اے خاکِ نشین کر فکر ذرا۔۔۔۔

333

شفا ہما
ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان طویل عرصے سے بھارتی سامراج کے انسانیت سوز مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے جسم کی پور پور زخموں سے چُور ہے اور ان کا بدن لہولہان ہے، لیکن ایمان اور اپنی آزادی کی حفاظت کے عزم اور جدوجہد میں انہوں نے کوئی کمی نہیں آنے دی۔
اس وقت کشمیر میں جو تحریک اپنے شباب پر ہے، وہ ایک طرف جہاں بھارتی ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈوں کی ناکامی کا ثبوت ہے تو دوسری طرف احتجاج اور قربانیوں کا یہ حال ہے کہ شہدا کے سروں کی فصل کاٹی جارہی ہے، مگر سرفروشوں کی فراوانی میں کمی نہیں۔ ہر گھر ماتم کدہ بن گیا ہے، مگر خون اور آنسو اس تحریک کے لیے مہمیز کا کام دے رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کا عَلم بلند کیے برسرِپیکار ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی حکومتوں کی ہولناک غلطیوں، کمزوریوں، قلابازیوں اور عالمی سطح پر سفارتی ناکامیوں نے پاکستان سے محبت، عقیدت اور یگانگت کے احساس کے ساتھ پاکستانی قیادت سے مایوسی اور بے اعتمادی میں اضافہ کیا ہے۔
جموں و کشمیر میں غیر مسلم آبادی کے باوجود 86 فیصد آبادی بھارت کے چنگل سے نکلنے کے لیے غیر معمولی عزم کا اظہار کرچکی ہے۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے منسلک رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، البتہ پاکستانی قوم کے لیے یہ لمحہ فکر ہے کہ کشمیری عوام پاکستانی قیادت اور پاکستانی پالیسیوں سے مایوسی کا اظہار کرچکے ہیں، لیکن پاکستانی قوم سے کشمیریوں کو اب بھی امید ہے۔ گو ان کی مایوسی لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے، لیکن اگر ہم اب بھی صحیح پالیسی اختیار کریں تو پاکستان سے رشتہ جوڑنا تو کشمیریوں کے دل کی آواز اور تاریخی آرزو ہے، البتہ بھارت سے آزادی ان کا وہ ہدف اور تاریخ کا وہ اشارہ ہے جو اب نوشتۂ دیوار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
بھارت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370، جو کشمیر کی امتیازی حیثیت کے بارے میں تھا، کا خاتمہ کرکے بزور تشدد کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی سازش کرنا، بھارتی فوج کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کرکے وادی کو جیل میں تبدیل کرنا، حریت رہنمائوں سید علی گیلانی و دیگر کے ساتھ ساتھ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ جیسے بھارت نواز رہنمائوں کی نظربندی، دیگر حریت قیادت کو محصور کرنا، یاسین ملک کی تہاڑ جیل میں بگڑتی ہوئی صورتِ حال، لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں میں تیزی، مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، کشمیر میں کرفیو کی صورت حال، اسپتالوں اور اسکولوں میں ایمرجنسی کے احکامات… یہ پوری صورتِ حال اس بات کا اعلان کرتی نظر آرہی ہے کہ کشمیر کے حالات تاریخی موڑ پر آگئے ہیں، تبدیلی دستک دے رہی ہے، کشمیری قوم نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگا چکی ہے اور واپسی کی کشتیاں جلا چکی ہے۔
