ممتا

289

کرشن چندر
یہ کوئی دو بجے کا وقت تھا، بادلوں کا ایک ہلکا سا غلاف چاند کو چھپائے ہوئے تھا۔ یکایک میری آنکھ کھل گئی، کیا دیکھتا ہوں کہ ساتھ والی چارپائی پر اماں سسکیاں لے رہی ہیں۔
’’کیوں اماں؟‘‘ میں نے گھبرا کر آنکھیں مَلتے مَلتے پوچھا۔
’’کیوں…؟ اماں‘‘ اماں نے سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان میرے سوال کو غصے سے دہراتے ہوئے کہا ’’شرم نہیں آتی، باپ کو بھی اور بیٹے کو بھی! اتنے بڑے ہوگئے ہو، کچھ خدا کا خوف نہیں!‘‘
’’آخر ہوا کیا؟‘‘ میں نے جلدی سے بات کاٹ کر پوچھا۔ ’’یہ آدھی رات کے وقت رونا کیسا؟‘‘
گرمیوں کے دن تھے، ہم سب برآمدے میں سو رہے تھے، مگر ابا اندر سامنے ایک کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔ ان کی طبیعت ناساز تھی اور انہیں اکثر گرمیوں میں بھی سردی لگ جانے کا اندیشہ لاحق رہتا تھا، اس لیے عموماً وہ اندر ہی سویا کرتے تھے۔
آخر ان کی آنکھ بھی کھل گئی۔ وہیں بستر پر سے کروٹ بدل کر بولے ’’کیا بات ہے وحید؟ تمہاری اماں کیوں رو رہی ہے؟‘‘
’’میں کیا بتائوں ابا؟ بس رو رہی ہیں۔‘‘
’’ہاں، اور تمہیں کس بات کی فکر ہے!‘‘ اماں کی ہچکیاں اور تیز ہوگئیں۔ ’’پتا نہیں میرا لال اس وقت کس حالت میں ہے، میرا چھوٹا محمود۔ اور تم یہاں پڑے سورہے ہو، وہاں اُس کا کون ہے؟ نہ ماں، نہ بھائی، نہ بہن… اور تم خراٹے لے رہے ہو آرام سے، جیسے تمہیں کسی بات کی فکر ہی نہیں۔‘‘ (سسکتے ہوئے) ’’میں نے ابھی ابھی اپنے چھوٹے محمود کو خواب میں دیکھا ہے۔
وہ ایک میلے کچیلے بستر میں پڑا بخار سے تپ رہا تھا۔ اس کا پنڈا تنور کی طرح گرم تھا، وہ کراہتے ہوئے اماں اماں کہہ رہا تھا‘‘۔ یہ کہہ کر اماں زور زور سے رونے لگیں۔
اماں کا ’’چھوٹا محمود‘‘ اور میرا بڑا بھائی لاہور میں بی اے میں تعلیم پاتا تھا۔ تھرڈ ائر میں ایف اے کا امتحان دے کر لاہور سے یہاں مئی کے مہینے میں آگیا تھا، مگر محمود کو ابھی لاہور کی تپتی ہوئی فضائوں میں پورا ایک مہینہ اور گزارنا تھا، لیکن اب جون کا مہینہ بھی گزر گیا تھا اور محمود ابھی تک لاہور سے واپس نہ آیا تھا۔
اماں بہت پریشان تھیں، اور سچ پوچھیے تو ہم سب بہت پریشان تھے۔ ہم نے اسے پرسوں ایک تار بھی دے دیا تھا اور مدتوں بعد اچانک محمود کا ایک خط بھی آیا تھا۔ چند مخفی سطور تھیں، لکھا تھا ’’میں بیمار ہوں، ملیریا کا بخار ہے، لیکن اب ٹوٹ رہا ہے۔ چند دنوں سے یہاں بہت بارش ہورہی ہے۔ اگر لاہور کا یہ حال ہے تو اسلام آباد میں کیا ہوگا! کیا کشمیر آنے کا راستہ کھل گیا؟ جلدی لکھیے کہ کس راستے سے آئوں؟ کیا جموں بانہال روڈ سے آئوں… یا کوہالہ اوڑی سڑک سے؟ کون سا راستہ بہتر رہے گا؟‘‘ ہم نے سوچ بچار کے بعد ایک تار اور دے دیا تھا۔ گو بارش بہت ہورہی تھی اور سڑکیں شکستہ حالت میں تھیں، پھر بھی کوہالہ اوڑی روڈ، بانہال روڈ سے بہتر حالت میں تھا، اس لیے یہی مناسب سمجھا کہ محمود کوہالہ روڈ سے ہی آئے۔ اب آدھی رات کے وقت یہ افتاد آپڑی۔
