ستائیس دسمبر اور میڈیا کا رویہ

585

۔27 دسمبر 2007ء کو جو کچھ ہوا وہ دنیا کی کسی بھی بدتہذیب سے بدتہذیب اور جاہل سے جاہل ریاست میں نہ کبھی ہوا ہے نہ قیامت تک اس بات کا امکان ہے کہ ایسا ہوگا۔ بے نظیر کا ایک خودکش بمبار کے حملہ آور ہونے کے نتیجے میں مالکِ حقیقی سے جا ملنا بے شک ایک بہت بڑی درندگی اور المیہ تھا، لیکن اس کے ردعمل کے طور پر خیبر تا کراچی جو کچھ پورے تین دن تک ہوتا رہا، ایسا سب کچھ چشم فلک نے اپنی پوری تاریخ میں نہیں دیکھا ہوگا۔ پورے پاکستان کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا اور کھرب ہا کھرب مالیت کی گاڑیاں، ٹرک، ٹرالر، ریل گاڑیاں، ریلوے اسٹیشن اور سرکاری املاک کو خاکستر کردیا گیا۔ خواتین اور بچیوں کو اغوا کیا گیا، ان کے ساتھ زیادتی کی گئی، مردوں کو مارا گیا، بازاروں میں آگ لگادی گئی اور وہ وہ کچھ شرمناک حرکتیں کی گئیں جن کا تصور وحشی سے وحشی معاشرے میں بھی ممکن نہیں۔
کہنے کو تو ہمارا ملک ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کہلاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ اس میں رہنے والے افراد کے سینوں میں بھی نہ تو اسلام نام کی کوئی شے ہے اور نہ ہی وہ دل جو اسلام کی تعلیمات کا حامل ہو۔ صبر و تحمل، برداشت اور رواداری کی جو تعلیم اسلام دیتا ہے وہ جملہ پاکستانیوں کے پاس ذرّہ برابر بھی نہیں۔ ممکن ہے یہ بات بہت سارے اُن مسلمانوں کو بری لگے جن کو اس بات کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات سے سرشار ہیں اور ان کے اندر پورا کا پورا اسلام اور سیرتِ نبیؐ و نمونۂ صحابہ کرامؓ حلول کرچکا ہے، لیکن میں دعوے سے کہتا ہوں جس جذبے کو وہ اپنے رگ و پے میں حلول سمجھتے ہیں وہ اتنا ہی اسلام ہے جتنے کے وہ قائل ہیں، یا اپنے تئیں جس کو وہ اسلام سمجھ بیٹھے ہیں۔ ان کا اسلام ان کی انا اور ان کی تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا عالم یہ ہے کہ وہ مسجدوں، گلیوں، بازاروں، چوکوں اور چوراہوں پر ہر اُس مسلمان یا گروہ کو کافر قرار دے رہے ہوتے ہیں جو ’’ان کے‘‘ اسلام سے باہر ہوتے ہیں۔
ایک تو عالم یہ ہے کہ ’شہادت‘ اتنی عام ہوچکی ہے کہ اگر کوئی بھنگی، چرسی، شرابی، زانی، جواری، چور، ڈاکو یا قاتل بھی مارا جائے تو وہ شہادت کے درجے پر فائز کردیا جاتا ہے۔ ملک کے خزانوں پر کنڈلی مار کر بیٹھنے والا، زمینوں پر زمینیں ہضم کرنے والا، غریب اور لاچار انسانوں کی جائدادوں پر قبضہ کرنے والا، پاکستان اور پاکستان سے باہر جائدادوں پر جائدادیں بنانے والا، قوم کی بہو بیٹیوں اور بیٹوں کا سودا کرنے والا، انسانوں پر کتے چھوڑ دینے والا، خواتین، بچوں اور بچیوں کی عزتوں کو تار تار کرنے والا، ان کی بے شرمیوں بھری ویڈیوز اور تصاویر اتارکر دنیا بھر کے ننگے چینلوں اور ویب سائٹس کے ہاتھوں فروخت کرکے زنائی دولت کمانے والا، پورے پورے گاؤں میں خواتین کو الف ننگا کرکے پھرانے والا اور رات رات بھر مجرے کرانے والا بھی اگر کسی حادثے میں کیا، کسی مقابلے میں ہلاک ہوجائے تو اس کی قبر پر ’’شہید‘‘ کا کتبہ نصب کردیا جاتا ہے۔ ایسے عالم میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی لیڈر یا لیڈرانی اس سند اور اعزاز سے محروم سمجھی جائے!
