حفاظتی اقدامات

198

تنویر اللہ خان
نظریات، اصول، اثرات، دعوت، تبلیغ ایک اور میدان ہے اور عملی سیاست ایک اور میدان ہے ان دونوں میدانوںکے تقاضے بھی الگ الگ ہیں، ایک بے اصول اور غیر نظریاتی فرد یا جماعت انتخابی سیاست میں مسندِ اقتدار تک پہنچنے کے لیے جن مراحل سے باآسانی گزر جاتے ہیں وہی مراحل ایک بااصول فرد یا جماعت کے لیے نہایت کشمکش کا سبب ہوتے ہیں، نظریاتی فرد یا جماعت جب عملی سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو انھیں اپنی دعوت اور نظریے سے مختلف حالات کا سامنا ہوتا ہے جن سے وہ اپنی بساط بھر ضرور لڑتے ہیں لیکن آخر کار اُنھیں حالات سے مفاہمت کرنی ہی پڑتی ہے اوراس مفاہمت کے نتیجے میں نظریے اور عمل کے درمیان پیدا ہونے والے تضادات پر سیاسی ضرورت کا پردہ ڈالنا پڑتا ہے، یہ پردہ اصولوں کی آنکھ پر مصلحت کی پٹی بن کر تہہ در تہہ لپٹتا رہتا ہے اور اس کے بعد بند آنکھوں سے بھی مسند اقتدار ہی نظر آتی ہے، مسند اقتدار کے حصول کی یہ خواہش بحیثیت جماعت بھی ہوسکتی ہے اورانفرادی یا ذاتی بھی ہوسکتی ہے۔
نظریاتی جماعتوں اور افراد کو اصول اور عمل کے درمیان کشمکش کا ہر لمحہ سامنا رہتا ہے اور اس کشمکش میں جیت ہمیشہ سیاست کے عملی تقاضوں کی ہوتی ہے۔
نظریے اور سیاست کے عملی تقاضوںکو ایک ساتھ لے کر چلنا ایک بہت مشکل اور ہر لمحہ چوکس رہنے کا کام ہے نظریاتی جماعتوں کے لیے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے پیارے، نازک اورحَسین ’’نظریے‘‘ کو’’عملی سیاست‘‘ کے بگاڑ سے بچا کر رکھیں۔
حساس کام کرنے والے ادارے بڑی تباہی سے بچنے کے لیے کچھ (Safety Measures) حفاظتی اقدامات کرتے ہیں تاکہ تھوڑی سی قربانی یا معمولی سا نقصان اُٹھا کر ناقابل تلافی نقصان سے بچا جاسکے۔
ایسا ہی ایک حفاظتی قدم نظریاتی جماعت کی’’ڈرائیونگ ٹیم‘‘ کا عملی سیاست میں حصہ نہ لینا ہے، نظریاتی جماعتوں میں یہ ڈرائیونگ ٹیم عقاب کی طرح سیاسی ضروریات کی دھینگا مشتی اور نظریاتی رکھ رکھاو کے درمیان توازن قائم رکھتی ہے لیکن اگر ڈرائیونگ ٹیم بھی سیاسی دھینگا مشتی میں شامل ہوجائے تو نظریاتی رکھ رکھاو یتیم کی طرح ایک کونے میں کھڑا تماشائی بن جاتا ہے لہٰذا نظریاتی جماعتوں کی ڈرائیونگ ٹیم کو عملی سیاست اور انتخابی سیاست میں حصہ داری سے دور رہنا چاہیے۔
