خواجہ غلام محی الدین رہبرؒ

229

تاریخ صحافت کشمیرکا درخشاں باب،39ویں برسی پر شاندار خراج عقیدت
وفات 11 جنوری 1986

آدم خور دیو کی طرح کشمیری مسلمانوں کو ستاتا اور کھاتا آرہا مسئلہ کشمیر، اور اس کی کوکھ سے جنم لیتے آرہے دیگر مسائل کے حوالے سے ہوسکتا ہے کہ موجودہ نسل یہ سمجھتی ہو کہ یہ مسائل بس انہیں ہی درپیش ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جموں وکشمیر کے مسلمان دہائیوں سے ظلم کی چکی میں پستے آرہے ہیں۔ آج جب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنا سب کچھ دائو پر لگاکر اپنی مظلوم قوم سے دادِ تحسین پاتی ہے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ اس سے پہلے اس قوم میں غیرت مند نوجوانوں،کارکنوں یا رہنما ئوں نے شاید جنم ہی نہیں لیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ظالموں نے گہرے اور وسیع مقاصد کے لیے جموں وکشمیر کی تاریخ کو کچھ اس طرح پیش کیا ہے بلکہ اس طرح ’’محفوظ‘‘کیا ہوا ہے کہ اس میں شیخ عبداللہ کی سودے بازی کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قوم کی مائیں پہلے بھی غیرت مندوں اور نہ بکنے اور نہ جھکنے والی روحوں کی جنم دیتی رہی ہیں۔ ہاں، آج کے جموں وکشمیر میں ماضی کے کشمیر کی بات کی جائے تو سودے بازی کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا، لیکن چودھری غلام عباس ہوں یا غلام محی الدین رہبر جیسے ان کے ساتھی… انہوں نے یقیناً مسلمانانِ کشمیر کے حقوق کے لیے مقدور بھر کوششیں کی ہیں اور سمجھوتا کیے بغیر دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ غلام محی الدین رہبر کی پوری زندگی پر نظر ڈالی جائے تو مسلمانانِ جموں وکشمیر کی حق تلفی، زبوں حالی، ان پر ہونے والے مظالم پر وقتاً فوقتاً اس قوم کی جانب سے کی جاتی رہی مزاحمت اور جدوجہد کے نشان بھی معلوم ہوجاتے ہیں۔ رہبر صاحب دراصل جموں کے باشندے تھے لیکن وہ نہ صرف وادی میں آکر یہاں رچ بس گئے تھے بلکہ کشمیر کی تاریخ کے کئی اوراق کے اس حد تک مستند اور مضبوط گواہ بنے کہ ان کا نام لیے بغیر تاریخ کے اس حصے کا تذکرہ نامکمل تصور کیا جائے گا۔

رہبر صاحب کا خاندان در اصل کٹھوعہ جموں میں آباد تھا۔ ان کے دادا غفور الدین منہاس نے کٹھوعہ سے ہجرت کرکے سرینگر آکر بٹہ مالنہ میں سکونت اختیار کرلی۔ غلام محی الدین رہبر کا جنم 4 مارچ 1904ء کو ہوا۔ مشن اسکول سرینگر میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی، پڑھنے کا بہت تھا، لیکن خاندان کی مالی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرپاتے۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے تعلیمی سفر کو مختصر کرکے کم سنی میں ملازمت کے لیے خاصی تگ و دو کی۔ ڈوگرہ شاہی میں پڑھے لکھے کشمیری مسلمانوں کے لیے ملازمت کا حصولِ اور وہ بھی سرکاری، مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ ایسے میں جو آدمی مسلمان ہو اور وہ بھی کم پڑھا لکھا، وہ سرکاری ملازمت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تاہم محی الدین صاحب کے لیے کسی طرح مہاراجا ہری سنگھ کے یہاں سفارش لگی اور وہ مہاراجا کے ’’اسٹیٹ بینڈ‘‘کے نام سے موسوم بینڈ بجانے والے دستے سے وابستہ ہوگئے۔ مہاراجا کے اس بینڈ میں مسلمانوں کی تعداد محدود تھی، البتہ محی الدین صاحب سے قبل کلائے اندر سرینگر کے سکندر خان بھی اس بینڈ میں ملازم تھے جو بعدازاںمحی الدین صاحب کے اچھے دوست بن گئے۔ چونکہ ڈوگرہ حکمران گرمیوں کے چھ ماہ سرینگر میں اور سردیوں کے چھ ماہ جموں میں گزارتے تھے، لہٰذا ان کا عملہ بھی دربار مو کرتا تھا۔

