عملی زندگی کے حوالے سے ایک بنیادی مسئلہ تقریباً تمام ممالک اور معاشروں میں یکساں ہے … کیریئر کا انتخاب۔ نئی نسل کیریئر کے انتخاب کے معاملے میں بالعموم غچے کھاتی رہتی ہے۔ کسی بھی ریاست یا معاشرے کی نئی نسل کے لیے کیریئر کا انتخاب انتہائی دشوار مرحلہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس مرحلے میں بالعموم جذباتیت کا شکار ہوکر ایسے فیصلے کر بیٹھتی ہے جن پر اُسے بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ نئی نسل کا یہ چلن پوری دنیا میں عام ہے۔
بیسیوں معاشرے ایسے ہیں جنہوں نے کیریئر کے انتخاب کے حوالے سے اپنی نئی نسل کی راہ نمائی کا اچھا خاصا اہتمام کررکھا ہے، مگر پھر بھی مشکلات بہت حد تک برقرار رہتی ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں عملی زندگی شروع کرنے کے لیے غیر معمولی نوعیت کے انتہائی پُرکشش مواقع اچھے خاصے تناسب سے موجود ہوتے ہیں مگر پھر بھی اِن معاشروں کی نئی نسل کہیں نہ کہیں الجھتی ہے، کیریئر کے انتخاب میں دشواریوں کا سامنا کرتی ہے۔
٭ انتخاب کا مرحلہ ناگزیر ہے
عملی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے کیریئر کا انتخاب ایسا مرحلہ ہے جس سے ہر نوجوان کو گزرنا ہی پڑتا ہے۔ عملی زندگی کی شاہراہ پر بے سمت سفر نہیں کیا جاسکتا۔ سمت بھی طے کرنا پڑتی ہے اور منزل بھی۔ سوچے سمجھے بغیر بڑھتے چلے جانے کا نام زندگی ہے نہ عمل۔ نئی نسل کے لیے کیریئر کا انتخاب انتہائی پیچیدہ مرحلہ اِس لیے ہے کہ کوئی معقول فیصلہ انتہائی نوعیت کی احتیاط اور تفکر کا طالب ہوتا ہے۔ امکانات کی دنیا ہر انسان کے اردگرد بسی ہوئی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں تمام امکانات کبھی دم نہیں توڑ چکے ہوتے۔ خانہ جنگی والے علاقوں سے ہٹ کر دنیا بھر میں جتنے بھی علاقے ہیں وہاں معاملات بہت حد تک قابو میں رہتے ہیں اور کسی بھی انسان کے لیے معاشی تگ و دَو کا میدان سجا رہتا ہے۔ معاشرہ ترقی یافتہ ہو یا پس ماندہ… امکانات کی کھیتی بہت حد تک ہری رہتی ہے۔ جو لوگ مواقع کا رونا روتے نہیں تھکتے اُن کے اردگرد بہت کچھ تبدیل ہورہا ہوتا ہے اور اُن جیسے بہت سے لوگ کچھ پانے لیے امکانات تلاش کرکے بہتر زندگی کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں اگر حالات کا رونا رونے والوں کی توجہ، زیادہ توجہ کے ساتھ محنت کرنے والوں کی طرف دلائیے تو اُن کے پاس آئیں بائیں شائیں کرکے جان چُھڑانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
٭ نئی نسل الجھے بغیر رہتی نہیں
نئی نسل امنگوں کا جھولا جھولتی رہتی ہے۔ اُس کی رگوں میں گرم خون رواں رہتا ہے۔ جسمانی توانائی ذہن کو بھی تر و تازہ رکھتی ہے۔ عنفوانِ شباب کی حالت میں انسان پوری دنیا کو مٹھی میں لینا چاہتا ہے، تارے توڑ لانے کی باتیں کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اگرچہ کبھی کبھی بہت مضحکہ خیز لگتا ہے مگر غیر فطری نہیں ہوتا۔ جب رگوں میں دوڑتا ہوا خون گرم ہو، جسم بہت اچھی حالت میں ہو، توانائی کا گراف بلند ہو اور ذہن بہت سے معاملات پر سوچ رہا ہو، امکانات تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہو تب انسان جو کچھ سوچتا اور کہتا ہے وہ واقعی ایسا ہوتا ہے کہ معاملات اِس دنیا سے باہر کے لگتے ہیں۔
٭ امکانات نے کبھی دم نہیں توڑا