جس طرح کسی بھی کھیل میں امپائر، ریفری کا کام کھیل کے اصول و قواعد پر عمل درآمد کروانا ہوتا ہے، مسلسل اور جان بوجھ کر فاول کرنے والے کھلاڑی کو ریفری وارننگ دیتا ہے اورخلاف ورزی سے باز نہ آنے پر میدان سے باہر کردیتا ہے، اسی طرح نظریاتی جماعتوں میں مستقل اور مسلسل فاول کرنے والے کو قابو میں رکھنا جماعت کی ڈرائیونگ ٹیم کا کام ہوتا ہے لیکن اگر امپائر یا ریفری خود کھیل میں شامل ہوجائے تو وہ کھیلنے والوں پر نہ نظر رکھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی غیر جانبداری برقرار رہتی ہے لہٰذا اس کے فیصلے اصول اور قانون کے بجائے جانبدارانہ ہوجاتے ہیں وہ فاول بریکر کے بجائے فاول پلیر بن جاتا ہے، اسی طرح اگر نظریاتی جماعتوں کی ڈرائیونگ ٹیم جب انتخابی میدان کے کھلاڑی بن جاتی ہے تو وہ بھی اپنے مناصب کے اختیار کا استعمال کرتے وقت اکثر نظریے کو عملی سیاست کے تقاضوں پر قربان کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے اور یہ مجبوری جہاں ایک طرف نظریے سے دور کرتی ہے تو دوسری طرف فیصلہ ساوزں کے احترام کو بھی مجروح کرتی ہے۔
مفادات کے ٹکراو ) (Conflict of interestکا اصول ہمیشہ سے مقبول عام ہے، حکمران اگر تاجر ہو تو وہ قانون سازی اور اس کے عمل درآمد میں اپنے کاروبار کو مقدم رکھتا ہے یا کم از کم اُس کاخیال ضرور رکھتا ہے اور اکثر اوقات اُسے عوامی اجتماعی مفاد پر مفاہمت کرنی پڑتی ہی ہے ذاتی مفاد کو مقدم نہ رکھنے کی ہمت رکھنے کا یارا انبیاؑ کے علاوہ شاید چند اور لوگوں میں ہو لیکن اکثریت اپنے ذاتی مفاد کو ہی اولیت دیتی ہے، مثلاً کسی انتخابی نشست کا حصول بحیثت جماعت کوئی خاص فائدہ مند نہیں ہے بلکہ نظریات سے بے جا سمجھوتے کا سبب ہے کیوں کہ میں خود اُس نشست کا امیدوار ہوں اور تنظیمی حوالے سے بھی مجھے ہی فیصلے کا اختیار ہے لہٰذا اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ میں نظریات اور اجتماعی مفاد کی قربانی دے کر نشست حاصل کرلوں، لہٰذا نظریاتی جماعتوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ تنظیمی فیصلہ ساز کے فیصلے اس کے ذاتی مفادات سے نہ ٹکراتے ہوں۔
چند ایک کو چھوڑ کر ہماری تمام سیاسی جماعتوں کی فیصلہ ساز ٹیم اور انتخابات لڑنے والے لوگ ایک ہی ہیں، پی ٹی آئی نے جہانگیر ترین کی خالی ہونے والی نشست پر اُن کے بیٹے علی ترین کو الیکشن لڑوایا اور پی ٹی آئی نے اپنی جیتی ہوئی نشت ہار دی گئی، ممکن ہے کہ وہاں جیتنے والے سید اقبال شاہ کے مقابلے میں اُن ہی جیسے کسی گراس روٹ لیول تک رسائی رکھنے والے کو الیکشن لڑوایا جاتا تو نتائج مختلف ہوسکتے تھے لیکن اس کا فیصلہ کیوں کر ہوسکتا تھا جب کہ علی ترین کے والد جہانگیرترین خود تنظیمی فیصلہ سازوں میں شامل ہیں۔
نظریاتی سیاسی جماعتوں کی تنظیمی قیادت کو اسمبلی کی ممبری سے دور ہی رہنا چاہیے اس طرح اُن کے سیاسی فیصلوں کو غیرجانب دارنہ بھی سمجھا جائے گا اوریہ اُن کے وقار میں اضافے کا سبب ہوگا اوراس سے جماعتوں کے نظریات کو بھی تحفظ ملے گا۔

حصہ