جب لوگوں کی عقل و سمجھ اس مقام پر آجاتی ہے تو بے نظیر کا ’شہید‘ ہوجانا کسی کے لیے بھی حیرت کی بات نہیں ہوتی۔ جن لوگوں نے بے نظیر زرداری کی رحلت سے ایک لمحے قبل تک کے مناظر ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھے ہوں، انھوں نے بہت اچھی طرح اس بات کو نوٹ کیا ہوگا کہ بے نظیر کا سر بلٹ پروف گاڑی سے باہر نکلا، مجمع سے ایک ہاتھ ابھرا، ایک فائر کی آواز آئی اور بے نظیر گاڑی میں واپس جا گریں۔ ٹھیک اسی لمحے ایک زوردار دھماکا ہوا اور منظر خون میں نہا گیا۔ کیا کبھی میڈیا نے اس بات پر بھی تبصرہ کیا کہ جن لوگوں، اداروں یا گروہوں کی یہ خواہش تھی کہ بے نظیر کو عوامی لیڈر کے طور پر نہیں ابھرنا چاہیے وہ کام تو اس دھماکے سے کہیں قبل ہوچکا تھا، اور بے نظیر تو بلٹ پروف گاڑی میں گری اپنی آخری سانسیں ہی لے رہی تھیں، اور گاڑی میں موجود صفدر عباسی اور ان کی اہلیہ ناہید عباسی بے نظیر کی آخری سانسیں گن رہے تھے، تو پھر کسی مزید دھماکے کی کیا ضرورت تھی؟ جس طرح اسی لیاقت باغ میں نواب زادہ لیاقت علی خان کو گولی مارنے کے بعد اُن کے قاتل کو مار کر کیس کی فائل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا گیا تھا، بعینہٖ وہی منصوبہ بندی یہاں نظر آئی۔ جونہی وہ پراسرار ہاتھ گولی چلانے اور بے نظیر کو مارنے میں کامیاب ہوا، ایک زوردار دھماکے نے سارا ماحول دھویں سے ڈھاپ لیا۔ جب فضا صاف ہوئی تو نہ خودکش بچا، نہ وہ قاتل جس کی گولی سے بے نظیر اپنی جان سے گئیں۔ فرق اُس واقعے میں جس میں لیاقت علی خان شہید ہوئے اور اِس واقعے میں جس میں محترمہ کو شہادت کی سند عطا ہوئی، اندر اور باہر کا ہے۔ ایک لیاقت باغ میں سینے پر گولی کھاکر اور یہ کہتا ہوا شہید ہوا کہ اللہ پاکستان کا حافظ و ناصر ہو، اور لیاقت باغ ہی میں گرا۔ دوسرا لیاقت باغ کے باہر پشت کی جانب سے، پیشانی پر نہیں سر کے پچھلی طرف گولی کھاکر باہر نہیں گاڑی کے اندر گرا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خودکش بمبار کا مقصد دہشت ہی پھیلانا تھا تو جلسہ گاہ سے زیادہ موزوں جگہ کون سی ہوسکتی تھی؟ سیکڑوں افراد مرتے اور نہ جانے کتنے زخمی ہوتے، جیسا کہ بے نظیر کے ساتھ کراچی میں کارساز کے مقام پر ہوا تھا۔ گویا ہدف دہشت پھیلانا نہیں، بے نظیر کو مار کر پورے ملک کو آتش فشاں بنانا تھا جس میں وہ لاکھوں کروڑوں فیصد سے بھی زیادہ کامیاب ہوئے۔
ظلم پر ظلم دیکھیے، وہ دو افراد جو ہر ہر بات سے روزِ روشن سے بھی زیادہ واقف تھے، اُن کو آج تک عدالت طلب کرکے یا پولیس کی تحویل میں دے کر حقیقتِ حال جاننے کے لیے نہیں بلایا گیا کہ بے نظیر کیوں بلٹ پروف گاڑی سے سر باہر نکالنے پر مجبور ہوئیں؟ کس کے کہنے پر ایسا کیا؟ اور پھر وہ کس ہتھیار کا نشانہ بنیں؟ اس کے برعکس پی پی پی مخالف تحریک کے طور پر وہ تاحال سرگرم عمل ہیں، لیکن کس کے خلاف ہیں اور کس بنیاد پر ہیں؟ اس کا جواب آج تک قوم کو نہیں دیا گیا۔ اگر بے نظیر کی موت میں پی پی پی کی قیادت یا پی پی پی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تو ان کے پی پی پی مخالف بیانات کس کے خلاف ہیں اور کیوں ہیں؟
