ایک عورت ایک کہانی، اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے

409

افروز عنایت
بے پناہ خوابوں اور امیدوں کو دل میں بسائے سیرتؔ نے سسرال کی دہلیز پر قدم رکھا۔ لیکن چوکھٹ پار کرکے چند ہی ہفتوں میں اُس کے سارے خواب اور سپنے چکناچور ہوگئے۔ سسرالیوں کا ناروا سلوک، شوہر کی بے روزگاری… یہ تو اُس نے سوچا بھی نہ تھا کہ جاتے ہی اتنے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور خوشحال گھرانے سے تھا۔ سسرال بھی خوشحال تھا جس کی بنا پر اس کی شادی طے ہوئی تھی۔ لیکن اب شکوہ کرتی تو کس سے! ماں باپ کو تکلیف دینا اسے گوارا نہ تھا، لہٰذا اندر ہی اندر کڑھنے لگی۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ بے پناہ مسائل میں گھر گئی ہے اور کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں۔ ان ہی حالات کو سہتے ہوئے اس کی ملاقات زبیدہ سے ہوئی۔ اُس کے حالاتِ زندگی سن کر سیرت کو بڑا حوصلہ ہوا کہ اس کے ساتھ تو کچھ بھی نہیں ہوا، زبیدہ تو بے پناہ مسائل اور آزمائشوں میں گھری ہوئی ہے۔ سیرت کے اندازے کے مطابق زبیدہ لگ بھگ پچاس سال کی ہوگی، لیکن جب یہ معلوم ہوا تو اُسے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ 35۔36 سالہ عورت ہے، بے پناہ مصائب کے ایندھن میں جل جل کر اس کی خوبصورت جوانی مرجھا چکی ہے۔
………٭٭٭………
زبیدہ کا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے تھا۔ اس کی شادی حسن سے ہوئی جو بہت زیادہ آسودہ حال تو نہ تھا لیکن سفید پوش تھا اور اطمینان بخش زندگی گزار رہا تھا۔ چھوٹا سا خوبصورت مکان تھا، چھوٹا موٹا کاروبار… جس پر دونوں میاں بیوی مطمئن زندگی گزارنے لگے۔ پانچوں بچے ابھی بہت چھوٹے تھے کہ حسن کو ایسی بیماری لگی کہ تمام روپیہ پیسہ، کاروبار اس بیماری کی نذر ہوگئے۔ زبیدہ کو بار بار اپنے باپ سے مالی مدد لینی پڑی۔ بیماری کچھ کم ہوئی، حسن چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو اُس کے ہاتھ میں کچھ نہ بچا تھا۔ نئے سرے سے کاروبار کے لیے روپیہ تو درکار تھا ہی، لیکن اُس کے جسم و ذہن میں اتنی ہمت اور طاقت نہ رہی کہ وہ نئے سرے سے کاروبار شروع کرسکے۔ دونوں میاں بیوی سخت پریشان تھے۔ چھوٹا سا شہر تھا، ماں باپ دوسرے شہر میں تھے۔ کچھ لوگوں نے حسن کو مشورہ دیا کہ ایک گدھا گاڑی خرید لے اور منڈی سے لوگوں کا مال اُن کے کارخانوں اور دکانوں تک پہنچائے۔ یہ کام مشکل نہ تھا، تھوڑے سے سرمائے کی ضرورت تھی، لیکن یہ اس کے شایانِ شان نہ تھا۔ وہ بار بار سسرال سے روپیہ مانگتے شرم محسوس کررہا تھا۔ آخر بیوی نے کہا کہ محنت، مشقت میں کوئی عار نہیں (حسن معمولی تعلیم یافتہ تھا)، ملازمت مل نہیں سکتی، زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ اس طرح حسن کے اس کام سے گھر کا چولہا جلنے لگا۔ روٹی پانی کا تو بندوبست ہوگیا، لیکن ابھی بھی زبیدہ کے لیے بہت سے مسائل سر اٹھائے کھڑے تھے۔ شوہر کے علاج کے لیے پیسہ، تینوں بیٹوں کی پڑھائی کے لیے پیسہ… اور سب سے بڑا غم اسے جو کھائے جارہا تھا وہ اس کی دو جوان بیٹیاں تھیں… ان کے لیے ’’بر‘‘ ڈھونڈنا اور ان کی شادیاں… ان تمام پریشانیوں نے زبیدہ کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا تھا۔ مسائل کا ایک انبار تھا اور وسائل نہ ہونے کے برابر۔ وہ ان تمام حالات کا تنہا مقابلہ کررہی تھی۔