دنیا ہمیشہ ایسی ہی تھی۔ امکانات نے کبھی دم نہیں توڑا اور عملی زندگی میں قدم رکھنے والوں کے لیے مشکلات کبھی کم نہیں ہوئیں۔ ہر معاشرے میں کل بھی ایسا ہوتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب فطری علوم و فنون میں حیران کن ترقی نہیں ہوئی تھی تب بھی، اور اب جبکہ یہ ترقی انتہائی حیران کن ہے، تب بھی کیریئر کے انتخاب کا معاملہ پریشان ہی کرتا ہے۔ اور اس پریشانی سے نپٹنے کا طریقہ ہی طے کرتا ہے کہ انسان کیا اور کیسے کرے گا۔
٭ ہر عہد چند پریشانیاں بھی لاتا ہے
آج کی دنیا بہت الجھی ہوئی ہے۔ ہر دور کے انسان کو ایسا محسوس ہوتا رہا ہے کہ جیسی الجھنیں اُس کے حصے میں آئی ہیں ویسی کسی اور زمانے کے انسان کو نہیں ملیں۔ بات ایک خاص حد تک درست ہے، مگر معاملہ یہ ہے کہ ہر دور اپنے ساتھ فطری علوم و فنون کی ترقی اور اُس کے پہلو میں بہت سی مشکلات لے کر وارد ہوتا ہے۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلتا رہا ہے۔ ہر عہد اپنے نصیب میں لکھی جانے والی نئی نسل کو پریشانی سے دوچار کرتا ہی ہے۔ یہ پریشانی اپنے اندر ایک خاص حد تک تعمیری پہلو بھی رکھتی ہے۔ اگر نئی نسل کو سب کچھ آسانی سے مل جائے تو پھر اُس کے لیے ڈھنگ سے کام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ کیریئر کے انتخاب میں پیش آنے والی الجھن ہی نئی نسل کو آزماتی ہے، اُسے اپنی صلاحیت و سکت کا احساس دلاتی ہے۔
٭ کیریئر کا انتخاب کبھی آسان نہیں رہا
کسی بھی دور کی نئی نسل کو کیریئر کے انتخاب میں من چاہی آسانی یا سہولت میسر نہیں رہی۔ ہر دور میں نئی نسل کو عملی زندگی شروع کرتے وقت بہت سے مواقع اور امکانات میں سے اپنی پسند اور صلاحیت و سکت سے مطابقت رکھنے والے مواقع کے انتخاب کا مرحلہ درپیش رہا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ ہر معاشرے میں نئی نسل کا ذہن عملی زندگی کی ابتدا کرتے ہوئے الجھتا ہی ہے اور ذہن کی الجھن کو دور کرنے کی سعی کے دوران ہی وہ ڈھنگ سے عملی زندگی شروع کرنے کے قابل ہو پاتی ہے۔ آج معاملہ بہت مختلف اور پیچیدہ تر اِس لیے ہے کہ ٹیکنالوجیز نے دنیا کو سمیٹ دیا ہے۔ فاصلوں کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی کیونکہ رابطے انتہائی آسان ہیں۔ مواقع بھی بے شمار ہیں۔ ٹیکنالوجیز نے کئی شعبوں کی جڑ کاٹ دی ہے تو دوسرے کئی شعبوں میں امکانات بڑھادیے ہیں۔ نئے امکانات زیادہ مشاہرے یا اجرت والے ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے کام کرنے کی صورت میں انسان دس گنا تک کما لیتا ہے۔ زمانے سے ہم آہنگ ہوکر چلنے کی صورت میں عملی زندگی آسان ہوجاتی ہے۔
٭ آج کی نسل کے لیے زیادہ راہ نمائی
گزرے ہوئے تمام زمانوں کے مقابلے میں آج کی (نئی) نسل کو زیادہ راہ نمائی درکار ہے، اور ایسا اس لیے ہے کہ گزرے ہوئے تمام زمانوں کی مادی ترقی اور علمی و عملی رجحانات ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ انسان نے چار پانچ ہزار سال کے فکری عمل میں جو کچھ بھی پایا ہے اور کیا ہے وہ اب ایک جگہ جمع ہے، یعنی آج کی نسل کے سامنے ہے۔ بہت سے معاملات میں انتہائی درجے کی آسانیاں ہیں اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ اِن آسانیوں ہی نے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ کسی بھی کام کو کرنے کے بیسیوں راستے اور طریقے ہیں۔ اب سوال راستہ ڈھونڈنے کا نہیں بلکہ موجود راستوں میں سے درست ترین راستے کا انتخاب ہے۔ یہ مرحلہ انتہائی دشوار ہے کیونکہ زمانہ بہت تیزی سے کروٹیں بدل رہا ہے۔ بہت سی چیزیں آتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے فرسودہ یا ازکارِ رفتہ ہوجاتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں پیش رفت کا بازار گرم ہے۔ اِس کے نتیجے میں امکانات بڑھ گئے ہیں۔ امکانات اور مواقع کے بڑھنے سے نئی نسل کے لیے کیریئر کا انتخاب انتہائی الجھ چکا ہے۔ ہر نوجوان چاہتا ہے کہ وہ کچھ ایسا کر دکھائے کہ لوگ عش عش کر اٹھیں۔ دوسروں سے ہٹ کر اور کچھ زیادہ کرنے کی دُھن میں بیشتر نوجوان بھول جاتے ہیں کہ اُن کی بھی ایک حد ہے اور امکانات کی بھی بہرحال ایک حد ہے۔ کہیں نہ کہیں تو ٹھیرنا ہی ہے۔ جدت طرازی کی گرم بازاری نے معاملات کو کہیں سے کہیں پہنچادیا ہے۔
پاکستان کا شمار اُن گنے چُنے ممالک میں ہوتا ہے جن کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ یہ بہت بڑا پلس پوائنٹ ہے مگر ہم اِس کیفیت کا بھرپور فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے منصوبہ سازی نہیں کی۔ ہم نے اپنی نئی نسل کو مثالی افرادی قوت میں تبدیل کرنے کے حوالے سے اب تک ایسا کچھ نہیں کیا جس کی بنیاد پر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکے کہ اب ملک کے لیے بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ نئی نسل بے سمت سی ہے۔ کچھ لوگ اپنے بل پر مواقع تلاش کرکے محنت کررہے ہیں، مگر مجموعی طور پر بے راہ روی ہے اور بے ذہنی بھی نمایاں ہے۔ نئی نسل کے لیے معقول ترین انداز سے راہ نمائی کا اہتمام کرنا حکومت کا بھی فرض ہے اور معاشرے کا بھی، مگر دونوں ہی محاذوں پر کچھ خاص نہیں کیا جارہا۔
ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو نئی نسل کی راہ نمائی کریں، اُنہیں بتائیں کہ کون کون سے شعبوں میں کیریئر بنانے کو ترجیح دی جانی چاہیے، کون سی ملازمتیں عنقریب یا تو ختم ہوجائیں گی یا اُن سے زیادہ یافت ممکن نہ ہوسکے گی، کون سے نئے شعبے تیزی سے ابھر سکتے ہیں اور کون سے شعبے موجود تو رہیں گے تاہم اُن میں نمو کی گنجائش برائے نام رہ جائے گی۔
٭ معیاری افرادی قوت کی برآمد
دنیا بھر میں تارکینِ وطن سے بیزاری عام ہے۔ امریکا اور یورپ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک اور خطوں میں تارکینِ وطن کو عمومی سطح پر زیادہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جارہا، مگر ہمیں یہ نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ اور ہنرمند تارکینِ وطن ہر ترقی یافتہ ملک کی ضرورت ہیں۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں نئی نسل کا تناسب یا تو کم ہے یا پھر اُس کی صلاحیت و سکت مطلوبہ معیار کی نہیں۔ امریکا میں تارکینِ وطن کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے مگر حکومت کو خود بھی احساس ہے کہ دنیا بھر سے صلاحیت اور لگن کے حامل نوجوانوں کو بلانا اُس کی ضرورت ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایچ ون بی ویزا کا اجرا بند نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہی حال کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا، جاپان، ملائشیا، ترکی وغیرہ کا بھی ہے۔
