علم کوئی سا بھی ہو رائیگاں نہیں جائے گا

289

تابندہ جببں
سردیوں کی شام تھی عاصمہ آنٹی ھمارے گھر آئی ہیں عاصمہ آنٹی ہماری پڑوسن ہیں۔ویسے تو وہ ہر لحاظ سے بہتر خاتون ہیں مگر اُن کی ایک عادت اچھی نہیں،وہ دو سرے کے ٹو میں لگی رہتی ہیں اور اس ہی وجہ سے باقی ملنے والے انھیں پسند نہیں کرتے تھے مگر میری امی کا کہنا ہے کے ہر طرح کے انسان سے ہمیں ملتے رہنا چاہیے کیونکہ ہر انسان کے اندر کچھ خوبیاں اور خامیاں موجود ہوتی ہے جس سے ہمیں اپنی خامیاں اور خوبیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔آج گھر کی صفائی کر کے میں بھی اُن کے پاس بیٹھ گئی آج آنٹی کا موضوع “تعلیم” تھا آنٹی امی سے کہہ رہی تھیں شابانہ بہن تم نے کیا اپنی بیٹی کو بی۔اے کروایا ہے آج کا دور تو انجینئر اور ڈاکٹر کا ہے بڑا اسکوپ ہے اس کا ہر جگہ باآسانی ملازمت بھی مل جاتی ہے اور کسی قسم کی پریشانی کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا ھماری امی جان نے عالمہ کا کورس کیا ہوا تھا ،اسی وجہ سے وہ اُن کی بات سے متفق نہیں ہوئی۔امی نے کہا ایسا نہیں ہے علم چاہیے کوئی سا بھی کسی بھی لحاظ سے کم نہیں ہوتا اور یہ بات کہنا علم کے ساتھ نا انصافی ہے۔کیونکہ ہمارے مذہب اسلام نے علم حاصل کرنے کو کہا ہے،اور اس بات کو مرد اور عورت دونوں پر فرض قرار دیا ہے۔ہاں یہ ضرور کہاں ہے “علم حاصل کرو چاہے چین تک جانا پڑے ” آج ہم جس دور میں رھ رہے ہیں ہمیں علم کی ضرورت ہے تاکہ ہم معاشرے سے جہالت کا خاتمہ کر سکے ہمارا دین ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ہم دوسرے کا راستہ بنے ،راستہ ہموار کریں عاصمہ آپ یہ کس قسم کی باتیں کر رہی ہے،ارے نہیں نہیں بہن میرا کہنا کا مطلب وہ نہیں تھا شابانہ بہن تم غلط سمجھی۔
غلط سمجھنے کی کوئی بات نہیں ہے دراصل میں یہ سمجھتی ہو انسان ،ہر بچے کا اپناایک رجحان ہوتاہے اُس کی توجہ اُس ہی طرف مربوط رہتی ہے جو وہ پڑنا چاہ رہا ہوتا ہے اُسے حاصل کرنے دینا چاہیے ایسے میں ہم اُنھیں کسی ایسے فیلڈ میں ڈال دے جس کا اُنھیں شوق نہیں ہے تو ہم بچے کے ساتھ اور اُس فیلڈ کے ساتھ ناانصافی کریں گیاور اس ہی وجہ سے میں نے اپنوں بچوں کو اُن کی مرضی کی تعلیم دلوائی ہے۔کیونکہ اُن کی اپنی زندگی ہے اور ہر انسان کو اپنی زندگی اچھی طرح گذارناکا پورا حق حاصل ہے۔
ارے ٹھیک کہا آپ نے اس طرح میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ،آپ کی سوچ بہت قابل ستائش ہے اور ہم سب کو اس ہی طرح سوچنا چاہیے…

حصہ