درِ آئینہ جب وا ہوا

2014

فیض عالم بابر
اُردو ادب اس دورِ پرُفتن میں جس کسمپرسی کا شکار ہے ،اس کا ذمے دار کوئی اور نہیں خود شاعر ،ادیب اورنقاد ہی ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کسمپرسی کے باوجود ابھی چند سچے نقاد موجود ہیں جو تمام مصلحتوں، رکاوٹوں،تعلقات کو خاطر میں لائے بغیر بنا کسی منفعت کے اُردو کی آبیاری میں مصروف ہیں ۔اگر نقاد شاعر بھی ہو تو یہ اُردو کے لیے سونے پر سہا گے کا کام دیتا ہے۔ روایتی شاعری کو جدیدیت کے سانچے میں ڈھالنے والے ایسے ہی ایک نقاد ظفر اقبال ہیںجو شاعر کو نہیں شاعری کو پرکھتے ہیں۔کوئی سینیئر ہو یا جونیئر ، اجنبی ہو یا شناسا، سب پر جم کرتعمیری تنقید کرتے ہیں۔نوجوان شعرا میں سے بیشتر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ظفر اقبال اُن پر کچھ لکھ دیںاور جب وہ لکھ دیتے ہیں تو ایک طوفان ضرور آجاتا ہے ۔ اگر توصیف کردیں تو اُن کے لکھے کو سند بنا کرایک ایک کو دکھاتے ہیں،سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ تذکرہ کرتے ہیں۔اگر فنی خامیوں،کمزوریوں کا اظہار کردیں تو نوجوان شعرا بجائے سیکھنے ، اپنی اصلاح کرنے کے، کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف نجی محفلوں میں ظفر اقبال کو بُرا بھلا کہتے نظر آتے ہیں۔ خود پس ِ پردہ رہ کراپنے حاشیہ نشینوں کو جو ادب کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہوتے میدان میں اتارتے ہیں جو ظفر اقبال کو بُرا بھلا کہہ کر ان کے شعروں کی لغوی انداز میں تشریح کرکے خوش ہوتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایسا کرکے اپنا مذاق خود بناتے ہیں۔ظفر اقبال کے قد کاٹھ پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آسمان پر تھوکا اپنے ہی منہ پر آتا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ ظفر اقبال کبھی کبھار اپنے کالم میں کسی کمزور شاعر کی پھسپھسی غزل یا کمزور اشعار کوڈ کردیتے ہیں مگر ذہین آدمی ہیں ایسی غزل یا اشعار کے ساتھ کوئی توصیفی جملہ عموماًلکھنے سے گریز کرتے ہیں صرف کالم کے آخر میں غزل یا اشعار لکھ کر جان چھڑالیتے ہیں۔پڑھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ ظفر اقبال صاحب نے بہ وجوہ لحاظ ، مروت سے کام لیا ہے،ویسے بھی تھوڑی بہت اقربا پروری تو جائز ہے کہ یہ بھی ہماری تہذیب کا حصہ رہی ہے۔گزشتہ دنوں ظفر اقبال کا ایک کالم منجھے ہوئے شاعر رفیع الدین راز کی کتاب ــ’’ درِ آئینہ‘‘ پر نظر سے گزرا جس میں انھوں نے رفیع الدین راز کی فنی کوتاہیوں اور بے وزن مصرعوں پر کھل کر بات کی ہے۔کالم پڑھ کر حیرت ہوئی کہ راز صاحب فکری سطح پر بہت مضبوط شاعر ہیں اور ان کی شاعری میں ندرتِ خیال کے تو کیا ہی کہنے ۔ تجسس بڑھ گیا تو دوسرے دن ہی اُردو بازار سے درِ آئینہ لے کر آیا اور پوری کتاب شاعری کا لطف لیے بغیر تنقیدی نگاہ سے پڑھتا چلا گیا۔کتاب پڑھ کر جہاں ظفر اقبال کے لیے دل سے دعائیں نکلیں وہیں ان کے کہے کی تائید بھی کرنا پڑی کہ سچ تو بہرحال سچ ہوتا ہے ۔ راز صاحب کی اس کتاب میں ظفر اقبال کی نشان زد کی گئی خامیوں کے علاوہ بھی کچھ کوتاہیاں نظر آئیں جن پر لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔ کتاب میں جا بہ جا پروف کی غلطیاں نظر آئیں۔