…………
زبیدہ کے واقعات سن کر سیرت سناٹے میں آگئی کہ اتنے بڑے گھرانے کی یہ خاتون آج کتنی آزمائشوں میں گھری ہوئی ہے، جبکہ میں نے تو معمولی آزمائش کو اپنے دل و دماغ پر سوار کرلیا تھا۔ سیرت نے سوچا: دنیا میں مجھ سے بھی زیادہ لوگ تکلیفوں میں مبتلا ہیں۔ میں آج تک اپنے آپ کو ہی مظلوم سمجھ رہی تھی۔ میں اور میرا شوہر تعلیم یافتہ ہیں، دونوں مل کر اپنی زندگی کو سنوارنے کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔
اس نے ایک نئے حوصلے اور امید کے ساتھ اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے رب سے مدد مانگی۔
زبیدہ جیسے مسائل سے اکثر لوگوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ خصوصاً شادی کے بعد لڑکیاں جو سنہری سپنوں اور خوابوں کی تعبیر جلد از جلد چاہتی ہیں، ذرا ذرا سے مسائل اور پریشانیوں سے گھبرا جاتی ہیں۔ پریشانیاں اور مسائل یا آزمائشیں اللہ کی طرف سے آتی ہیں، ان سے نجات کے لیے کوشش اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا لازمی ہے، ورنہ جینا مشکل ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی آپ اگر اپنی زندگی کا موازنہ اپنے سے اوپر والوں سے کریں گے تو اپنی تکلیفوں اور مشکلات کو زیادہ محسوس کریں گے، لیکن اگر نیچے کی طرف دیکھیں گے تو پتا چلے گا کہ لوگ آپ سے زیادہ تکالیف میں گرفتار ہیں تو اللہ کا شکر ادا کریں گے، آپ کو حوصلہ ملے گا کہ اللہ نے تو میرے ساتھ برا نہیں کیا، میں ’’بہت سوں‘‘ سے ’’بہتر‘‘ ہوں، دنیا میں مجھ سے بھی زیادہ تکلیف میں لوگ مبتلا ہیں۔ اس طرح آپ کی شخصیت میں خودبخود صبر اور شکرگزاری کی خوبیاں اجاگر ہوں گی، آپ خود کو بہت سے لوگوں سے زیادہ خوش نصیب تصور کریں گے۔ اور ناممکن ہے کہ رب نے آپ کو اپنی نعمتوں سے نہ نوازا ہو۔ ان نعمتوں کو تلاش کریں تو آپ کو اپنے اردگرد بہت سی نعمتوں کے خزانے نظر آئیں گے۔
ایک بچی کی شادی ہوئی تو اُسے محسوس ہوا کہ اسے وہ سب کچھ حاصل نہیں ہوا ہے جو اس کے اردگرد اس کی کزنز اور دوستوں کو ملا ہے۔ اس پر اسے تھوڑی مایوسی ہوئی۔ پھر اس نے اپنے آس پاس نظر دوڑائی، جہاں ملازمت کررہی تھی وہاں اپنی کولیگز کے حالات معلوم کیے تو اس نے اپنے آپ کو اُن میں سے بہت سوں سے بہتر پایا۔ اس نے شکر ادا کیا کہ وہ تو خوش نصیب ہے کہ اللہ نے اسے اپنی تمام نعمتوں سے محروم نہیں کیا، بلکہ بہت سی نعمتوں سے مالامال کردیا ہے۔ وہ بے انصاف نہیں ہے، وہ تو بڑا منصف ہے، کسی کو کسی طرح نوازتا ہے، تو کسی کو کسی اور طرح۔ یہ تو اپنے اندر کے انسان کو خود جانچنا ہے کہ مجھ پر میرے رب کے کتنے احسانات ہیں۔ اِس سوچ نے اس بچی کے اندر مثبت خوبیاں پیدا کیں اور وہ آج ایک آسودہ زندگی بسر کررہی ہے اور اپنے رب کی شکرگزار ہے کہ اگر یہ سوچ مجھ میں بیدار نہ ہوتی تو میں ذہنی طور پر بہت ڈسٹرب رہتی جس سے میرے آس پاس میرے اپنے بھی یقینا متاثر ہوتے۔
خدا تمام بچیوں کو اس سوچ کا حامل بنائے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر مطمئن ہوجائیں، کیونکہ ہر قدم پر ہمیں اللہ کے احسانات اور نعمتیں نظر آتی ہیں، جیسا کہ رب العزت نے سورۃ الرحمن میں ارشاد فرمایا ہے کہ
’’اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے‘‘

حصہ