اس میں کسی کو اختلاف ہونا چاہیے اور نہ ہی کوئی شک کہ بے نظیر کی بے وقت دنیا سے رخصتی ایک بہت بڑا قومی المیہ ہے، لیکن جو کچھ ردعمل کے طور پر سامنے آیا اور جس بے دردی کے ساتھ پورے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، کیا یہ اس سانحے سے ہزاروں گنا بڑا المیہ نہیں؟ خیبر سے کراچی تک جو کچھ بھی ہوا وہ صرف اور صرف ایک سیاسی پارٹی کے کارکنوں کے علاوہ بھی کسی اور کے ہاتھ سے ہوا؟ کیا جہاں جہاں بھی ایسا ہوا وہ پاکستان نہیں تھا؟ ذاتی ہوں یا سرکاری املاک، کیا وہ پاکستانیوں یا پاکستان کی نہیں تھیں؟ کیا مارے جانے والے افراد کسی کافر ملک کے تھے؟ کیا جن خواتین اور بچیوں کو اغوا کیا گیا، جن کو بے لباس کیا گیا، جن کی عصمت دری کی گئی وہ سب غیر پاکستانی اور کافرائیں تھیں؟ جس بے رحمی کے ساتھ پورے پاکستان کو تین دن تک برباد کیا گیا، وہ سب ہندوستان کی کارستانی اور را کے ایجنٹوں کی شیطانیت تھی؟ پاکستان کی معیشت کی دھجیاں جس بے دردی کے ساتھ بکھیر کر رکھ دی گئیں، کیا وہ روس، امریکا، بھارت یا یہودیوں کے ہاتھوں ہوا؟ کیا وہ افراد جن کا جانی اور مالی نقصان ہوا وہ سارے کے سارے بے نظیر کی جان لینے میں شریک تھے؟
یہ سب المیہ اپنی جگہ خود بے شک ’’بے نظیر‘‘ ہے، لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی ساری عسکری اور انتظامی قوتیں تین دن تک سکتے کی حالت میں رہیں اور تمام تر اختیار و قدرت کے باوجود بے بسی کی تصویر بنی رہیں، اور اپنے اپنے مورچوں (بیرکوں) سے باہر نکلنے کی جرأت تک نہ کرسکیں۔ جو قوت سیالکوٹ کے مقام پر دشمن کے مدمقابل ہوکر اُس کے ٹینکوں کو کچرے کا ڈھیر بناکر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتی ہو وہ ان تمام ملک دشمنوں، اسلام دشمنوں اور انسانیت دشمنوں کے سامنے ریت کی دیوار بن کر رہ جائے، ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ حکومت بھی کسی سویلین کی نہیں تھی کہ ایمرجنسی کے لیے کسی لمبے چوڑے مرحلے سے گزرا جاتا، یا اس کا بہانہ بنایا جاتا۔ اگر اس کے باوجود بھی پورے پاکستان میں تین دن تک پوری آزادی کے ساتھ آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا تو اس کی کلاہ سسکیوں اور آنسوؤں سے تربتر کس کے سر پر پہنائی جائے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب چاہنے والا یا تو لاپتا کردیا جاتا ہے یا کسی گلی کوچے میں خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔
مذاق تو یہ بھی ہے کہ وہ سارے محکمے اور ادارے جو وقتی طور پر “شل” بھی ہو گئے ہوں تو ان سے آج تک کوئی یہ پوچھنے کیلئے تیار نہیں کہ حالات کے معمول پر آجانے کے بعد اس واحدپا رٹی، ہنگامہ کرنے والوں اور ملک میں ہر قسم کے سنگین ترین کاموں کو سر انجام دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں کیوں نہیں آئی؟۔ اس پارٹی پر بین کیوں نہیں لگا اور اسی کے ایک خود ساختہ قابض سر براہ کو ملک کا صدر کیوں بنانا دیا گیا؟۔ ملک کی عملاً اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد افواج پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا آج بھی پورے پاکستان میں افواج پاکستان کی ناک کے نیچے دندنا تا پھر رہاہے ہیں لیکن سب کو اسی طرح سانپ سونگھا ہوا ہے جس طرح آج سے ٹھیک گیارہ برس قبل سونگھا ہوا تھا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات شاید ہی ہماری زندگی میں کبھی مل سکیں لیکن تاریخ نہ تو ان کو بھلائے گی اور نہ کبھی معاف نہیں کریگی۔

حصہ