(ہمیں کچھ کرنا ہے کل نہیں آج سے ابھی سے (شازیہ نعمان

346

مسجد میں درس ہورہا تھا۔ انتہائی خوشی کا مقام یہ تھا کہ آج کے درس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی۔ امام صاحب نے سورۃ کہف کی ابتدائی آیات سے درس شروع کیا:’’کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور کتے والے ہماری کوئی عجیب نشانیوں میں سے تھے۔ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزین ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اے پروردگار ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کردے تو ہم نے انہیں غار میں تھپک کر سالہا سال کے لیے گہری نیند سُلادیا، پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ دیکھیں ان کے دو گروہوں میں کون اپنی مدتِ قیام ٹھیک شمار کرتا ہے۔
اب ہم ان کا اصل قصّہ تمہیں سُناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے، جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کردیے، جب وہ اٹھے اور انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے۔ ہم اسے چھوڑ کر کسی کو معبود نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو بالکل بے جا بات کریں گے۔ پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ ہماری قوم تو ربِ کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ (امام صاحب نے مختصراً بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو نوجوانی کی عبادت بہت پسند ہے۔ جب وہ چند نوجوان ایمان لائے تو اللہ نے انہیں ہدایت میں نہ صرف ترقی دی بلکہ ان کے دل مضبوط کرکے ان کا ایسا ساتھ دیا کہ قیامت تک دنیا اس پر حیران رہے گی اور ان کا ذکر قرآن میں پڑھتی رہے گی۔)
ان نوجوانوں نے آپس میں کہا یہ لوگ اپنے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ آخر اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے، جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔۔۔اب جب کہ ہم ان سے اور ان کے معبود ان غیر اللہ سے بے تعلق ہوچکے ہیں تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لیں۔ ہمارا رب ہم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور ہمارے کام کے لیے سروسامان مہیا کرے گا۔ امام صاحب نے بتایا کہ وہ نوجوان پیغمبر نہ تھے۔ چند باایمان نوجوان تھے۔ ان نوجوانوں نے اپنی سی پوری کوشش کی تو اللہ کی مدد آگئی۔ آج ہمارے نوجوانوں میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ اس ٹیلنٹ کو بہترین جگہ استعمال کرنے سے بہترین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ خواب میں اپنے بیٹے کو قربان کرتے دیکھتے ہیں۔ خواب اپنے بیٹے کو سناتے ہیں تو حضرت اسماعیل علیہ السلام قربان ہونے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر بارہ، تیرہ برس ہوگی۔ کہتے ہیں، ابا اپنا خواب سچ کر دکھایئے۔ اللہ تعالیٰ کو خواب کا سچ کردکھانا اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لیے ہر مسلمان صاحبِ حیثیت کے لیے قربانی فرض قرار دے دی۔
ہمارے نوجوان جو ٹی وی، کمپیوٹرز اور موبائل جیسی خرافات میں وقت ضائع کررہے ہیں، انہیں چاہیے کہ ان چیزوں سے مثبت کام لیں۔ اپنے ایمان کو مضبوط بنائیں اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا بہترین کردار ثبت کریں۔ یہ ملک بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ اس کی حفاظت کرنا اور اِسے مستحکم بنانے میں اپنی صلاحیتوں کو خوب استعمال کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اصحابِ کہف ہمارے اور ہمارے نوجوانوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔ اللہ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ تو میرے بھائیو اور نوجوانو، اگر ہم متحد ہوجائیں، اپنے ایمان کو مضبوط کرلیں تو اللہ تعالیٰ اپنی مدد بھیج دے گا اور اس ملک میں ان شاء اللہ امن وامان قائم ہوجائے گا۔ میری تمنا ہے کہ میرے ملک کے نوجوان صرف دنیاوی ہی نہیں، دینی تعلیم بھی حاصل کریں۔ علم و عمل کے میدان میں خوب ترقی کریں تو منزل دور نہیں رہے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھی یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی کم تعداد پر دل گرفتہ یا مایوس نہیں ہوتے تھے، کیوں کہ انہیں اللہ تعالیٰ اور اپنی ایمانی طاقت پر پورا بھروسا تھا اور وہ ہر میدان میں فتح یاب ہوتے رہے۔ میرے نوجوانو، آپ بھی خود کو ایک اور ایک دو کے بجائے ایک اور ایک گیارہ سمجھیں، اللہ کے بھروسے پر کام کیے جائیں، فتح یقینی ہے۔ جس طرح گھر کی صفائی کرکے دل و دماغ کو سکون و راحت نصیب ہوتی ہے، اسی طرح یہ ملک پاکستان ہمارے گھر کی طرح ہے، اسے صاف رکھنا، اس کی ترقی کے لیے کام کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ یہ نہ سوچیں کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا، یہ سوچیں کہ ہم نے اپنے ملک کے لیے کیاکرنا ہے اور اِسے کیا دینا ہے۔
دوستو، اگر ہمارے گھر پر کوئی حملہ کرے یا ہمیں کسی وجہ سے اپنے گھر میں تکلیف ہو تو ہم گھر چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ وہیں رہتے ہوئے اس تکلیف کو دور کرنے کی تدبیر اور کوشش کرتے ہیں۔۔۔ تو میرے پیارے نوجوانو، اپنے ملک سے کسی دوسرے ملک جانے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو اپنے ملک ہی پر لگادو۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کے محل سے اپنی جھونپڑی بہتر ہے کہ انسان اپنی جھونپڑی میں رُوکھی سُوکھی کھاکر اللہ کا شکر ادا کرے اور اپنی جھونپڑی کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرے۔ میرے نوجوانو، اپنے ملک میں رہو، اس کے لیے کچھ کرنے کا عزم کرو۔ جب ہمارے پڑھے لکھے نوجوان اپنی صلاحیتیں یہود و نصاریٰ کے ملک میں جاکر ان کو ترقی دینے میں صرف کریں گے تو وہی لوگ ترقی کریں گے اور وقت پڑے گا تو دھکے دے کر ہمارے نوجوانوں کو اپنے ملک سے نکال بھی دیں گے، پھر پناہ کہاں ملے گی ۔۔۔ یہی ملک دے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے چھوٹی عمر میں کنویں میں پھینک دیا تھا، پھر کچھ لوگوں نے کنویں سے نکال کر بیچ دیا۔ جہاں رہائش پذیر ہوئے، وہاں الزام لگا کر قید کردیا گیا۔ آپؑ صبر کرتے رہے، کوشش کرتے رہے، دعائیں کرتے رہے۔۔۔آخرکار مصر کے بادشاہ بنے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے سے سبق ملتا ہے کہ ہم مصائب سے گھبرائیں نہیں، مسلسل محنت اور کوشش کرتے رہیں، یہ نہ سوچیں کہ صرف چند ایک یا صرف میرے صحیح ہونے سے کیا ہوتا ہے! یہ سوچیں کہ مجھ سے میرے عمل کی جواب دہی ہوگی، میں اپنا عمل تو صحیح کروں۔ اس طرح سب ٹھیک ہوجائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لاتی اور آگ میں ڈال دیتی، کسی نے پوچھا کہ تمہارے اتنا سا پانی ڈالنے سے کیا ہوگا؟ چڑیا نے کہا کہ میں اپنی استطاعت کے مطابق جتنا کرسکتی ہوں، اتنا تو کروں تاکہ میرے لیے حجت بن جائے۔ ہمیں بھی اپنی استطاعت کے مطابق کچھ کر دکھانا ہے۔
امام صاحب کا درس مکمل ہونے کے بعد امام صاحب کے ساتھ ساتھ اور لوگوں کی آنکھوں میں بھی آنسو تیررہے تھے۔ کاشان اور جبران کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے۔ دعا ہوئی، دونوں نے عزم کیا کہ ہمیں کچھ کرنا ہے۔۔۔ کل نہیں، آج سے اور ابھی سے!!
nn

حصہ