پاکستان کی نئی نسل انتہائی باصلاحیت ہے۔ وہ بہت سے ہنر خود سیکھ لیتی ہے۔ اچھا ہے کہ حکومت اُنہیں اچھی طرح تیار کرکے ترقی یافتہ ممالک روانہ کرے۔ کئی ممالک معیاری افرادی قوت کی برآمد کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ اِن میں بھارت نمایاں ہے۔ ہمارے پڑوس میں حکومت نئی نسل کو بیرونِ ملک کام کرنے کے لیے پوری جاں فشانی سے تیار کرتی ہے، اور اب یہ معاملہ قومی خزانے کو مضبوط کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بھی ثابت ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں بھارت کے نالج ورکرز، ہنرمند اور مزدور کام کررہے ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد بھارتی باشندے ترقی یافتہ ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور اُن کی محنت سے پیدا ہونے والی ترسیلاتِ زر نے بھارتی خزانے کو قابلِ رشک حد تک مستحکم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کو افرادی قوت کی برآمد کے حوالے سے تیاریاں کرنی چاہئیں اور نئی نسل کی ایسی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ بیرونِ ملک جاکر اچھی طرح کام کرے اور ملک کے لیے زرِمبادلہ کے ساتھ ساتھ نیک نامی بھی کمائے۔
کیریئر کے انتخاب میں نئی نسل کی معقول راہ نمائی کے ذریعے اُسے بیرونِ ملک کام کرنے کے لیے احسن طریقے سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں پڑھے لکھے، سیکھے ہوئے اور ہنرمند نوجوانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام ہی ترقی یافتہ ممالک کو اعلیٰ مہارت کے شعبوں میں تربیت یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ یہ اُن کے فائدے کا معاملہ ہے، اس لیے ایسے نوجوانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک ترقی یافتہ معاشروں کی اِس بنیادی ضرورت کو نظرانداز کرکے معقول امکانات کو نظرانداز کررہے ہیں۔
نئی نسل کو بہترین یا معقول ترین کیریئر کے لیے تیار کرنا اور افرادی قوت کی برآمد کے حوالے سے اُن میں ویلیو ایڈیشن کرنا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں نئی نسل کو زیادہ سے زیادہ مہارت کا حامل بنانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اِس حوالے سے کام ہو تو رہا ہے مگر بہت حد تک ناکافی ہے۔ لازم ہے کہ حکومت پوری توجہ کے ساتھ یہ کام کرے۔ اس حوالے سے ادارے بھی بڑھانے ہوں گے اور اُن کی کارکردگی کا گراف بھی بلند رکھنا ہوگا۔ نئی نسل بہت کچھ کرنا چاہتی ہے مگر راہ نہ ملنے پر وہ جہاں ہوتی ہے وہیں رہتی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول میں نئی نسل کو جدید ترین مہارتوں سے متصف کرنا وقت کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ہے۔ بھارت سمیت بہت سے ترقی پزیر ممالک کی حکمتِ عملی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ کیریئر کے انتخاب سے افرادی قوت کی برآمد تک بہت کچھ کرنا ہے اور فوری طور پر کرنا ہے۔ یہ سب کچھ معقول منصوبہ سازی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ نئی نسل کو نالج ورک کے شعبے میں کیریئر بنانے پر متوجہ کرنا ہوگا تاکہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہو اور ملک سے باہر خدمات انجام دے کر دولت کے ساتھ ساتھ نیک نامی بھی کمائے۔