اب فیصلہ پاکستان کی حکومت اور قوم کو کرنا ہوگا کہ تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر کیا کردار ادا کرنا ہے؟ جہاں تاریکی چھٹنے اور نئی صبح طلوع ہونے کے امکانات ہیں وہیں ابھی سازشوں اور سامراجی ہتھکنڈوں کے جاری رہنے کا بھی پورا امکان ہے۔ حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتری کی جانب جارہے ہیں۔ بھارت میں ایک ایسی حکومت ہے جو پاکستان دشمنی پہ ہی دوسری مرتبہ اقتدار کی راہداریوں میں پہنچی ہے تو اب بھلا یہ امید کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جنگ کے بجائے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پسند کرے گی؟ ان حالات میں ہمارے لیے کرنے کے کام واضح ہونے چاہئیں تاکہ ہم تاریخ کے اس دوراہے پر اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں اور لاعلمی میں تحریک ِآزادی کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانے کا سبب نہ بن جائیں۔
ہم میں سے ہر ایک زندگی کے جس شعبے میں ہے، اس شعبے میں رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا اپنا فرض سمجھ لے۔ دن کا کم از کم ایک گھنٹہ کشمیر کے لیے وقف کردیجیے۔ آپس میں مباحثہ کریں کہ ہم کیسے اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ نشاندہی کریں کہ کن فورمز پر کشمیر کے حوالے سے کچھ بھی لگاتے ہی بلاک ہوجاتا ہے۔ آپ ان فورمز سے ہٹ کر عالمی ویب سائٹس پر مضامین بھیجیں۔ عالمی اخبارات، رسائل، جرائد پر کشمیر کے حوالے سے خبروں، تبصروں، تجزیوں پر رائے دینا شروع کردیں۔ آپ تحقیق کریں کہ جو فورمز کشمیر کے حوالے سے بھارتی اجارہ داری کے زیر اثر ہیں ان کے متبادل کیا ہوسکتے ہیں۔ ان متبادل فورمز پر جائیں، اپنے غیر ملکی دوستوں کے ساتھ کشمیر کی صورتِ حال شیئر کریں۔ عالمی قوانین کے حوالے تلاش کریں اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو ان قوانین کے تحت دنیا کے سامنے لائیں۔ کشمیر کے حوالے سے حقائق بلاک کیے جائیں گے کیوں کہ عالمی فورمز پر سپر پاور کی اجارہ داری ہے جو بھارت کی پشت پناہ ہے، لیکن آپ متبادل تلاش کرنے پر زور دیجیے۔
اخبارات میں کالمز کی صورت میں لکھیں، مشہور ویب سائٹس پر بلاگ کی صورت میں لکھیں، ایڈیٹر کے نام خط کی صورت میں رائے دیں۔ کسی نہ کسی حوالے سے کشمیر کو وقت ضرور دیں۔ ہم میں سے ہر کوئی سرحدوں پر نہیں لڑ سکتا، لیکن ہم اگر تھوڑی سی کوشش کریں تو کشمیر کے مسئلے کے لیے اپنا محاذ خود بنا سکتے ہیں۔ کشمیر کو اس وقت آپ کی ضرورت ہے، یہ وقت کشمیر کو دیجیے، اور کشمیری بہن بھائیوں پر ہونے والے ہولناک مظالم کو دنیا کے سامنے اس طرح لائیے کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود دنیا بھارت کا اصل چہرہ دیکھ لے۔ کشمیر کے لیے خصوصی دعائوں کا اہتمام کیجیے اور اللہ سے مدد مانگیے۔
آج پاکستانی قوم جن اندرونی مسائل کا شکار ہے ان سے روشنی لیتے ہوئے ہمیں اپنی کشمیر پالیسی قومی یک جہتی کے ساتھ وضع کرنی چاہیے۔ امریکا کی مسلط کردہ دہشت گردی کی جنگ سے نجات، بھارت کے سلسلے میں اصول اور حق و انصاف پر مبنی رویّے اور جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی سے اپنے تعلق اور اس میں اپنے بھرپور کردار کی ادائیگی کی فکر احساسِ ذمے داری کے ساتھ کرنی چاہیے۔ مسلمان کا شیوہ زمانے کے رُخ پر چلنا اور مصائب و مشکلات کے آگے سپر ڈالنا نہیں، بلکہ مخالف لہروں سے لڑنا اور حالات کے رُخ کو موڑنا ہے۔

ملتِ احمدِ مرسل ہے ایک ذوقِ شہادت کی وارث
اس گھر نے ہمیشہ مردوں کو مقتل کے لیے تیار کیا

حصہ