(پاکستانی عورت(سارہ احسان

241

آج کی عورت پوری دنیا میں مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ اس نے صرف اِس دنیا کو ہی فتح نہیں کیا بلکہ وہ ترقی کی دوڑ میں بلندیوں کو چھو رہی ہے، شاید اس سے بھی آگے ہی نکل گئی ہے۔ ہر سال 8 مارچ دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ ان کی جدوجہد کو یاد کیا جاسکے اور ان کی کامیابیوں کا جشن منایا جائے۔ عورت کسی بھی معاشرے کا اہم حصہ ہوتی ہے کیونکہ وہ معاشرے کی مضبوط بنیادوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عورت بھی معاشرے کا اتنا ہی اہم جزو ہے جتنا مرد۔ اس لیے کوئی بھی ملک یا معاشرہ عورت کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ خواتین کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ اپنی تعلیم، توانائی اور مہارت کو مردوں کے ساتھ مل کر ملک کی اقتصادی ترقی اور تعلیمی میدان میں لگا سکیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنی نسلوں کی بہترین پرورش کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے ذمے اولاد کی بہترین تربیت و پرورش جیسا عظیم اور اہم کام لگایا ہے۔ عورت گھر کی ملکہ ہوتی ہے، اس لیے اس کی ذمے داری ہے کہ اپنے خاندان کے لوگوں کی دیکھ بھال کرے اور ان کے آرام و سکون کا خیال رکھے۔
دوسرے ممالک کی طرح پاکستانی خواتین بھی زندگی کے ہر شعبے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ دنیا میں پاکستان کو کامیاب ملک منوانے کے لیے ہمیں تعلیم، صحت، دفاع، سائنس، انجینئرنگ، میڈیا اور سیاست میں خواتین کی عملی شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔ اللہ نے مرد کو صرف جسمانی طور پر عورت سے زیادہ طاقتور بنایا ہے، باقی ہر لحاظ سے مرد اور عورت برابر ہیں، پھر عورت باعزت طریقے سے اپنی روزی یا آمدنی کا ذریعہ کیوں نہیں پیدا کرسکتی! کچھ خواتین کی ہمت اور مسلسل جدوجہد کی وجہ سے ملک میں عورتوں کے لیے آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے۔ آج وہ مختلف شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ سیاست میں بھی بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں کچھ طبقات کے مرد عورت کی آزادی کے خلاف ہیں۔ ان کو ہمیشہ اپنا ماتحت سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کو یہی سکھایا گیا ہے کہ عورت مرد کے برابر نہیں ہے۔ وہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عورت صرف گھر میں رہنے والی ایک بیوی ہو جس کا کام صرف ان کے گھر، بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ میں نے ایسی بہت سی محنتی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین دیکھی ہیں جو صرف گھریلو ذمہ داریاں ادا کررہی ہیں۔ جب ان خواتین سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اتنی محنتی، باصلاحیت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود گھروں میں کیوں بیٹھی ہیں، تو ان کا جواب عموماً یہی ہوتا ہے کہ شوہر اور خاندان کے دیگر افراد کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔ یہ خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو ہمارے مذہب نے عورت کو آج سے چودہ سو سال پہلے دیے ہیں۔ مرد کی اَنا بیوی کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس جتنے یا اس سے زیادہ پیسے کمائے۔ عورت کو اپنے فیصلے خود کرنے کا حق ہے۔ اگر عورت ملازمت کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور اُس قابلیت پر بھی پورا اترتی ہے جو ملازمت کے لیے درکار ہے تو اس کو ملازمت کا اہل سمجھنا چاہیے۔ اگر عورت اپنے گھر اور خاندان سے مالی تعاون کرنا چاہتی ہے تو لوگ اس پر ہنستے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اور اس کی کمائی کو شرم ناک سمجھتے ہیں۔
معاشرے کے بے جا اصولوں کی وجہ سے خواتین کی موجودگی کچھ شعبوں تک محدود نہیں کرنی چاہیے بلکہ اُن کو اُن کے خواب پورے کرنے کے مواقع دینے چاہئیں تاکہ وہ مشکل وقت میں مردوں پر کم انحصار کریں۔ دنیا کے مجموعی اقتصادی بحران کو پیش نظر رکھتے ہوئے خواتین کو آگے آنے کا موقع دینا چاہیے تاکہ وہ اسلام کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر ملک کی ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکیں۔ ہمارا دین عورتوں کو کچھ حدود و شرائط کی پابندی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دیتا ہے جن کو اپنانا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ ہم سب کو مل کر ایسا ماحول بنانا ہوگا جس میں والدین اور شوہر بغیر کسی خوف کے اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو ملازمت کی اجازت دے سکیں۔ مغربی عورت کے مقابلے میں پاکستانی عورت اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے گھر والوں کے آرام کے لیے قربان کردیتی ہے لیکن پھر بھی اس کی زندگی کی کمان مرد کے ہاتھ میں ہوتی ہے جسے وہ جس طرف چاہے گھما دے، جیسے کٹھ پتلی کا مالک کٹھ پتلی کی ہرچال اور موڈ کو کنٹرول کرتا ہے۔ لیکن عورت انسان ہے، کٹھ پتلی نہیں۔ اس کی اپنی پسند ناپسند، عزائم اور منصوبے ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے، اس کو اس کے کام میں شہرت ملے، بزنس میں کامیابی ملے۔ اس کو زندگی میں ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہے جو اسے سکون مہیا کرے۔ سب سے اہم یہ کہ اسے اپنے آس پاس خاندان کے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی حمایت کریں، اس پر اعتماد کریں اور اس کی کامیابی کو یقینی بنانے میں اس کی مدد کریں۔

حصہ