جموں وکشمیر کے مسلمان اگرچہ مدتوں سے غلامی اور مظلومی کی زندگی بسر کرتے آئے ہیں اور انہوں نے غیر مسلموں کے ماتحت مشکل حالات میں عمر گزاری ہے لیکن مذہب کے ساتھ جذباتی حد تک اس قوم کی وابستگی بھی پرانی ہے۔ جموں میں قیام کے دوران محی الدین اور سکندر خان نے ایک مسجد بنانے کی ٹھان لی، ایک تو اس لیے کہ وہ اس میں نماز پڑھا کریں، اور دوسرے یہ کہ یہاں وہ اپنی یادگار رکھنا چاہتے تھے۔ دونوں کے اس منصوبے کا اُن کے انگریز بینڈ ماسٹر کو علم ہوا تو اس نے ان دونوں کی اوپر جاکر شکایت کی۔ مہاراجا نے دونوں کی جانب سے مسجد بنانے کے منصوبے کو، جس کا ابھی عمل میں آنا باقی تھا، ناقابلِ معافی گناہ تصور کرتے ہوئے نہ صرف ان دونوں دوستوں کو نوکری سے نکال باہر کیا بلکہ مزید سزا کے طور پر انہیں سینٹرل جیل جموں بھیج دیا گیا۔ یہ ان دونوں کے لیے زندگی کی پہلی غیر معمولی بات تھی اور انہوں نے مسجد بنانے کے بارے میں سوچنے کے جرم میں دو سال کی قید کاٹی۔ رہائی کے بعد دونوں واپس سرینگر آگئے۔

محی الدین صاحب نے اب نوکری کے بجائے کاروبار کی طرف توجہ دی، لیکن اس حوالے سے چونکہ کوئی تجربہ نہ تھا، اس لیے کوئی کاروبار راس نہ آیا اورکاروباری دنیا میں ٹک نہ سکے۔ چنانچہ تنگ آمد بہ جنگ آمد اپنے دوست سکندر خان کو ساتھ لے کر لاہور چلے گئے۔ لاہور میں انہیں برٹش آرمی میں نوکری مل گئی، جہاں وہ چارسال تک ملازمت کرنے کے بعد 1927ء کے آس پاس لاہور سے واپس آگئے۔ کشمیر واپسی پر وہ مسلسل دو سال تک بالکل بے کار پڑے رہے، جس کے بعد 1929ء میں اسلامیہ ہائی اسکول راجوری کدل میں فزیکل یعنی ڈرل ماسٹر کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب اس اسکول میں شیخ عبداللہ سائنس ماسٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔ لاہور میں برٹش آرمی میں کام کے دوران انہوں نے وہاں جو اثاثہ بنایا تھا، اس میں کچھ کپڑے اور ایک کیمرہ تھا۔ ایک دن اسلامیہ اسکول میں انہوں نے بچوں کو یہ کیمرہ دکھایا اور بتایاکہ اس سے کسی بھی آدمی کی ہو بہو تصویر اتاری جاسکتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اکثر بچے پہلی بار یہ’’عجوبہ‘‘دیکھ رہے تھے۔ کئی ایک نے تصویر بنوانے کی خواہش ظاہر کی، چناچہ کئی بچوں نے ایک آنہ دے کر تصویریں بنوائیں۔ اس دوران محی الدین صاحب میں فوٹوگرافی کا شوق بڑھ گیا، کچھ مدت کے بعد انہوں نے ڈرل ماسٹری چھوڑ دی اور گائوں کدل میں واحد فوٹو گرافی کی دکان پر، جس کے مالک گوپی ناتھ کول تھے، باضابطہ فوٹوگرافی کا کام سیکھنا شروع کیا۔ بعدازاں انہوں نے1930ء میں چھ روپیہ ماہانہ کرایہ پر اپنی دکان لی اور فوٹو گرافی کا کاروبار شروع کیا۔ چنانچہ یہ فوٹوگرافی کا کام ہی تھا کہ جس نے محی الدین صاحب کی زندگی کو نئی طرح دی اور وہ فکرِ معاش کے لیے مختلف سمتوں میں دوڑ بھاگ کرنے والے ایک عام شخص سے اُن خواص میں بدل گئے کہ جنہوں نے کشمیری تاریخ کی کئی اہم پیش رفتوں یا کئی حادثوں کو ہوتے دیکھا بلکہ کہیں نہ کہیں خود بھی تاریخ کی ان تبدیلیوں میں حصہ ڈالا۔

