ادبی تنظیم مکتب کے تعاون سے سپر کنگ کرکٹ کلب کا مشاعرہ

230

ڈاکٹر نثار احمد نثار
سپر کنگ کرکٹ کلب ایک معتبر تنظیم ہے جو کرکٹ کے علاوہ ادبی سرگرمیوں میں بھی مصروف عمل ہے اس کلب کے تحت ہر سال ادبی تنظیم مکتب کے تعاون سے ڈبل روڈ 36/B لانڈھی کراچی میں ایک شان دار مشاعرے کا اہتمام کیا جاتا ہے حسب روایت اس سال 27 اپریل بروز ہفتہ رات دس بجے یہ پروگرام ترتیب دیا گیا مشاعرے کے انتظامات قابل ستائش تھے جس کا سہرا معروف شاعر و صحافی اجمل سراج کے سر جاتا ہے جن کی سربراہی میں اشرف طالب‘ ارشد کیانی اور ان کی ٹیم نے بہت شان دار پنڈال سجایا جس میں معروف شعرا کے شاعروں پر مشتمل بینرز آویزاں تھے اور عشائیہ بھی بہت عمدہ تھا۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلام مجید سے ہوا جس کی سعادت ایان عطاری نے حاصل کی جب کہ سید اکرام الدین نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس مشاعرے کی صدارت راشد نور نے کی۔ عتیق احمد جیلانی (حیدرآباد) اور ظہور الاسلام جاوید (ابوظہبی) مہمانانِ خصوصی تھے۔ ہدایت سائر نے نظامت کے فرائض اس طرح انجام دیے کہ کہیں بھی مشاعرے کا ٹیمپو نہیں ٹوٹا نہ ہی تقدیم و تاخیر کے مسائل پیدا ہوئے انہوں نے اپنے جملوں سے مشاعرے کو گرمائے رکھا۔ سامعین نے بھی ہر شاعر کو توجہ سے سنا اور بھرپور داد دی۔ یہ مشاعرہ رات ڈیڑھ بجے ختم ہوا اس دوران ایک بھی سامع پنڈال سے نہیں گیا یہ بڑی خوش آئند بات ہے ورنہ آج کل مشاعروں میں سامعین کہاں آتے ہیں۔ جن شعرا نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا ان میں راشد نور‘ عتیق احمد جیلانی‘ ظہور الاسلام جاوید‘ سعید آغا‘ خالد معین‘ اجمل سراج‘ سحر تاب رومانی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ علاء الدین خانزادہ‘ سیمان نوید‘ عمران شمشاد‘ کامران نفیس‘ سانی سید‘ نجیب ایوبی‘ یاسمین یاس‘ گلِ افشاں‘ آئرن فرحت‘ سبیلہ انعام صدیقی‘ اشرف طالب‘ اسامہ امیر‘ زاہد عباس‘ ارشاد کیانی‘ ماہ نور خان زادہ‘ شیخ عباس‘ ہدایت سائر‘ عادل داد‘ محسن رضا اور شمیم قریشی شامل تھے۔ مشاعرے میں ناظم مشاعرہ نے سب سے پہلے پڑھا جو کہ مشاعرے کی روایت ہے جب کہ آج کل ناظم مشاعرہ خود ہی اپنے مقام کا تعین کر لیتا ہے اور جہاں چاہتا ہے اپنا کلام سناتا ہے اس روایت کو ختم کرنا ہوگا ہر ناظم کا فرض ہے کہ وہ اپنے کلام سے مشاعرے کا آغاز کرے۔ صدر مشاعرہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ مکتب کے زیر اہتمام آج بہت عمدہ محفلِ مشاعرہ سجائی گئی ہے بہت اچھے سامعین پنڈال میں تشریف فرما ہیں اور سماعتیں جوان ہیں انہوں نے مزید کہا کہ وہ صدارت سے دور بھاگتے ہیں لیکن اجمل سراج کا حکم ٹالنا میرے بس میں نہیں تھا‘ یہ جہاں بھی مجھے بلائیںگے میں حاضر ہو جائوں گا کیوں کہ یہ ایک قادرالکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کے پروموٹر بھی ہیں۔ ظہورالاسلام جاوید نے کہا کہ وہ آج کے مشاعرے سے بہت متاثر ہیں آج بہت اچھی شاعری سننے کو ملی تاہم سخن فہم سامعین نے مشاعرے کا حسن دوبالا کر دیا ہے اس قسم کے مشاعروں سے اردو زبان و ادب کا فروغ ہوتا ہے۔ انہوں نے مشاعرے کے منتظمین کو مبارک باد دی بالخصوص اجمل سراج کی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کیا اور ان کے حسنِ انتظام کو بھی سراہا۔ میزبانِ مشاعرہ اجمل سراج نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ لانڈھی‘ کورنگی میں ادبی پروگراموں کا حوالہ بہت پرانا ہے ایک وقت تھا کہ جب آسمانِ ادب کے درخشاں ماہتاب یہاں جگمگاتے تھے لیکن وقت و حالات کے باعث بہت سے اہم شعرا یہاں سے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اب لانڈھی کورنگی کی فضائوں میں شعر و ادب کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ 36-B لانڈھی کے رہائشی شعر و سخن کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے تمام شعرائے کرام کا شکریہ ادا کیا کہ وہ دور دراز علاقوں سے یہاں تشریف لائے اور ہماری محفل میں رونق افروز ہوئے۔

