔‘‘ نسرین نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔ ’’گوگل کرلو!‘‘ جلے کٹے لہجے میں مشورہ دیا گیا۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے ریحان صاحب کو ماحول میں جب گرج چمک کا احساس ہوا تو چائے کے تیسرے کپ کی آرزو دل میں ہی رہ گئی۔
ظہر کی نماز پڑھ کر نسرین نے دیکھا کہ ریحان صاحب کھانے کے برتن دھو رہے تھے، ارسلان چائے بنا رہا تھا اور زہرہ اور مائرہ گھر کی صفائی کررہی تھیں۔ نسرین کو واشنگ مشین میں پڑے کپڑوں کا خیال آیا وہ تیزی سے مشین کی جانب گئی ابھی ڈھکن کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ایک آواز آئی ’’امی آپ رہنے دیں ہم دونوں یہ کام کرلیں گے‘ آپ آرام کریں بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہیں۔‘‘ مائرہ نے اس کے ہاتھ نرمی سے دبائے۔ نسرین کی آنکھوں سے تشکر کے آنسو چھلک پڑے۔
’’نسرین اٹھیے عصر کی نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔‘‘ ریحان صاحب کی آواز پر وہ خوابوں کی دنیا سے حقیقی دنیا میں واپس آئی تو دل بھر آیا ’’کاش یہ خواب نہ ہوتا۔‘‘ آنکھوں کی نمی بڑھ گئی اور ناک نے ان کا ساتھ دیا۔ نسرین نے ہتھیلیوں سے آنکھیں مل لیں۔
’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ زکام ہو رہا ہے؟‘‘ ریحان صاحب کو واقعی تشویش ہوئی تھی۔دن رات نیوز اور ٹاک شوز دیکھ اور سن کر دماغ نے بھی وہی احاطہ جاری رکھا تھا۔‘‘ میں بخار چیک کرتا ہوں۔‘‘ نسرین کسی بات کا جواب دیے بغیر تھکے تھکے انداز میں وضو کرنے چل دی۔
’’یار تمہاری امی کووِڈ نائنٹین کے سمٹمز شو کررہی ہیں۔‘‘ ریحان صاحب اپنے بچوں سے بولے۔ ‘‘میرا خیال ہے انہیں 15دن آئسولیشن میں رکھتے ہیں۔‘‘
’’ارے ابو پھر تو ہم بھوکے مر جائیں گے، آج کل تو باہر بھی کچھ نہیں مل رہا۔‘‘ ارسلان کو اپنی پڑی تھی۔
ابو نے اسے گھورا۔ ’’اُف ارسلان کھانے کے علاوہ بھی کچھ سوچ لیا کرو!‘‘وہ غصہ دباتے ہوئے بولے۔ ’’کورونا وائرس کی وبا جان لیوا نہیں لیکن خطرناک ہے، اپنے ہاتھ بیس سیکنڈ تک……‘‘ ان کے ذہن میں فون ریکارڈنگ گونجنے لگی جو آج کل تمام نیٹ ورک نے لگا رکھی ہے۔
’’امی! امی…’ آ…آپ اندر رہیں، … ہمیں بتائیں کیا چاہیے؟‘‘ ارسلان تیزی سے کھڑا ہوا جب اس نے نسرین کو کمرے سے نکلتے دیکھا۔
’’کیوں بھئی؟ ایسا کیا ہوگیا مجھے؟ ذرا سی آنکھ لگ گئی تھی، ابھی کتنے کام باقی ہیں، ہٹو آگے سے۔‘‘ نسرین نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے قدم بڑھائے۔
’’امی! پلیز ‘‘ ارسلان بولا۔
’’ہاں نسرین ارسلان ٹھیک کہہ رہا ہے، تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، کام کی فکر نہ کرو ہم لوگ کرلیں گے۔‘‘ ریحان صاحب کا منہ اترا دیکھ کر نسرین ٹھٹک گئی۔
’’مجھے یقین ہے 15 دن آئسولیشن کے بعد تم بالکل ٹھیک ہوجاؤگی۔‘‘ ریحان صاحب سنجیدہ انداز میں بولے۔
’’مگر مجھے ہوا کیا ہے؟‘‘ نسرین حیران تھی۔
’’کچھ نہیں بس ذرا سا زکام اور بخار ہے، اصل میں احتیاط اچھی ہوتی ہے نا! بس تم گھبرانا نہیں۔‘‘ شوہر کی پریشانی دیکھ کر وہ دل میں مسکرا اٹھی۔
’’وہ مجھے بھی کورونا وائرس کا متاثر سمجھ رہے ہیں؟‘‘ سوچ رہی تھی کہ ہر وقت ایک ہی چیز سنتے رہنے سے دل و دماغ کیسے منجمد ہوجاتے ہیں۔ آنکھ کی نمی اور ناراضی کو کیا سمجھ لیا گیا تھا۔ ٹی وی چینلز تو اچھے بھلے سمجھدار انسان کی بھی عقل بند کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
’’آپ نیوز زیادہ نہ سنا کریں۔‘‘ نسرین کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولی۔ وہ ہنس رہی تھی ’’چلو بھئی اب کچھ دن آرام کرتے ہیں اس نے ایک لمبی سانس کھینچی۔‘‘ وبا تو اچھی ہوتی ہے۔

حصہ