سودی معیشت کے معاشرتی اثرات

624

مسز بینا حسین خالدی ایڈووکیٹ
اسلام معاشی عدل و انصاف پر مبنی ایک ایسا فیاضانہ معاشرہ وجود میں لانا چاہتا ہے جس میں رہنے والے لوگ حقوق العباد کے ضمن میں انفاق فی سبیل اللہ کا حسبِ استطاعت التزام کرتے رہیں۔ والدین سے حسنِ سلوک اور نادار لوگوں کی حاجت روائی کریں، غربا و مساکین کو افلاس کی حالت میں نہ رہنے دیں، پڑوسیوں کی مشکلات و مصائب میں ان کے کام آئیں، اور بیماروں اور مصیبت زدہ لوگوں کی آگے بڑھ کر مدد کریں۔ معاشرے کے اہلِ خیر اور صاحبِ ثروت لوگ محروم اور غربت و استحصال کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کو خود تلاش کرکے اپنے مال میں اُن کا حق اُن تک پہنچائیں۔
اسی طرح اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ بے روزگاری کا خاتمہ کرے تاکہ طبقاتی نظام نیست و نابود ہو۔ عمومی طور پر تمام شہری یکساں بود و باش رکھیں، بیت المال کا نظام وسیع پیمانے پر قائم ہو، یتامیٰ، بیوگان اور بے روزگاروں کے وظائف مقرر ہوں۔ ہر شخص اپنی محنت اور قابلیت کے مطابق اپنا حصہ پائے، حکومتی مشنری معاشی جرائم کے خلاف سینہ سپر رہے، چوری، بددیانتی، خیانت، لوٹ کھسوٹ، ناجائز منافع خوری، سود، رشوت اور ملاوٹ پر سزائیں دی جائیں۔
قرآن حکیم میں انسان کی مال سے محبت کو متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے، جن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مال و زر کی محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ چنانچہ ایک جگہ انسانوں سے خطاب فرماتے ہوئے قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’تم مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہو۔‘‘ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’مال کی محبت انسان کے دل میں پلائی گئی ہے…‘‘ یعنی جس طرح زمین کو پانی پلایا جاتا ہے تو وہ زمین میں جذب ہوکر اس کا جزو بن جاتا ہے، اسی طرح مال کی محبت انسان کی جبلت کا حصہ بنا دی گئی ہے، جس کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ انسان اپنے مال کو اپنی ذاتی ملکیت میں رکھنا چاہتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے اور زیادہ دیر تک اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔ جس طرح کھانا پینا، سونا جاگنا، اپنی نسل کو آگے بڑھانا انسان کی فطرت میں ہے اسی طرح انسان مال کمانے کے لیے محنت کرتا ہے اور اپنے حاصل شدہ مال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے، یہ فطری خواہشات پر قدغن نہیں لگاتا، لیکن ان کو حدود و قیود کے دائرے میں رکھ کر صحیح سمت عطا فرماتا ہے۔ لہٰذا محنت کرکے روزی یا مال کمانے کو عبادت قرار دیا گیا ہے اور ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ کی حدیث مبارکہ ہمیں بتاتی ہے کہ اپنے اور اہل و عیال کے لیے محنت کرکے زندگی گزارنے کے وسائل و ذرائع حاصل کرنا، اور ان وسائل کو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے، اور محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔ مال کو خرچ کرنے میں بخل و اسراف سے پرہیز کی ہدایت کے ساتھ ساتھ شریعتِ الٰہیہ مال کو ملکیت بنانے اور جمع کرنے کے حوالے سے بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ اپنے اہل و عیال کی فلاح و بہبود، بڑھاپے میں بیماری، معذوری، کمزوری کی صورت میں دوسروں کا محتاج رہ جائے، یا موت کی صورت میں اپنے وارثان کو نادار و مفلس چھوڑ جانے کے بجائے یہ بہتر قرار دیا گیا ہے کہ اپنے پسماندگان کے لیے کچھ نہ کچھ جمع کرکے چھوڑا جائے۔ اس حوالے سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اہل و عیال کے لیے جمع کرنے کے بہانے ایک مال دار شخص اتنا بھی جمع کرنا نہ شروع کردے جو اس کی آنے والی سات نسلوں کی عیاشی کا سامان بن سکے، بلکہ شریعتِ اسلامی نے طے کیا ہے کہ کسی انسان کو تین بنیادی اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے، یہ تین چیزیں مہیا ہوجائیں تو پھر انسان کا کوئی حق نہیں رہ جاتا: رہائش گاہ جس میں اس کو سکون ملے۔ کپڑا جو اس کا تن ڈھانپے۔ روٹی، پانی جس سے زندگی کا رشتہ قائم ہو۔ زائد مال جو ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بچ رہے وہ حق داروں تک امین بن کر پہنچانا چاہیے۔
