(سپنا ضرور پورا ہوگا(فوزیہ تنویر

254

عمر نے بچپن سے ایک ہی سپنا آنکھوں میں سجا رکھا تھا کہ وہ بھی ایک دن فوجی سپاہی بن کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے گا۔ چناں چہ اس نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے دن رات محنت کی۔ جوں جوں تعلیمی مراحل طے کرتا گیا، اس کا یہ شوق جنون کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ اسے کلف لگی یونیفارم پہنے فوجی جوان بہت اچھے لگتے تھے اور وہ خود کو تصورات میں اس باوقار حلیے میں دیکھتا تو دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے دعا گو ہوتا۔ آخر کار، سخت محنت و لگن اور والدین کی دعائیں رنگ لائیں اور وہ آرمی میں کمیشن حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔
عمر فوج کی سخت تربیت کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا اور اب تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہ تھا، کیوں کہ اس کے خواب پورے ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا، بہت ناز و نعم میں پلنے والا نوجوان، اس کے والد کا اپنا بزنس تھا، جو رزق حلال کمانے پر یقین رکھتے تھے۔ ان ہی کی تربیت تھی کہ عمر بھی نیک دل اور حسّاس طبیعت کا مالک بنا تھا۔ وہ پاکستان کے ناگفتہ بہ حالات پر ہر وقت کڑھتا رہتا اور دل سے چاہتا تھا کہ پاکستان کے حالات سدھارنے میں اسے بھی اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ شاید یہی سبب تھا کہ اس نے آرمی میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
دوران تعلیم وہ ملکی اداروں میں کرپشن کی کہانیاں تو سُنتا رہتا تھا لیکن پڑھائی میں مصروفیت کی بنا پر ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دے پاتا تھا، اسی لیے اسے اندازہ ہی نہ ہو پایا کہ پاکستان کے اندرونی حالات اور مختلف شعبہ جات میں کرپشن کی وبا نہایت خطرناک صورت حال اختیار کر چکی ہے۔
ضروری کاغذات کی تکمیل کے سلسلے میں جب مختلف سرکاری محکموں میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہ سر پکڑ کر رہ گیا کہ عام لوگ کس طرح ان معمولی سرکاری اہل کاروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ جن کو عوام کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے، وہ انہیں اتنا خوار کرتے ہیں کہ بہت سے لوگ انہیں رشوت دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ایک دن عمر انہی سرکاری کاموں کے سلسلے میں سارا دن خوار ہونے کے بعد ذہنی سکون کے لیے اپنے چچازاد بھائی‘ بہن سے ملنے ان کے گھر چلا گیا۔ سوچا، چچا کی خیریت بھی معلوم کرلوں گا۔ اس کے کزنز نے عمر کو دیکھا تو خوشی سے اچھل پڑے، جیسے ان کی کوئی دلی مراد پوری ہوگئی ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے امتحان ہونے والے ہیں اور کچھ چیزیں ہمیں سمجھ نہیں آرہی ہیں، آپ ہماری مدد کریں گے؟
عمر تو بچوں کو پڑھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا، بولا: لاؤ کتابیں کیا سمجھنا ہے، ابھی سمجھائے دیتا ہوں اور ہاں تم موبائل فون کھول کر کیا لکھ رہے ہیں، پڑھائی کے دوران اسے بند کردو۔
نادیہ بولی: ’’عمر بھائی، ہم اسکول کا کام کر رہے ہیں۔‘‘
’’بھئی، یہ کیا طریقہ ہے کام کرنے کا اسکول کے کام کا موبائل سے کیا تعلق؟‘‘
