اللہ دیکھ رہا ہے

382

عرشمہ طارق
۔’’نومی آپ نے ثانیہ کی چاکلیٹ کیوں کھائی؟ میں نے آپ کو الگ دی تھی نا۔‘‘ اسما نے ثانیہ کے رونے پرا پنے 7 سالہ بیٹے کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کارٹون دیکھنے میں مگن تھا۔ ’’مما اس نے خود کھائی ہے اور میری جھوٹی شکایت لگا رہی ہے۔‘‘ نومی نے ماں کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔ ’’ذرا میری طرف دیکھنا‘‘ اسما نے برہمی سے کہا۔ اور آگے بڑھ کر ٹی وی بند کر دیا۔ ’’کتنی غلط حرکت ہے کہ بغیر اجازت چھوٹی بہن کی چاکلیٹ کھا لی اور جھوٹ بھی بول رہے ہو۔ آنے دو آج اپنے بابا کو تمہارا کھیل کود اور یہ کارٹون سب بند کرواتی ہوں۔‘‘ اسما نے نومی کا کان پکڑ کر غصے سے کہا۔ ’’میں نے تو چھپ کر کھائی تھی۔ مما کو کیسے پتا چل گیا۔‘‘ نومی نے حیرت سے دل میں سوچا۔ ’’بیٹا مائیں اپنے بچوں کا چہرہ دیکھ کر بھانپ لیتی ہیں کہ وہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ۔‘‘ اسما نے جیسے نومی کے دل کی آواز سن لی۔ ’’کسی کی چیز بغیر اجازت لینا بہت بری بات ہے۔ اگر اور کھانی تھی تو مجھ سے کہہ دیتے۔‘‘
’’سوری مما آئندہ ایسی غلط نہیں ہو گی۔‘‘ نومی نے کان سہلاتے ہوئے ماں سے وعدہ کیا۔‘‘
’’بیٹا یہ سوچ کر کبھی غلط کام نہ کرنا کہ کوئی دیکھ نہیں رہا۔ ہمیشہ یاد رکھو۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہیں اور سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اور اگر کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو فوراً توبہ کر لینی چاہیے۔‘‘
’’چلو بھائی تم بھی توبہ کرو۔‘‘ ثانیہ کو اپنی چاکلیٹ یاد آگئی۔ دادا جان جو کہ بظاہر تو اخبار پڑھ رہے تھے۔ لیکن وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ انہوں نے دونوں بچوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا۔ ’’میں تمہیں اپنے بچپن کی ایک بات بتاتا ہوں جو میں نے ہمیشہ یاد رکھی اور تم بھی کوشش کرنا کہ جو بھی اچھی بات سنو اس پر عمل کرو۔ کیونکہ اچھے کاموں میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ اسما نے اپنے سسر کو چائے دی اور خود بھی وہیں بیٹھ گئی۔
’’یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اسکول جایا کرتا تھا۔ اسکول کے راستے میں ہمیں ایک ملنگ بابا نظر آتا تھا۔ وہ بس ایک ہی بات دوہراتا رہتا تھا۔ اللہ دیکھ رہا ہے۔ فرشتے لکھ رہے ہیں۔ موت آنی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے اسے کوئی اور بات کرتے ہوئے نہیں سنا۔‘‘
’’دادا جان وہ ایسے کیوں کہتا تھا۔‘‘ ثانیہ نے معصومیت سے سوال کیا۔ ’’پتا نہیں بیٹا اصل بات تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن اس کے لہجے میں بڑا درد محسوس ہوتا تھا۔ اس وقت تو مجھے ان باتوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا۔ کیونکہ میں بچپن ہی سے بہت شریر تھا۔ اپنے بہن، بھائیوں اور محلے والوں کو بہت تنگ کرتا تھا۔ میرے ساتھ کچھ دوست بھی ہوتے تھے۔ کبھی چپکے سے کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر بھاگ جاتے۔ کسی کے دروازے کی باہر سے کنڈی لگا دیتے۔ کسی کے گھر کے آگے پٹاخہ پھوڑ دیتے یا درختوں سے پتھر مار مار کر پھل توڑتے۔ اس وقت ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہماری شرارتوں سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ نومی نے بے یقینی سے کہا۔ ’’دادا جان آپ تو بالکل بھی شرارتی نہیں لگتے۔‘‘ دادا جان اور پاس بیٹھی اسما کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ’’بیٹا میں آپ کو یہی تو بتانا چاہ رہا ہوں کہ میں شرارتی بچے سے تمیز دار بچہ کیسے بنا۔ ایک دفعہ میں نے روزہ رکھا۔ گرمی اور پیاس کی شدت سے میرا برا حال ہو گیا۔ میں نے سوچا چھپ کر تھوڑا سا پانی پی لیتا ہوں۔ کون سا کسی کو پتا چلے گا۔ جیسے ہی میں گلاس منہ کے قریب لے کر گیا۔ میرے کانوں میں ایک آواز گونجی اللہ دیکھ رہا ہے۔ مجھے ایک دم اپنی غلطی کا احساس ہوا۔‘‘ دادا جان آپ کے کانوں میں کسی کی آواز گونجی تھی۔‘‘ نومی کو تجسس ہو رہا تھا۔ ’’بیٹا اسی ملنگ بابا کی آواز جس کے بارے میں ابھی میں نے بتایا تھا۔ اسی طرح ایک دفعہ میں اپنی چیز خریدنے گیا۔ دوکان پر ایک انکل نے کافی چیزیں خریدیں جب وہ دوکاندار کو پیسے دینے لگے تو ان کے کچھ نوٹ زمین پر گر گئے انہیں تو پتا نہیں چلا لیکن میں نے دیکھ لیا۔ اور دل میں سوچا کہ میں یہ پیسے اٹھا لیتا ہوں اور مزے سے خوب ساری چیزیں کھائوں گا۔ جیسے ہی میں نے پیسوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ایک دم مجھے احساس ہوا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ مجھے اپنی سوچ پر ندامت محسوس ہوئی۔ دل ہی دل میں اللہ سے معافی مانگی اور پیسے اٹھا کر انکل کو دے دیئے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے شاباشی دی‘‘۔ ’’دادا جان انکل نے آپ کو انعام نہیں دیا۔ آپ نے تو ان کے پیسے واپس کیے تھے۔‘‘ نومی نے تعجب سے پوچھا۔ ’’بیٹا ان کی شاباشی ہی میرا انعام تھا۔‘‘
’’پھر اکثر ایسا ہی ہونے لگا جب بھی میں کوئی غلطی کرنے لگتا میرے کانوں میں ملنگ بابا کی آواز کی باز گشت سنائی دیتی۔ اللہ دیکھ رہا ہے۔ فرشتے لکھ رہے ہیں اور اس طرح میری ساری شرارتیں ختم ہوتی چلی گئیں۔‘‘
’’اور دادا جان اس طرح آپ اچھے بچے بن گئے؟‘‘ ثانیہ نے دادا جان کے گھٹنے پر سر رکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہاں بیٹااور اگر آپ لوگ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کو دنیا میں بھی شاباشی ملے اور آخرت میں بھی تو ہمیشہ ایسے کام کرنا جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر دادا جان نے دونوں بچوں کو پیار کیا۔ اور اپنے کمرے میں جاتے ہوئے آواز لگائی۔ ’’چلو بچوں عصر کی نماز کا وقت ہو رہا ہے۔ تم دونوں بھی وضو کر کے آجائو۔‘‘

حصہ