سیدنا حضرت علیؓ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مال داروں پر غریبوں کی کفالت فرض کردی ہے۔ اگر وہ بھوکے، ننگے اور کسی معاشی پریشانی میں رہے تو قیامت کے روز مال داروں سے سخت بازپرس ہوگی اور عذاب کی طرف دھکیلے جائیں گے۔‘‘
سورۃ النحل میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور (دیکھو) اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر بہ اعتبارِ روزی برتری دی ہے کہ کوئی زیادہ کماتا ہے تو کوئی کم… پس جن لوگوں کو رزق میں برتری حاصل ہے وہ اس حکم کے پابند ہیں کہ اس روزی میں سے اپنے زیرِ دست لوگوں کو دے دیا کریں، کیوں کہ وہ بھی اس میں برابر کے حق دار ہیں۔ یہ لوگ کیوں اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں، اور ایسا نہیں ہوتا کہ جس کو زیادہ روزی دی گئی ہے وہ اپنے زیر دستوں کو لوٹائے حالانکہ سب اس میں برابر کے حق دار ہیں۔ پھر کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں سے صریح منکر ہورہے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے معیشت کے جو اسباب زمین پر پیدا کیے ہیں یہ مخلوق کی حقیقی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے پیدا کیے ہیں، اگر کسی کے پاس خوش قسمتی سے دوسروں سے زیادہ مال و اسباب آگئے ہوں تو اصل میں یہ دوسروں کا حصہ تھا جو اس تک پہنچ گیا، لہٰذا اس زائد مال کو جمع کرنے کے بجائے اپنے گرد و پیش میں موجود اُن لوگوں تک پہنچانے کا حکم ہے جو سامانِِ زیست میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کے قابل نظر نہیں آتے، یا اسے حاصل کرنے میں ناکام رہ گئے ہیں، یا جنہوں نے اپنی ضرورت سے کم پایا ہے۔ اس لیے یہ سمجھا جائے گا کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا حصہ زائد مال کی صورت میں کسی دوسرے تک پہنچ گیا۔ اب اگر یہ زائد مال حق داروں تک پہنچانے کے بجائے مزید وسائلِ معیشت کمانے، قبضہ کرکے جمع کرنے میں استعمال کیا جائے گا تو نہ صرف یہ کہ حق دار محروم رہ جائیں گے بلکہ ایسا کرنے والا اللہ کی ملکیت میں ناجائز تصرف کرے گا۔
زائد از ضرورت وسائلِ معیشت کو مزید وسائل قبضے میں لانے کے لیے استعمال کرنے کی دو صورتیں ہیں:
-1ان وسائل کو سود پر قرض دیا جائے۔
-2 انہیں تجارتی و صنعتی کاموں میں لگا دیا جائے۔
یہ دونوں طریقے اپنی نوعیت میں ایک دوسرے سے کچھ مختلف ضرور ہیں لیکن دونوں کے مشترک عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی دو طبقوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، ایک وہ قلیل طبقہ جو اپنی ضرورت سے زیادہ وسائلِ معاش رکھتا ہے اور اپنے وسائل کو مزید وسائل کھینچنے کے لیے وقف کردیتا ہے۔ دوسرا وہ کثیر طبقہ جو اپنی ضرورت کے مطابق یا اس سے کم وسائل رکھتا ہے یا بالکل نہیں رکھتا۔ پھر ایک مالک بن جاتا ہے تو دوسرا اس کا غلام۔ ایک آجر بن جاتا ہے تو دوسرا اجیر۔ ایک مقرض (قرض دینے والا) بن جاتا ہے تو دوسرا مقروض۔ ایک مجبور بن جاتا ہے تو دوسرا اس کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے والا۔ اگر سرمایہ کاری کرکے کوئی صنعتی یونٹ کچھ لوگوں کو روزگار دیتا بھی ہے تو مزدور کی محنت کا استحصال برابر جاری رہتا ہے۔ اسی طرح سودی معاملے میں مقروض کی مجبوری مقرض کا نفع بن جاتی ہے، اور جو لوگ کسی حقیقی مجبوری کے بغیر بھی سود پر قرض لیتے ہیں وہ بھی بہرحال سودی معیشت کو سہارا دینے والے بن جاتے ہیں، نتیجتاً اوّل الذکر دونوں گروہوں کے مابین ایک طبقاتی کشمکش برپا ہوجاتی ہے اور معاشرے میں خلفشار اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ محنت کش اور مقروض انسانوں کی اکثریت تعلق باللہ معرفت اور علم کی روشنی سے محروم رہ جاتی ہے۔ شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بے چارے (محنت کش) ہر وقت محنت و مشقت اور خدمت گزاری میں لگے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی زندگیاں گدھوں اور بیلوں جیسی ہوجاتی ہیں اور انہیں اتنا وقت بھی نہیں ملتا کہ اپنے دنیوی یا ذاتی مفاد کے متعلق کچھ سوچ سکیں، اور اخروی سعادت کی طرف تو نظر اٹھانے کی ان کی بالکل ہمت نہیں رہتی، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ملک میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوتا کہ اس کو دین کی کوئی فکر ہو۔‘‘ (حجتہ البالغہ)
’’دنیاوی زندگی میں جن چیزوں کی انسان کو ضرورت اور احتیاج ہے اُن کو پورا کرنے کے سوا انسان حق بات کو بھی قبول نہیں کرتا، اس لیے ایسے امور کو پورا کرنا عبادت میں شامل ہے۔‘‘ (الجوامع)
سودی معیشت کے مہلک اثرات سے پوری دنیا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متاثر ہوتی ہے۔ جو لوگ سودی قرض کا لین دین نہیں کرتے اُن پر بھی سودی معیشت کا برا اثر اس طرح پڑتا ہے کہ مجموعی طور پر پورے معاشرے کے ایک کثیر طبقے کی قوتِ خرید کم ہوجاتی ہے یا بالکل ہی ختم ہوکر رہ جاتی ہے، کیوں کہ سودی و سرمایہ دارانہ نظام امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بناتا ہے۔ امیر آدمی کے کارخانوں کا تیار کردہ مال جب اپنے ملک میں آبادی کا ایک بڑا طبقہ خریدنے کے قابل نہیں رہتا تو وہ اپنی مصنوعات کو ملک سے باہر برآمد کرکے اپنا نقصان نفع میں بدل لینے کی طاقت رکھتا ہے، لیکن غریب و محروم طبقے کی قوتِ خرید اس حد تک کم ہوجاتی ہے کہ وہ کھانے پینے کی ضروری اشیا تک خریدنے کی سکت سے محروم ہوجاتا ہے، اور سرمایہ دار غذائی پیداوار بھی دوسرے ملکوں کو برآمد کردیتے ہیں۔ اس طرح ترقی پذیر ملکوں میں کروڑوں انسان مناسب غذا سے محروم ہیں حالانکہ دنیا میں کھانے پینے کے لیے کافی خوراک موجود ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تحقیق کے مطابق ’’آدھی سے زیادہ دنیا مطلوبہ خوراک حاصل نہیں کرسکتی، اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ قوتِ خرید نہیں ہوتی۔‘‘
یہ رپورٹ کیلی فورنیا میں کام کرنے والے خوراک اور ترقیاتی حکمت عملی انسٹی ٹیوٹ نے عالمی یومِ خوراک کے موقع پر شائع کی تھی جس کا عنوان ہے ’’عالمی بھوک کے متعلق غلط مفروضے‘‘۔ اس رپورٹ کے مطابق غذا سے محرومی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان ممالک میں لوگوں کے پاس خوراک حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ رقم موجود نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں بھوکے لوگوں کی موجودگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کے معاشی نظام غیر منصفانہ ہیں جس کے باعث تمام لوگ خوراک کے وسائل حاصل نہیں کرسکتے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ دنیا میں اس وقت جتنی غذا پیدا ہورہی ہے اگر وہ مصنوعی یا ظالمانہ رکاوٹ کے بغیر تمام انسانوں تک پہنچ جائے تو آج بھی تین سے چار پونڈ غذائی اشیا ہر آدمی کے حصے میں آسکتی ہیں، یہاں تک کہ بعض ترقی پذیر ممالک میں بھی خوراک کی پیداوار وہاں کے تمام باشندوں کے لیے کافی ہے، مگر ان باشندوں کا ایک بہت بڑا حصہ خوراک سے محروم ہے حالانکہ وافر مقدار میں خوراک موجود ہوتی ہے۔ جن ممالک کو بھوکے ممالک کہا جاتا ہے وہاں بھی اتنی خوراک موجود ہے کہ تمام باشندے اپنی ضروریات کے مطابق اسے حاصل کرسکتے ہیں، لیکن یہ خوراک منافع خوروں کے ہاتھوں دوسرے ملکوں کو برآمد کردی جاتی ہے۔ بھارت، میکسیکو اور فلپائن جیسے ممالک میں زرعی انقلاب کے باوجود وہاں کے لاکھوں باشندے بھوک سے مر رہے ہیں، یہاں تک کہ قحط زدہ علاقوں میں بھی جن لوگوں کے پاس قوتِ خرید ہے وہ خوراک خرید لیتے ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