منیف اشعر تازہ کار شاعر ہیں‘ پروفیسر منظر ایوبی

منیف اشعر کی شاعری 50 برسوں پر محیط ہے‘ پاکستان سے باہر جن ممالک میں اردو بستیاں آباد ہیں کینیڈا بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں بہت سے پاکستانی شعرا اردو زبان و ادب کی آبیاری میں مصروف ہیں‘ منیف اشعر بھی وہاں کسبِ معاش کی سلسلے میں مقیم ہیں تاہم انہوں نے پاکستان کے علاوہ وہاں بھی اپنی شناخت بنائی ہے یہ وہاں کے صفِ اوّل کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ بہت تازہ کار شاعر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر منظر ایوبی نے بزمِ نگارشات پاکستان کے تحت منیف اشعر کے اعزاز میں ہونے والی تقریب پزیرائی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سہل ممتنع کے ماہر ہیں‘ ان کے میٹھے الفاظ کی شاعری دلوں میں اتر جاتی ہے۔ بزمِ نگارشات پاکستان کے زیر اہتمام اس پروگرام میں ڈاکٹر شاداب احسانی اور سعید الظفر صدیقی مہمانِ خصوصی تھے۔ مہمانانِ خصوصی میں فیروز ناطم خسرو اور جاوید منظر شامل تھے جب کہ واحد رازی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ساجدہ سلطانہ نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ سخاوت علی نادر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس کا لب و لباب یہ تھا کہ ان کی تنظیم اردود ادب کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے اور وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہر مہینے ادبی پروگرام منعقد کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ منیف اشعر جواں ہمت انسان ہیں انہوں نے بڑی محنت سے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنائی ہے ان کی زندگی ناہمواریوں سے عبارت ہے جس کا عکس ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ انہوں نے کسی محاذِ زیست پر ہار نہیں مانی‘ یہ مسلسل ترقی کر رہے ہیں‘ ان کی شاعری میں نکھار آرہا ہے امید ہے کہ یہ مزید عزت و شہرت کمائیں گے۔ صاحب اعزاز منیف اشعر نے کہا کہ وہ 1962 سے شعر کہہ رہے ہیں میرے والد اور بھائی بھی شاعر تھے میں نے ان سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ انہوں نے بزم فانوس بنائی جس کے تحت بے شمار پروگرام کیے‘ وہ 1991ء سے کینیڈا میں ہیں لیکن ان کا دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ ان کی شاعری کی 4 کتابوں پر مشتمل کلیاتِ منیف اشعر شائع ہو چکی ہے اس کلیات میں ان کی غزلوں کے جو مجموعے شامل ہیں ان کے نام ہیں تلخ و شیریں‘ رختِ زندگی‘ راہگزار غزل۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا۔ اس موقع پر بزم نگارشات پاکستان کی جانب سے منیف اشعر ملیح آبادی کی خدمت میں شیلڈ پیش کرنے کے علاوہ معزز مہمانوں کی خدمت گھڑی اور اجرک پیش کیں۔ مشاعرے میں جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں ہما اعظمی‘ وسیم احسن‘ ساجدہ سلطانہ‘ واحد رازی‘ کاشف علی ہاشمی‘ یاسر سعید صدیقی‘ تاج علی رانا‘ وقار زیدی‘ شاہد شہاب اور انیس احمد جعفری شامل تھے۔ شیخ کامران طالب نے نعت رسولؐ پیش کی۔ پروگرام KMC آفیسرز کلب کشمیر روڈ میں منعقد ہوا۔