13 جولائی1931ء کو جب سینٹرل جیل سرینگر کا خونیں واقعہ رونما ہوا، چند نوجوان دوڑتے بھاگتے محی الدین صاحب کی دکان پر آگئے اور انہیں کیمرہ ساتھ لے کر سینٹرل جیل کے پاس لے آئے تاکہ وہ ان شہداء اور زخمیوں کی تصویریں لے سکیںجو اس تاریخی واقعے کا شکار ہوگئے تھے۔ غلام محی الدین رہبر نے فوٹو گرافی کی مختصر زندگی میں جتنے بھی فوٹو لیے تھے وہ سب کے سب زندگی سے متعلق تھے، آج اچانک ان کے سامنے جو منظر تھا وہ دل دہلادینے والا تھا۔ خون میں لت پت انسان، سڑک پر بکھری لاشیں، زخمیوں کی کراہیں اور انسانیت کی بے بسی… ظلم کی یہ انتہا دیکھ کر محی الدین صاحب سکتے میں آئے، ایک طرف ان کے گویا ہوش و حواس ہی اڑ گئے تھے اور وہ خلافِ توقع یہ خونیں منظر دیکھ کر سہم گئے تھے، تو دوسری جانب وہ اس منظر کو کیمرے میں قید کرکے ہمیشہ کے لیے حوالۂ تاریخ کرنے کو اپنا فرض سمجھ کر تصویریں اتارنے لگے۔ جمِ غفیر میں چیخ پکار کے دوران انہوں نے اپنے پیشے کی لاج رکھ کر ہر شہید اور ہر زخمی کی وہ تصویریں لیں جو نہ صرف کشمیر کی خونیں تاریخ کا اہم حصہ ہیں بلکہ خود محی الدین صاحب کی زندگی کے اس اہم واقعے کی یادگار بھی ہیں۔

چنانچہ سینٹرل جیل کے اس واقعے کی تصویریں انہوں نے ایک پیشہ ور فوٹوگرافر کے بطور لیں، لیکن اس واقعے نے محی الدین کو گویا جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کی سوچ اور زندگی کو نئی سمت دی۔ انتہائی جذباتی ہوکر انہوں نے سرِ راہ پڑے شہیدوں کے سرخ لہو سے مخاطب ہوکر عہد کرلیاکہ ڈوگرہ شاہی کے خلاف لڑنے کے لیے وہ بھی میدان کارِ زار میں اتر جائیںگے۔ اس عہد کے ساتھ ہی وہ ایک باغی بن گئے۔ یہ محی الدین رہبرکی زندگی کا نیا دور تھا۔ تاہم بغاوت کرنے کا جو فیصلہ انہوں نے لیا تھا وہ جلد ہی ان آزمائشوں کا متقاضی ہوگیا کہ جو ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے کسی بھی شخص کے راستے میں آکر ہی رہتی ہیں۔ بغاوت کے جرم میں بھیم سین سنگھ کی عدالت میں انہیں تین ماہ قیدِ سخت سنائی گئی اور دو سو روپے جرمانہ بھی کیا گیا۔ جب یہ قیدی جرمانہ ادا نہ کرسکا تو سرکاری کارندے گھر کا اثاثہ، جس میں کھانے پینے کے برتن، کپڑے اور پاکستانی نمک کی ایک سیر کی ڈلی بھی شامل تھی، ضبط کرکے لے گئے۔ چناچہ اس آزمائش کی وجہ سے محی الدین صاحب کا جذبہ نہ صرف اور جوش میں آگیا بلکہ ان کے خیالات میں پختگی کے ساتھ ساتھ سنجیدگی بھی آگئی اور انہوں نے ظلم کے خلاف مزید مؤثر انداز میں کام کرنے کے لیے اخبارات اور پملفٹ بانٹنے کا کام اپنے ذمہ لیا۔ اسی دوران وہ دوبارہ گرفتار ہوئے اور اِس مرتبہ چھ ماہ قید کی سزا کاٹی۔ ’’کوئٹ کشمیر تحریک‘‘کے دوران چودھری غلام عباس، اللہ رکھا ساغر، اور منشی یعقوب علی کے ساتھ انہیں بھی تقریباً ڈیڑھ سال تک قید میں رکھا گیا۔