ابا کی نیند پریشان ہوگئی تھی، بولے ’’تو اس کا کیا کیا جائے؟ اور تمہیں تو یونہی دل میں وسوسے اٹھا کرتے ہیں۔ بھلا اس کا علاج کیا؟ آخر محمود کوئی بچہ تو نہیں، تمہیں فکر کس بات کی ہے؟ ہزاروں مائوں کے لال لاہور میں پڑھتے ہیں اور ہوسٹلوں میں رہتے ہیں۔ آتا ہی ہوگا، اگر آج صبح وہ لاہور سے چلا تو شام کو وہ راولپنڈی پہنچ گیا ہوگا، کل کوہالہ اور…‘‘ اماں جلدی سے بولیں ’’اور… اور؟ کیا غضب کرتے ہو، اور اگر خدا نہ کرے اس کا بخار ابھی نہ ٹوٹا ہو تو پھر؟ میں پوچھتی ہوں تو پھر؟‘‘ یہ کہہ کر اماں رک گئیں اور دوپٹے سے آنسو پونچھ کر کہنے لگیں ’’مجھے موٹر منگوا دو، میں ابھی لاہور جائوں گی۔‘‘
’’اب تم سے کون بحث کرے، ہمیں تو نیند آرہی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر ابا کروٹ بدل کر سورہے۔ میں نے بھی یہی مناسب جان کر آنکھیں بند کرلیں۔ مگر کانوں میں ماں کی مدہم سسکیوں کی آواز جسے وہ دبانے کی بہت کوشش کررہی تھیں، برابر آرہی تھی۔
کیا دل ہے ماں کا اور کتنی عجیب ہستی ہے اس کی؟ میں آنکھیں بند کیے سوچنے لگا۔ ماں کا دل، ماں کی محبت، مامتا… کس قدر عجیب جذبہ ہے۔ عالمِ جذبات میں اس کی نظیر ملنا محال ہے۔ نہیں، یہ تو اپنی نظیر آپ ہے۔
ایک سپنے کے دھندلکے میں اپنے بیمار بیٹے کو دیکھتی ہے اور چونک پڑتی ہے، لرز جاتی ہے۔ مامتا… کیا اس جذبے کا احساس محض جسمانی ہے؟ محض اس لیے کہ بیٹا ماں کے گوشت و پوست کا ایک ٹکڑا ہے؟ اور کیا ہم سچ مچ فلابیر کے تخیل کے مطابق اس کائنات میں اکیلے ہیں، تنہا، بے یارومددگار، ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے ناآشنا؟ مگر میں بھی تو محمود کا بھائی ہوں۔
میری رگوں میں بھی وہی خون موجزن ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کے ان بیس برسوں میں صرف دو دفعہ محمود سے جدا ہوا ہوں اور وہ بھی نہایت قلیل عرصے کے لیے، پَر میں اس قدر اُس کے لیے بے تاب و بے قرار نہیں۔
کیا ہم سچ مچ پتھروں کے تودوں کی طرح ہیں، مصر کے میناروں کی طرح خوب صورت لیکن بے جان، اشوک کے کتبوں کی طرح سبق آموز لیکن بے حس، بے روح! بدھ نے کہا تھا کہ یہ دنیا دھوکا، سراب ہے، مایا ہے۔ ہوگی… لیکن یقین نہیں پڑتا، آخر یہ حسین جذبہ کہاں سے آیا؟ اور کائنات کے ایک گوشے میں سسکتی ہوئی ماں، کیا یہ بھی ایک دھوکا ہے؟ سچ جانیے یقین نہیں پڑتا ہے۔
’’چھوٹا محمود، میرا ننھا محمود… میرا لال۔‘‘
اماں ہلکی ہچکیوں میں بھائی کا نام لے رہی تھیں۔ کتنی معمولی سی بات تھی۔ بھائی جان شاید ابھی لاہور ہی میں ہوں گے۔ ضیافتیں اڑاتے ہوں گے، سنیما دیکھتے ہوں گے، یا اگر لاہور سے چلے آئے ہوں تو راولپنڈی میں اس وقت خوابِ خرگوش میں پڑے خراٹے لے رہے ہوں گے۔
ملیریا… کیا عجب ملیریا کا بخار مطلق ہی نہ ہو۔ میں بھائی جان کے بہانوں کو خوب جانتا ہوں، اماں بھی جانتی ہیں، مگر پھر بھی رو رہی ہیں… آخر کیوں؟