اوس کی ایک بوند اپنی پوری رعنائی کے ساتھ۔(ایک کی جگہ اک آئے گا) سلجھی ہوئی زبان ملی،شائستہ لب ملے(زبان کی جگہ زباں ہے ورنہ مصرع وزن سے خارج ہورہا ہے) آنکھیں میری وہی مری بینائی ہے وہی(میری کی جگہ مری آئے گا) وقار بخشے گا جب آئینے کو روئے بشر(آئینے کی جگہ آئنے آرہا ہے)کوئی صورت لگی اچھی،کسی کا دل پسند نہ آیا(نہ اضافی کمپوز ہوگیا)آئینے کو تھا سرخ رو رکھنا( آئینے کی جگہ آئنے آرہا ہے) قوتِ قابل اب تک بازوئے باطل میں ہے(اب کی جگہ ابھی ہے ورنہ مصرع وزن سے خارج ہورہا ہے) تیری حیرت بھی کیا حصہ ہے میری چشمِ حیراں کا(تیری کی جگہ تری آئے گا)حیات بخشش ہر ایک چیز زادِ راہ میں ہے(بخشش کی جگہ بخش ہوگا)غم آشنا ایک سر خوشی(ایک کی جگہ اک آئے گا) عالمِ مکاں کے ہر منظر سے ہے رشتہ مرا(مکاں کی جگہ امکاں ہوگا) اب رسمِ و راہِ زیست کا رشتہ انہیں سے ہے (اُنہیں کی جگہ اُنہی ہوگا) روٹی کے عوض صبر و رضا بیج رہا ہے (کمپوزر نے بیچ کو بیج بنا دیا) ابھی تک تو بچا رکھا دل نے اقتدار اپنا (کمپوزر رکھا کے بعد ہے لکھنا بھول گیا )کیوں مرے اندر انالحق کی صدا کا شعور ہے(شعور کی جگہ شور ہے اور انالحق میں الف مکتوبی بھی غائب ہے)
200 صفحات کے شعری مجموعے میں پروف کی اتنی غلطیاں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ راز صاحب نے مصروفیت کے سبب مجموعے کا فائنل پرنٹ نہیںدیکھا یا پھر عجلت سے کام لیا ہے حالانکہ راز صاحب ا پنے نظموں کے مجموعے ’’ ابھی دریا میں پانی ہے‘‘ کے پیش لفظ میں ایک جگہ لکھنے والوں کو بے صبری سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔’’ آپ دریائے فکر میں طغیانی کے آنے کا انتظار تو کریں۔بیشتر تخلیق کار اس طغیانی کاانتظار نہیں کرتے۔یہی بے صبری انھیں بسا اوقات مناسب تخلیق سے دور رکھتی ہے‘‘۔
حسرت مو ہانی نے اپنی کتاب ’’ نکاتِ سخن ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اُردو زبان میںحروف ِ علت یعنی وائو،الف اور ی کا گرنا یا دب کر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔شیخ ناسخ کی اپنے تلامذہ کو ہدایت تھی کہ الف ،وائو اور ی کو بے تکلف گرادینا اچھا نہیں۔‘‘ گو کہ میر و غالب سمیت تمام اساتذہ کے ہاں نہ گرنے والے لفظوں کو گرانا اور بُری طرح سے دباناکی مکروہ مثالیں ملتی ہیں مگر ان مثالوں کو سند بناکر اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی کوئی مستحسن عمل نہیں ہے،بڑا آدمی فراخ دلی سے اپنی خامیوں کو تسلیم کرتا ہے اور ایسا کرکے وہ اپنی آنے والی نسلوں کو ایک تعمیری ، مثبت اور صحت مند ادب کا روشن پیغام دیتا ہے۔ وزن پورا کرنے کے لیے کسی لفظ کو زبردستی گرانے یا دبانے سے جہاں مصر ع کی روانی متاثر ہوتی ہے وہیں نازک سماعتوں پر بھی گراں گزرتا ہے۔راز صاحب نے بھی اس مجموعے میں بہت سی جگہوں پر لفظوں کو بے دردی سے گرایا بھی اور دبایا بھی ہے، گوکہ یہ جائز ہے مگر اساتذہ کے نزدیک معیوب ضرور ہے ۔چند مثالیں دیکھیے:
بات مایوسی کی جوانی میں(مایوسی کا ی بُری طرح دب گیا)‘اُس کی نظر میں،میں سدا دریوزہ گر رہا(سدا کا الف بُری طرح دب گیا)‘پورے پیکر پر غبارِ رہ گزر کا غاز ہ تھا(اس پوری غزل میں قافیوں کا آخری حرف کچل دیا گیا)کھٹکتا ہے نگاہوں میں یہ قامت بار بار اپنا(اس پوری غزل میں ردیفوں کا پہلا حرف کچل دیا گیا)۔
فارسی، عربی الفاظ کے ساتھ ہندی لفظوں کی تراکیب بنانا بھی اساتذہ کے ہاں معیوب ہے اور راز صاحب جیسے رہنما شاعر کو تو بالکل بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی تراکیب بناکر نوجوان شعرا کے لیے ایک بُری مثال قائم کریں،امید ہے وہ ان مصرعوں پر نظر ثانی کریں گے۔