حارث جو کہ نویں جماعت میں پڑھتا تھا، بولا: ’’عمر بھائی، اب ہمارے ٹیچرز اسکول کا زیادہ تر کام Whatsapp پر بھیج دیتے ہیں۔ اسکول میں بھی کچھ خاص نہیں سمجھاتے، اسی وجہ سے ہمیں موبائل فونز بھی خریدنا پڑے اور ابو جان تو کسی صورت بھی موبائل فون چلانے کے حق میں نہ تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ابھی تم لوگ بہت چھوٹے ہو، لیکن ہماری تو مجبوری ہے، اس کے علاوہ جب کچھ سوال سمجھ نہیں آتے تو ہمیں میسجز کے ذریعے دوستوں سے کچھ نہ کچھ پوچھنا پڑتا ہے۔ اسی سے ہمارا وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔‘‘
یہ ساری صورت حال جان کر عمر نہایت پریشان ہوگیا۔ وہ پہلے ہی سرکاری دفاتر میں کرپشن کی ریل پیل سے دلبرداشتہ تھا، اب یہ نئی کہانی جان کر اور بھی پریشان ہوگیا کہ کیسے بچوں کو تعلیمی میدان میں پیچھے کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ مذہبی تعلیم تو پہلے ہی سے اسکولوں سے ختم کی جا چکی ہے۔ عمر سوچ میں پڑ گیا کہ میں تو باہر کے دشمنوں سے لڑنے کا ارادہ لیے بیٹھا ہوں، لیکن یہ کیا؟ دشمن تو ملک کے اندر مختلف روپ دھارکر قبضہ جماچکا ہے۔ کہیں تو ہماری نوجوان نسل کو انٹرنیٹ کے نئے نئے پروگراموں کا جھانسا دیا جاتا ہے اور کہیں تعلیم کے نام پر اتنے بھاری بوجھ بچوں کے کاندھوھں پر لاد کر انہیں ذہنی اور جسمانی لحاظ سے کم زور کیا جا رہا ہے۔ ان سب چیزوں نے اسے ایک اٹل فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا کہ اگر اسے ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے تو اُسے اللہ کا سپاہی بننا پڑے گا اور عام لوگوں کے لیے کام کرکے یہی دل کو سکون مل سکتا ہے۔ یہی سوچ کر اس نے درس و تدریس کے شعبے میں آنے کا فیصلہ کیا تاکہ نئی نسل کو دنیا کی نئی نئی شیطانی خرافات سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کی جائیں اور پھر نئی نسل سچی اور مضبوط پاکستانی قوم کے روپ میں ابھر کر سامنے آسکے۔ اس نے اپنے والدین کو اپنے ارادوں سے آگاہ کیا تو اس کے والدین نے اس کا بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اس کی والدہ نے اسے سمجھایا کہ دیکھو بیٹا، آج ہمیں سرحدوں سے زیادہ ملک کے اندر بہت سے محاذوں پر ملک دشمنوں کا سامنا ہے اور یہاں پر جو دشمن ہیں وہ باہر کے نہیں ہمارے اپنے ہی ملک کے بدطینیت رہنما ہیں۔ ملک کو ان کی شیطانی چال بازیوں سے بچانا ہے اصل جہاد ہے۔ تم اپنے ہم خیال دوستوں کا گروپ بناؤ، درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تبلیغی سرگرمیوں کا بھی آغاز کرو اور عام لوگوں کو بتاؤ کہ زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ جب ان لوگوں کے ذہن صاف ہوں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ آئندہ یہ لوگ جب بھی اپنے نمائندے منتخب کریں گے تو دین دار اور مخلص لوگوں کو آگے آئیں گے، تب ہی ہماری سیاست گندگی، آلودگیوں سے پاک ہوسکتی ہے اور ملک کے تمام ادارے آزادانہ اپنا کام انجام دے سکیں گے۔ تم لوگ اگر نیک نیتی سے اس کام کو شروع کرو گے تو پاکستان کی زبوں حالی کو خوش حالی اور ترقی کی شاہراہ پر گام زن کیا جاسکتا ہے۔
والدہ کے حوصلہ دلانے پر عمر نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر پوری قوت کے ساتھ وطن عزیز کے چھپے اور کھلے دشمنوں کا مقابلہ کرے گا اور مال و جان دونوں سے جہاد کرے گا تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے!!

حصہ