شاید یہ کوئی روحانی قرابت ہے، شاید اس انسانی مٹی میں کسی ازلی آگ کے شعلوں کی تڑپ ہے۔ معاً مجھے موپاساں کا افسانہ ’’تن تنہا‘‘ یاد آگیا جس میں اُس نے اس شدید احساسِ تنہائی کا رونا رویا ہے۔
آہ بے چارہ موپاساں۔ وہ ایک ماہرِ نفسیات تھا، اور ایک ماہر نفسیات کی طرح وہ کئی بار نفسیاتی واردات کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر رہا۔ اس کے افکار نے اسے غلط راستے پر ڈال دیا۔
’’تنِ تنہا‘‘ ایک ایسی ہی مثال ہے۔ وہ لکھتا ہے: عورت ایک سراب ہے اور حسن ایک فروعی مرہم۔ ایک دوسرے کے متعلق کچھ نہیں جانتے، میاں بیوی سالہا سال ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں۔ دو دوست ملتے ہیں اور ہر دوسری ملاقات میں ایک دوسرے سے دور چلے جا رہے ہیں۔ نسوانی محبت مستقل دھوکا ہے، اور جب میں عورت کو دیکھتا ہوں تو مجھے چاروں طرف موت ہی موت نظر آتی ہے۔
میں نے آنکھیں کھول کر اماں کی طرف دیکھا، وہ روتے روتے سوگئی تھیں، ان کے گال آنسوئوں سے گیلے تھے اور بند آنکھوں کی پلکوں پر آنسو چمک رہے تھے۔ کیا محبت موت ہے؟ اور کیا مامتا بھی کوئی ایسا ہی ہلاکت آفریں جذبہ ہے؟ شاید موپاساں غلطی پر تھا، شاید اسے یہ لکھتے وقت اپنی شفیق ماں کی یاد نہ آئی تھی۔ وہ اس کی جاں بخش لوریاں، وہ نرم نرم تھپکیاں جبکہ وہ بچوں کی طرح صرف ’’اوں… اوں‘‘ کہہ کر بلبلا اٹھتا تھا اور اس کی چھاتی سے لپٹ جاتا تھا… نسوانی محبت مستقل دھوکا ہے… شاید اسے اپنی اماں کے وہ طویل بوسے بھول گئے کہ جب بڑا ہونے پر اس کا سر اپنے بازوئوں میں لے لیتی تھی اور پیارکرتی تھی جب وہ مامتا سے بے قرار ہوجاتی تھی، اور اس کی غیر حاضری میں بھی اس کی راہ دیکھا کرتی تھی، اس کی ہر غلطی کو بچوں کی بھول سے تعبیر کیا کرتی تھی اور گناہ کو نیکی میں مبدل کردیتی تھی۔ اس دنیا میں ہم اکیلے نہیں ہیں، بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں۔ وہ اس شدید احساسِ تنہائی جس کی موپاساں کو شکایت ہے، جو دنیاوی کلفتوں اور الفتوں میں بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا، نہ جانے وہ ماں کی گود میں آکر کیسے ناپید ہوجاتا ہے؟
ماں کے جذبۂ محبت میں ایک ایسی دیوانگی و وارفتگی ہے جو اس کی انانیت کو فنا کردیتی ہے، اور اس کی ذات کو بچوں میں منتقل کردیتی ہے۔ یقینا ہم اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں… یقینا … مگر…
غٹرغوں، غٹرغوں، ککڑوں کوں۔ کبوتر، مرغ، چڑیاں دوشیزۂ سحر کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ان کی خوش الحانی نے مجھے بیدار کردیا۔ میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ ٹانگیں چارپائی سے نیچے لٹکا دیں اور آنکھیں مَلنے لگا۔ اتنے میں آنگن سے اماں کی آواز آئی ’’بیٹا وحید اٹھو، محمود آگئے۔‘‘