سانس در سانس رہے اُس کی رفاقت میں ہم
آنکھ در آنکھ فروزاں ہیں چراغ اشکوں کے

کجلا رہی ہے دن بہ دن
اردو شاعری میں نئی اور نادر و نایاب تراکیب کے استعمال سے جہاں مصرع یا شعر کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے ہیں وہیں الفاظ لغوی معنی سے بالاتر ہوکر نئے معنیٰ دینے لگتے ہیں ۔راز صاحب نے درِ آئینہ میں کچھ ایسی تراکیب استعمال کی ہیں جو مصرعوں کی بُنت اور معنیٰ کے حساب سے متنوع اور بھلی معلوم نہیں دیتیں ۔
قوتِ قابل،بغیرِ کوزہ،فکرِ غافل،فارغِ الزام،مخاطبِ پیغام۔ یہ تمام تراکیب راز صاحب جیسے باشعور شاعر کے ہاں مجھے عجیب لگیں۔
یہ مصرعے بھی نظر ثانی کے منتظر ہیں کہ کب راز صاحب ان پر نظر ِ التفات ڈالتے ہیں۔
جہاں نقشِ قدم ہوگا وہاں پر روشنی ہوگی(وہاں کے ساتھ پر کا استعمال زبان نہیں)
ہزاروں قوم کو گمراہ کرچکا ہے وہ(ہزاروں قوم محلِ نظر ہے)
بہت ہی سہل و سادہ ہے زیست کی تفہیم(سہل و سادہ محلِ نظر ہے)
اب راز صاحب کی ساقط الوزن غزل اور کچھ مصرعوں پر خامہ فرسائی کررہا ہوںجن کی نشاندہی ظفر اقبال بھی کرچکے ہیں۔

یہ معتقدِ عشق اسی در کے لوگ ہیں
مجھ پر کرمِ ِ خاص غمِ لادوا کا تھا
اُجڑا سا ایک گائوں جس کی راجدھانی ہے
باتوں سے تیرگی کا ازالہ نہیں ہوتا

