مغربی دنیا میں سیکولر لوگ بھی وقت کی پابندی‘ مذہبی جوش و جذبے سے کرتے ہیں۔ ان کے یہاں صبح نو بجے اور رات دس بجے کا مطلب صبح نو بجے اور رات دس بجے ہی ہوتا ہے۔ ان کی ریل گاڑی اگر 8 بج کر 8 منٹ پر آتی ہے تو ایک منٹ کی تاخیر بھی اسے Late قرار دے سکتی ہے۔ مغرب کیا مشرق میں جاپان وغیرہ بھی وقت کی پابندیوں کے حوالے سے مشہور ہیں۔ مغرب میں وقت کی پابندی کو نظم و ضبط اور اہلِ مغرب کی زندگیوں میں نظم و ترتیب کی انتہا سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے لوگ مغربی ملکوں سے ہو کر آتے ہیں تو ان کی وقت کی پابندی کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ بلکہ کہنے والے تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ مغرب نے وقت کی پابندی ہم سے سیکھی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ہم وقت کی پابندی کو فراموش کر بیٹھے اور اہلِ مغرب نے اسلام کے سکھائے ہوئے اس سبق اور مسلمانوں کی اس روایت کو نہ صرف یہ کہ یاد رکھا بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا ہے۔ مسلمانوں کو اِس وقت جو ’’کمالات‘‘ حاصل ہیں ان میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ ہمیں مغرب کی ہر خوبی اپنی ایجاد نظر آتی ہے۔ لیکن مغرب میں وقت کی پابندی کیا واقعتاً کوئی انسانی خوبی اور عظیم بشری وصف ہے؟
اس سلسلے میں مغرب کے ممتاز ماہر ِ عمرانیات ایلون ٹوفلر کی بات سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ ٹوفلر نے اپنی معرکہ آراء تصنیف Future Shock میں لکھا ہے کہ مغربی دنیا میں گھڑیوں کی ایجاد و ارتقاء اور وقت کی گھنٹوں‘ منٹوں اور سیکنڈوں میں تقسیم صنعتی انقلاب‘ صنعتی زندگی اور کارخانوں کی ضرورت کی رہین منت ہے۔ چنانچہ اس نے وقت کے رائج تصور کو Industrial Time یا ’’صنعتی وقت‘‘ کا نام دیا ہے۔ ٹوفلر کا مطلب یہ ہے کہ اگر محنت کش ٹھیک آٹھ بجے فیکٹری پہنچ جاتے ہیں تو اس میں فی نفسہ کوئی عظمت نہیں بلکہ صنعت کار کے صنعتی اور تجارتی مفاد کا تقاضا یہی ہے۔ رہیں زندگی کی دوسری سرگرمیاں اور ان کے اوقات تو ان کا تعین بھی مغربی دنیا میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں ہی سے ہوتا ہے۔ ٹوفلر نے وضاحتاً کہا ہے کہ وقت کے اس تصور کا خالص زرعی معاشرے میں کوئی وجود نہیں تھا۔
ٹوفلر کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے وقت صبح‘ شام اور ات یا ’’پہروں‘‘ میں تقسیم تھا اور 24 گھنٹوں میں پہروں کی کل تعداد آٹھ تھی۔ چار پہر دن کے اور چار پہر رات کے۔ یہ وقت کا قدرتی یا فطری تصور تھا اور اس تصور پر یا تو فطری مظاہر کی چھاپ تھی یا اس سے بھی بڑھ کر مذہب کی۔
اس کی بہترین مثال اسلام ہے۔ اسلام میں وقت کا تعین عبادات بالخصوص نمازوں کے حوالے سے ہوتا ہے۔ فجر‘ ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور ان کے درمیان موجود نفلی نمازیں‘ اشراق‘ چاشت‘ صلوٰۃ الیل‘ تہجد۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو وقت بھی مذہبی ہے اور اس کے پہر بھی۔ یہ تو ایام کی بات ہے۔ مہینوں کی اہمیت اور تقدیس بھی مذہب ہی سے متعین ہوتی ہے۔ شعبان‘ رمضان‘ محرم الحرام ۔اور مہینے کیا اسلام میں کلینڈر کی ابتداء کا تناظر بھی مذہبی ہے۔ اسلامی کیلنڈر اسلامی تاریخ کے کسی بھی اہم واقعہ سے شروع ہو سکتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت ۔ پہلی‘ وحی کے نزول سے‘ معراج مبارک سے۔ لیکن حضرت عمرفاروقؓ نے اس کے لیے ہجرت کے واقعہ کو پسند فرمایا اور اس پر اجماع ہوگیا۔ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی کلینڈر اگر وحی یا معراج کے واقعہ سے شروع ہوتا تو اسلامی تاریخ اور اس کے مزاج پر اس کا گہرا اثر پڑتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہجرت سے کلینڈر کے آغاز نے ہمارے اجتماعی مزاج پر اثر ڈالا ہے۔
یہ صرف اسلام اور اسلامی تاریخ کا معاملہ نہیں‘ دیگر مذاہب کی تاریخ بھی کم و بیش یہی ہے۔ مثال کے طور پر ہندوازم میں بھی پوجا کے اوقات طے ہیں‘ ان کے مہینے یا تو ان کے تہواروں ہولی اور دیوالی سے متعین ہوتے ہیں یا پھر موسموں اور فصلوں سے۔ یہودیت اور عیسائیت کی تاریخ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ظاہر ہے وقت کے اس تصور میں صنعتی و تجارتی وقت کی سی قطعیت یا Exactness تو نہیں ہے لیکن اس میں عظمت و رفعت بہت ہے۔
مغرب میں بات صنعتی وقت سے شروع ہوئی تھی۔ صنعت نے تجارت کو فروغ دیا تو صنعتی وقت کے ساتھ تجارتی وقت بھی ایجاد ہوگیا۔ ابتداء میں سرگرمیاں تجارتی ہوئیں اور اب ملاقاتیں بھی تجارتی ہوتی ہیں بلکہ کھانے تک میں تجارت داخل ہوگئی ہے۔ چنانچہ وہاں تجارتی ظہرانے اور تجارتی طعام کا تصور عام ہے۔ یہ معاملات کی وہ سطح ہے جہاں صنعت و تجارت مذہب کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں اور جہاں اقبال کے بقول بینکوں کی عمارتیں گرجوں کی عمارتوں سے بھی اہم ہوجاتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب میں وقت اور اس کی پابندی اہم ہونے کے باوجود اس حُسن و جمال اور اس عظمت و تقدیس سے محروم ہوجاتی ہیں جو اس کے ساتھ وابستہ کرلی گئی ہے۔
ظاہر ہے کہ وقت کا وہ تصور جس کی خدا خود قسم کھاتا ہے اور جس سے عبادات کا نظام منسلک ہے اور جو فطری مظاہر سے جوڑا ہواہے‘ وہ وقت کے اس تصور سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا جس کا تعلق صرف صنعت و تجارت اور سرمائے سے ہو۔
یہ شکایت عام ہوتی چلی جارہی ہے کہ وقت میں برکت نہیں رہی۔ غور کرنا چاہیے کہ کہیں اس کی ایک وجہ یہ تو نہیں ہے کہ ہمارا وقت بھی صنعتی اور تجارتی ہوتا چلا جارہا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مال کا عیب نہ بیان
کرنے سے مال تو بک جاتا ہے مگر برکت جاتی رہتی ہے۔