ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن کمالات سے مشرف فرمایا تھا، وہ بلاشبہ بے مثال و بے نظیر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہانوں کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ آپؐ وہ آفتاب ہیں جس کی تابانیوں سے صرف عالمِ رنگ و بو ہی روشن نہیں بلکہ جہانِ لطیف بھی درخشاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ہر لمحہ ہر قسم کے تکلف اور تصنع سے مبرا تھا۔ نشست و برخواست، آمد و رفت، لباس سادگی کی تصویر تھے۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو نظر ڈالتا وہ آپؐ کے وقار اور تمکنت سے بے خود ہوجاتا۔ ابن سعد اور ابن جریر حضرت قیلہؓ بنتِ مخرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب میں نے اللہ کے رسولؐ کو خضوع و خشوع، وقار اور تمکنت کے ساتھ بیٹھے دیکھا تو میں خوف سے کانپنے لگی۔ ایک صحابیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسکینہ پر تو لرزہ طاری ہوگیا ہے۔‘‘ میں اس وقت آپؐ کی پشت کے پیچھے بیٹھی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھے بغیر فرمایا ’’اے اللہ کی مسکین بندی! اطمینان و سکون کو لازم رکھو‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماتے ہی سارا خوف اور ہیبت میرے دل سے دور ہوگئی۔ یزیدؓ بن اسود روایت کرتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں حجۃ الوداع کی سعادت حاصل کی۔
امام دائود اور امام ابن ماجہ حضرت ابومسعود انصاریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے گفتگو فرمائی، وہ مرعوب ہوکر کانپنے لگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ’’مت خوف زدہ ہو، میں بادشاہ نہیں ہوں، میں تو قریش کی خاتون کا بیٹا ہوں جو دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت کھاتی تھی۔‘‘ ابن عدی حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ہم بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوتے تو اس طرح بے حس و حرکت ہوکر بیٹھتے جیسے ہمارے سروں پر کوئی پرندہ بیٹھا ہے کہ اگر ہم نے ہلکی سی حرکت کی تو وہ اُڑ جائے گا۔ ہم میں سے کسی کو یارائے تکلم نہ ہوتا تھا بلکہ ہم سر جھکائے ساکت و صامت بیٹھے رہتے۔ البتہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ گفتگو فرماتے تھے۔
امام ترمذی نے شمائل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حوالے سے لکھا ہے ’’جو سرورِ عالم کو اچانک دیکھتا وہ خوف زدہ ہوجاتا، اور جو پہچان کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے میل جول کرتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ ہوجاتا۔‘‘ حضرت عمروؓ بن العاص کے بارے میں صحیح مسلم نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے ’’ایک روز آپؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھے کوئی اور محبوب نہ تھا اور نہ میری نگاہوں میں آپؐ سے بڑھ کر کسی کا رتبہ تھا۔ میری مجال نہ تھی کہ میں آنکھیں بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکوں، مگر کوئی شخص مجھ سے آپؐ کا حلیہ بیان کرنے کے لیے کہے تو میں قاصر ہوں گا کیونکہ میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بھر کر دیکھنے کی جرأت ہی نہیں کی۔‘‘ حضرت ابن بریدہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جب ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد حلقہ بناکر بیٹھتے تھے تو نبوت کی عظمت و احترام کے باعث ہمیں یہ جرأت نہ ہوتی کہ ہم سر اونچا کرکے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکیں۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے چہرے پر ایسی تمکنت، وقار اور ہیبت و جلال کا القا کیا تھا کہ کوئی نظر بھر کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔‘‘
اُم معبدؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپے کی تصویر ان الفاظ میں کھینچتی ہیں: ’’حضورؐ اگر سکوت فرماتے تو رُخِ انور پر وقار ہوتا، اگر گفتگو فرماتے تو چہرۂ اقدس پر ایک روشنی ہوتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے رفقا تھے جو آپؐ کے اردگرد حلقہ بنائے رکھتے، اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گویا ہوتے تو وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سننے کے لیے خاموش ہوجاتے، اور جب کوئی حکم فرماتے تو تعمیل ِ ارشاد کے لیے سب دوڑ پڑتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام صحابہؓ کے مخدوم بھی تھے اور سب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد حلقہ بنائے رہتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ درشت رو تھے اور نہ زیادتی کرنے والے تھے۔‘‘
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں میں پیارے رسولؐ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
نعتِ رسولِ مقبولؐ
ڈاکٹر عزیزہ انجم