ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس، اردو نعت، تاریخ، موضوعات اور مباحث

460

ڈاکٹر شمع افروز
۔’’اردو نعت، تاریخ، موضوعات اور مباحث‘‘ پر شعبہ اردو جامعہ کراچی کے زیراہتمام ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
اس کانفرنس میں شہر کے ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی متعدد شخصیات نے شرکت کی، جب کہ طالب علموں اور دیگر شہروں سے آئے ہوئے اسکالرز کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس کانفرنس کے ہر اجلاس نے سامعین و حاضرین کی خاص توجہ حاصل کی اور آخر تک لوگوں کا ایک جمِ غفیر موجود تھا۔
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی (شیخ الجامعہ،جامعہ کراچی) نے کی۔ حافظ مبشر نے قرأت، جب کہ وزیر حمایت علی نے نعت پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ خطبہ استقبالیہ صدر شعبہ اردو، جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے پیش کیا، جس میں انہوں نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔
ڈاکٹر تقی عابدی نے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کیا جس میں انہوں نے نعت کی تاریخ، موضوعات اور مباحث پر وسعتِ نظری کے ساتھ پُرمغز مطالعہ و تجزیہ پیش کیا۔ شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے افتتاحی اجلاس میں صدارتی خطبہ پیش کیا جس میں شعبۂ اردو کے زیراہتمام نعت کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس پر تمام اساتذہ کرام اور مقالہ نگاروں کو سراہا، دلی مبارک باد پیش کی اور سب کو نشانِ سپاس دیا۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر راحت افشاں نے نہایت عمدگی سے نبھائی۔
اس کانفرنس کا پہلا علمی اجلاس پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کی صدارت میں ہوا۔ ڈاکٹر شمع افروز نے سعادت خان یار خان رنگین کی نعت گوئی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ پیش کیا جس میں غزل، شہرِآشوب، قصیدہ اور مثنویوں اور دیگر زبانوں کے نعتیہ منظوم تراجم پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر سمیرا بشیر نے انور مسعود کی نعت نگاری کے موضوعات کو پیش کیا۔ ڈاکٹر کاشف عرفان نے ’’نعت اور نظریۂ اضافیت کے باہمی روابط‘‘ پیش کیا۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے نعت کے موضوعات، اس کی تنقیدی روایت اور آغاز و ارتقا پر تنقید کے حوالے سے تجزیہ پیش کیا۔ مبین مرزا نے کہا کہ نعتیہ تنقید کے حوالے سے حسن عسکری وہ پہلے ناقد ہیں جنہوں نے نعت کی بنیادی تنقید کو پیش کیا۔ آخر میں صدر پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے تمام مقالوں کے چیدہ چیدہ نکات اور ان کا تجزیہ پیش کیا۔ نظامت ڈاکٹر صفیہ آفتاب نے کی۔
دوسرا علمی اجلاس پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی صدارت میں ہوا جس میں پہلی مقالہ نگار جولیا سرور نے نذیر قیصرکی نعت نگاری پر مقالہ پیش کیا۔ عائشہ ناز نے سلیم کوثر کی نعت گوئی پر مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر ذکیہ رانی نے ابوالخیرکشفی اور تنقیدِ نعت پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر محمد طاہر قریشی نے قصیدہ مدیح المرسلین کا متن پیش کیا۔ ڈاکٹر صدف فاطمہ نے نعت کا ادبی مقام بتاتے ہوئے نعت کو اہم صنف قرار دیا۔ جب کہ ڈاکٹر صفیہ آفتاب نے ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی نعت شناسی پر مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے تمام مقالہ نگاروں کی کاوشوں کو سراہا اور نئے مقالہ نگاروں کے لیے اسے تربیت گاہ قرار دیا۔ نظامت ڈاکٹر عظمیٰ حسن نے کی۔
تیسرے علمی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر عزیز احسن نے کی۔ شہنیلہ نازنین نے مولانا ظفر علی خان کی نعت نگاری،سدرہ اشرف نے امیر مینائی کی مثنویات میں نعتیہ عناصر، اور سید نجم الدین سہروردی نے سید ریاض الدین سہروردی کی نعت گوئی پر مقالہ پیش کیا، جب کہ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے نعت کی تاریخ اور متعدد نعت گو شعرا کے کلام کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے مقالہ نگاروں کے موضوعات کا تجزیہ کرتے ہوئے تنقید کی اہمیت پر روشنی ڈالی نظامت ڈاکٹر شمع افروز نے کی، جب کہ اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی نے کی۔ اظہارِ تشکر پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے پیش کیا۔ نظامت ڈاکٹر ذکیہ رانی نے کی۔
کانفرنس کے آخر میں معروف شاعر شاداب احسانی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا جس میں عزیز احسن،تنظیم الفردوس، رخسانہ صبا، کاشف عرفان، عظمیٰ حسن، شمع افروز، نجم الدین سہروردی، عیشا ناز، صدف اور دیگر شعرا شامل تھے۔

غزلیں

اشرف طالب

اٹھائے ہر گھڑی تلوار کوئی
بنا ہے راہ کی دیوار کوئی
تمنائوں کا ہے بیوپار کوئی
سجائے بیٹھا ہے بازار کوئی
کسی کے حسن کے چرچے بہت ہیں
چلو چل کر کریں دیدار کوئی
اُسے ڈھونڈوں کہا جو کھو گیا ہے
کہیں ملتے نہیں آثار کوئی
میں اْس کی راہ میں بیٹھا ہوں کب سے
کرے وہ پیار کا اظہار کوئی
تمہیں پھر اتنی فرصت ہی کہاں ہو
تمہارا ہو اگر گھر بار کوئی
کرو تیمارداری خوب اُس کی
ملے تم کو اگر بیمار کوئی
چھڑائوں کیسے اپنی جان اُس سے
بنا ہے پھر گلے کا ہار کوئی
وفا طالب نہیں کرتا کسی سے
بنے گا کیوں ترا غم خوار کوئی

گل افشاں

میں برا جس کو سمجھتی تھی وہ اچھا نکلا
میرا دشمن ہی مرا چاہنے والا نکلا
میری آنکھیں مری حیرت کی امانت نکلیں
میرا دشمن مرے ہونے کا تماشا نکلا
میں بہت خوش ہوں کہ مزدور کی اولاد ہوں میں
اور مزدور سے ہی پیار کا ناتا نکلا
رات بھی آئی تو دن ہی کی طرح سخت پڑی
چاند بھی نکلا تو سورج کے ہی جیسا نکلا
کتنی مشکل سے بنایا تھا وہ پردہ افشاںؔ
محوِ حیرت ہوں پسِ پردہ بھی پردہ نکلا

زاہد عباس

جو بھی ہماری بات سے ایدھر ادھر گیا
وہ خوب جانتا ہے کہ پھر اس کا سر گیا
میں نے تو اپنی بات کسی سے نہیں کہی
پھر دل کے زخم کون تر و تازہ کر گیا
میں سوچتا ہوں روز ستاروں کو دیکھ کر
تارہ مرے نصیب کا جانے کدھر گیا
یوں مڑ کے بار بار کسے دیکھتے ہو تم
وہ کارواں یہاں سے کبھی کا گزر گیا
مرضی سے اپنی زندگی میں کچھ نہ کر سکا
زاہدؔ جہاں کی رسموں تلے دب کے مر گیا

حصہ