آنکھیں کھول کر دیکھا تو سچ مچ… اماں آنگن میں اُگے ہوئے پنجتار کے بوٹے کے نیچے ایک مونڈے پر بیٹھی تھیں اور محمود ان کے پیروں پر جھکا ہوا تھا۔ میں جلدی سے اٹھا، آنگن میں ہم دونوں بھائی بغل گیر ہوئے۔
’’اتنے دن کہاں رہے؟‘‘ میں نے محمود سے پوچھا۔
محمود نے شوخ نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور آنکھ میچ لی، پھر گردن موڑ کر پنچ تارے کے سرخ سرخ پھولوں کے گچھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔
’’کوئی سات روز جھڑی رہی، متواتر بارش ہونے سے سڑک جگہ جگہ سے بہہ گئی تھی اور سپرنٹنڈنٹ ٹریفک نے راستہ بند کردیا تھا‘‘۔ اس نے آہستہ سے جواب دیا اور یہ کہہ کر ایک ہاتھ سے میرے ہاتھ کو پکڑ کر زور سے ہلانے لگا۔ اماں کدو چھیل رہی تھیں اور ہم دونوں کو دیکھتی جاتی تھیں۔ ان کی آنکھیں پُرنم تھیں، آنسوئوں کے ان دو سمندروں میں خوشیوں کی جل پریاں ناچ رہی تھیں۔

دلکش چہرہ سب کا خواب

مہر النساء
کیا کھائیں، کیا نہ کھائیں… اس بحث میں پڑے بغیر سب کچھ کھائیں مگر توازن اور اعتدال کے ساتھ۔ حسن کے نکات کے لیے غذا کا انتخاب کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔
دن کا آغاز دلیہ سے کریں:
مختلف اجناس کے لیے دلیہ بہتر غذا ہوسکتا ہے، لیکن گندم میں وٹامن B اور Pantothenic acid کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جن کے استعمال سے آپ کے بال وقت سے پہلے سفید نہیں ہوتے۔
اسٹرابری لازمی کھائیں:
کسی بیماری میں آپ کے دانت پیلے پڑ سکتے ہیں، یا قدرتی طور پر ان کی رنگت ماند پڑجائے تو بجائے طرح طرح کے ٹوتھ پیسٹوں کے تجربات کرنے کے، آپ ایک اسٹرابری کھا لیں اور کوشش کریں کہ اس سے دانتوں کی پالشنگ بھی ہوجائے۔ یہ قدرتی وٹامن سے بھرپور ہوتی ہے، تیزابیت ختم کرتی ہے، رنگت بحال کرتی ہے اور مسوڑھوں کے لیے بہترین مساجر ہے۔
بیج اور تل بے کار ہرگز نہیں:
مفروضوں اور سنی سنائی باتوں کو ایک طرف رکھ دیں اور وہم میں نہ پڑا کریں۔ تل ہمارے جسم کو درکار ضروری چکنائی مہیا کرنے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ چہرے اور جسم کی نمی کو برقرار رکھتے ہیں۔ مغربی ماہرِ غذائیت پیٹرک ہالفورڈ کا کہنا ہے کہ ’’رائی، سرسوں، سورج مکھی، خربوزے اور تربوز کے بیج اور تل علیحدہ علیحدہ بوتلوں میں سُکھاکر محفوظ کرلینے چاہئیں۔ تلوں کو مختلف گوشت اور سلادوں پر چھڑک کر کھا لیا کریں، اور موسمی پھلوں کے بیجوں کو سائے میں سُکھاکر کھانا صحت بحال رکھتا ہے، اس طرح ہمیں قدرتی فیٹی ایسڈز دستیاب ہوجاتے ہیں۔
روغنی مچھلی کا بہتر انتخاب:
وہ تمام قدرتی اور لازمی روغنیات جو ہمارے دل کی کارکردگی سے لے کر ظاہری جلد اور خال و خد کی صحت کے لیے درکار ہوسکتے ہیں وہ روغنی مچھلی میں موجود ہوتے ہیں۔ جِلدی امراض کی صورت میں بھی مچھلی کھانا مفید رہتا ہے۔ روغنی مچھلی کے سر کا سالن قدرے زیادہ مفید ہوتا ہے، یہ ایگزیما اور دیگر جِلدی امراض میں موافق رہتی ہے۔

حصہ