آخری مصرع کی غزل 11 اشعار پر مشتمل ہے جن میں صرف 7 مصرعِ اولیٰ وزن میں ہیں۔
درج بالا چاروں مصرعے ایک ہی وزن ’ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ‘ پر کہنے کی کوشش کی گئی ۔اردو ادب میں یہ اور اس کی جڑواںبہن کی طرح ایک اور بحر ہے جس کے افاعیل’ مفعول ،مفاعیل، مفاعیل ،فعولن ‘ ہیں۔ یہ دونوں بحریں سلاست اور روانی کے باعث شعرا کی مرغوب بحریں ہیں ،گائیکی سمیت اردو ادب کا بیشتر ذخیرہ انہی دو بحروں میں ملتا ہے۔ اگر ان دونوںبحروں کے اوزان پر غور کیا جائے تو دونوں کا پہلا اور تیسرا رکن ایک سا ہے جبکہ دو سرے اور آخری رکن میں بھی حروف کی تعدادبرابر مگر حرکات کا فرق ہے۔جو شعرا علم العروض نہیں جانتے اور موزونیِ طبع کے زور پر شعر کہتے ہیں وہ ان بحروں میں اکثر غلطی کر بیٹھتے ہیں اس لیے کہ زبان حرکات کی ان مہین تبدیلیوں کو پکڑ نہیں پاتی۔میرے مشاہدے اور ادب کے ذخیرے میں ایسے کئی سینئر اور نامور شعرا بھی ہیں جو ان بحر وںمیں ڈوبے۔ کبھی ایک سے دوسرے اور کبھی دوسرے سے پہلی بحر میں غوطے لگاتے رہے۔انہی بحروں نے میرے ایمانِ سخن کو مستحکم کیا کہ شعرا کو علم العروض کی اتنی شُد بُد ضرور ہونی چاہیے کہ وہ اپنے کلام کی خود ہی تقطیع کرسکیں۔ میری معلومات کے مطابق راز صاحب علم العروض کی سمجھ رکھتے ہیں اس کے باوجود اُن سے یہ غلطی کیسے سر زد ہوگئی؟۔ کافی دیر سوچا اور پھر جو جواب آیا وہ کچھ یوں ہے۔علم، شہرت، منصب اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔کوئی لاکھ محنت کرلے، دولت ،تعلقات استعمال کرلے ساری زندگی شعر و ادب میں صرف کردے مگر وہ غالب کی ہمسری تو کجا اُس کی طرح کا ایک شعر نہیں کہہ سکتا۔کوئی کہے کہ تم غالب سے بہتر شاعر ہوتو اُسے خوش ہونے کے بجائے فوراً تو بہ کرلینی چاہیے۔ اس لیے کہ غالب اللہ کا چنیدہ شاعر ہے اُسے عزت ، لازوال شہرت اور تا قیامت رہ جا نے والا منصب اللہ نے عطا کیا ہے۔کوئی غالب کی گرد ِ پا کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔راز صاحب کو قدرت نے جہاں علم سے نوازا ہے وہیں عاجزی اورانکسار ماضی میںان کی ذات کے پہچان رہے ہیں۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ کسی کے کہے میں آکر متکبر ہونے کے بجائے عاجزی اور انکسار کو بڑھاوا دیں۔سب کچھ جانتے ہوئے بھی جب نادانستہ طور پر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو یہ اس بات کا اشارہ ہوتی ہے کہ قدرت اُس پر اب بھی مہربان ہے اور اُس کی اصلاح چاہتی ہے ۔میں نے یہ مضمون ایک بات سے تکلیف پہنچنے کے باعث مکمل نیک نیتی سے لکھا ہے ۔میرا مقصود راز صاحب کی عزت اور احترام میں کمی کرنا نہیںبلکہ یہ ہے کہ رفیع الدین راز میرے اور میرے بعد کی نسلوں کے لیے مشعل ِ راہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ جیسے معتبر شاعر کا کلام ہر طرح کے نقص اور عیوب سے پاک ہو۔
آخر میں درِ آئینہ سے چند خوبصورت اشعار

پھولوں کے بانکپن سے نگاہوں کی گفتگو
اک باادب سے جیسے کوئی باادب ملے
٭
بڑھاپا ابھی تک نہیں چھین پایا
لڑکپن ہمارا،جوانی ہماری
٭
تنہا کبھی سفر پہ نکلتی نہیں ہے یہ
چلتی ہے گمرہی کی رفاقت میں آگہی
٭
مری چُپ سے بھی کوئی ڈر رہا ہے
تو پھر یہ جراتِ اظہار ہے کیا
٭
آئینہ بھی تبصرہ کرنے سے اب معذور ہے
کون بے چہرہ یہاں ہے،کون بے چہرہ نہیں
٭
مانا فضا حرم کی تھی لیکن دعا کے وقت
جذبات باوضو تھے؟سلیقہ دعا کا تھا؟

حصہ