کینیڈا میں ادبی تنظیم اظہار کے زیراہتمام رضوان صدیقی کے اعزاز میں تقریب

ممتاز شاعرہ ذکیہ غزل کی ادبی تنظیم کے زیر اہتمام پاکستان سے آئے ہوئے معروف افسانہ نگار اور اینکر رضوان صدیقی کے اعزاز میں ایک خوب صورت تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کی صدارت مقبول ادیب‘ نقاد اور شاعر ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کی جب کہ بھارت‘ امریکا اور کینیڈا سے تعلق رکھنے والے شعرائے کرام نے اپنے کلام پر سامعین سے بھرپور داد وصول کی۔ تقریب کی میزبان ذکیہ غزل نے اپنی گفتگو میں مہمان خصوصی رضوان صدیقی کی ادبی خدمات کا تفصیلی ذکر کیا اور کہا کہ رضوان صدیقی ایک ہمہ صفت شخصیت کے مالک ایک افسانہ نگار‘ اینکر پرسن‘ ادبی تقریبا کے منتظم‘ ڈراما نگار اور کمال کے نظامت کار ہیں۔ رضوان صدیقی نے اپنی گفتگو میں ادبی تنظیم ’’اظہار‘‘ اور ’’میزبان‘‘ ذکیہ غزل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ذکیہ اردو دنیا کی ایک مقبول شاعرہ ہیں جنہوں نے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں نہ صرف شرکت کی بلکہ پاکستان کی بھرپور نمائندگی بھی کی اور اب کینیڈا میں ادب کے فروغ کے لیے بے مثال اور متحرک کردار ادا کررہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی یہ ادبی محفل مختلف شہروں میں منعقد ہونے والے بڑے مشاعروں کے مقابلے میں معیار کے اعتبار سے کہیں زیادہ بہتر ہے انہوں نے توجہ مبذول کرائی کہ ادب صرف شاعری تک محدود نہیں بلکہ افسانہ‘ ناول‘ تنقید اور تحقیق بھی ادب کا حصہ ہیں ضروری ہے کہ ادبی محافل میں نثر نگاروں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس موقع پر رضوان صدیقی نے ایک افسانہ ’’انگلیاں نگار اپنی‘‘ نہایت مؤثر انداز میں پڑھ کر سنایا جس پر حاضرین نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ محفل مشاعرہ میں بھارت سے آئی ہوئی شاعرہ تسنیم جوہر‘ امریکا سے نزہت صدیقی اور رشید صدیقی کے علاوہ کینیڈا کے ممتاز شعرائے کرام انیس زبیری‘ فیصل عظیم‘ اسما وارثی‘ ناظم الدین مقبول‘ فرحت شجاعت‘ سلمان اطہر‘ قاسم جاسم‘ شگفتہ صدیقی‘ خواجہ مقبول‘ اسد نصیر اور بشارت نے اپنا کلام سنایا اور حاضرین سے بھرپور داد سمیٹی۔ تقریب کے آخر میں ڈاکٹر سید تقی عابدی نے علامہ اقبال کی زندگی کے آخری 50 گھنٹوں کے بارے میں سیرِ حاصل گفتگو اور ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادبی خدمات پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے فروغ کے لیے کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں کو اپنے بچوں کے ساتھ اردو میں بات کرنا چاہیے اور انہیں اردو لکھنے اور پڑھنے کی ترغیب دینا چاہیے۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی نے ادارہ ’’اظہار‘‘ کے منتظمین کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ذکیہ غزل کی کوششوں کو سراہا۔

کراچی پریس کلب میں ادبی تنظیم تخلیق کار کا مشاعرہ

۔28 اپریل بروز اتوار کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے تعاون سے ادبی تنظیم تخلیق کار نے کراچی پریس کلب میں باسط جلیلی اور مونا شہاب کے اعزاز میں مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت سعید الظفر صدیقی نے کی۔ حجاب عباسی نے نظامت کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ تخلیق کار کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور اپنے ممبران کا تعارف کرایا۔ پروگرام میں صاحبِ صدر‘ مہمانان خصوصی اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ جاوید صبا‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ علاء الدین خان زادہ‘ سیما غزل‘ یاسر سعید صدیقی‘ تزئین راز زیدی‘ حنا دل پزیر اور بہزاد برہم نے کلام پیش کیا۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ تخلیق کار کے پلیٹ فارم سے اکثر و بیشتر مشاعرے‘ تنقیدی نشستیں اور مذاکروں کا اہتمام ہوتا رہا ہے اور یہ تنظیم دیارِ غیر سے آنے والے شعرا کے لیے بھی پروگرام آرگنائز کرتی ہے آج کی تقریب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ باسط جلیلی اور مونا شہاب نے غزلیں سنانے سے قبل تخلیق کار کی عہدیداران و اراکین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا وطن ہے ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے کہ جب ہم یہاں ادبی سرگرمیاں دیکھتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کی ترقی کا سفر جاری ہے۔

غزل

زاہد عباس

سرکش ہوا سے لڑتے رہے رات بھر چراغ
تاریکیوں کے ہاتھ نہ آئے مگر چراغ
کل رات ساری رات اندھیرے میں کٹ گئی
ہم نے بجھا کے رکھ دیے جانے کدھر چراغ
لڑتا رہا جو تنہا اندھیروں سے عمر بھر
جلتے ہیں اُس کی قبر پہ شام و سحر چراغ
روشن کوئی مکان نہیں دور دور تک
ایسے میں کیا جلائے کوئی اپنے گھر چراغ
دن رات میرا کام ہوائوں کے ساتھ ہے
کیوں بن رہے ہیں پھر یہ مرے ہم سفر چراغ
پھر اس طرح کوئی کہاں شب خون مارتا
روشن ہمارے شہر میں ہوتے اگر چراغ
زاہدؔ یہاں سے کون چراغوں کو لے گیا
جلتے ضرور طاق پہ ہوتے اگر چراغ

حصہ