قیدوبند کی صعوبتوں سے خوف زدہ ہوئے بغیر محی الدین رہبر تحریک کے ساتھ مزید مصروف ہوتے گئے، چنانچہ مسلم کانفرنس کے لیڈر اُن کے گھر میں خفیہ میٹنگ کرتے تھے۔ دراصل13جولائی1931ء کے واقعے کے بعد تحریک ہی اُن کا اوڑھنا بچھونا بن گئی تھی۔ چونکہ 13 جولائی1931ء کے محی الدین صاحب کے شہیدوں کے، لیے ہوئے فوٹو ریاست اور ریاست سے باہر مختلف اخباروں اور رسالوں میں شائع ہوکر ایک طرف کشمیریوں پر ہورہے اس ظلم کو کسی حد تک اجاگر کرگئے تھے، دوسری جانب ان تصاویر کی شہرت نے محی الدین صاحب کے اندر اخبار نکالنے کا خیال ابھارا تھا۔

ڈوگرہ شاہی کے دور میں اخبار نکالنا، اور جب اخبار کا مقصد بغاوت ہو، اس کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ حکومت کو آمادہ کرنا، زرِ ضمانت کا انتظام اور اس طرح کے دیگر مراحل ایک سے بڑھ کر ایک دشوار تھے۔ البتہ محی الدین صاحب نے یہ ٹھان لی تھی کہ کچھ بھی ہو وہ اخبارنکال کر ہی رہیںگے اور اسے تحریکِ آزادی کا ترجمان بنائیںگے۔ چنانچہ خاصے پاپڑ بیلنے کے بعد 1932ء میں انہیں ’’رہبر‘‘ کے نام سے اخبار کی اشاعت کا اجازت نامہ مل ہی گیا۔ یہ ایک خواب کی تعبیر بھی تھی اور کوششوں کی کامیابی کا مژدہ بھی۔

یہ تمنائوں کے ساتھ نکالے گئے اس اخبار کی کامیابی ہی ہے کہ اس کا نام محی الدین صاحب کے نام کے ساتھ یوں جُڑ گیا کہ جیسے خود اس نام کا حصہ ہی ہو۔

البتہ تحریکِ آزادی میں ان کے رول کے بعد اب ’’رہبر‘‘کی اشاعت محی الدین صاحب کے بار بار گرفتار ہونے کی ایک اور وجہ بن گئی۔ ظاہر ہے کہ رہبرصاحب کے بار بار گرفتار ہونے کی وجہ سے ’’رہبر‘‘ کی اشاعت بھی بار بار رکتی گئی۔ 1932ء میں اخبار ’’رہبر‘‘ کی اشاعت شروع ہوئی تو محض سال بھر بعد ہی 1933ء میں رخنہ پڑا۔ اس طرح 1936ء، 1938ء، 1946ء، 1959ء اور پھر1965ء میں اس اخبار کی اشاعت رک گئی۔ بار بار اخبار کی اشاعت رک جانے سے رہبر صاحب کو دکھ اور افسوس ہوا تو انہوں نے اپنی غیر حاضری میں اخبار کی اشاعت جاری رکھنے کا یہ راستہ نکالا کہ دینا ناتھ مست کو، جو ایک اچھے اہلِ قلم تھے، ذمہ داری سونپی۔ دینا ناتھ مست کے ساتھ نہ صرف رہبر صاحب کے دیرینہ تعلقات تھے بلکہ وہ اول الذکر کے انتہائی بھروسہ مند بھی تھے۔ ایک تصدیق طلب بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ محی الدین صاحب نے دراصل اخبار’’رہبر‘‘ دینا ناتھ مست سے ہی خریدا تھا، لہٰذا اپنی غیر موجودگی میں انہوں نے دینا ناتھ مست کو ہی اشاعت جاری رکھنے کی ذمہ داری سونپی۔

مسلم کانفرنس کے پرچم تلے تحریک ِ آزادی میں سرگرم کردار کے لیے محی الدین رہبر کو بار بار جیل جانا پڑا۔ 1932ء میں اخبار رہبر کی اشاعت کے فوراً بعد ہی انہیں گرفتار کیا گیا۔ رہا ہوئے تو دوبارہ 1932ء میں ہی پھر سے حراست میں لیے گئے۔ اس کے بعد1934ء میں گرفتار کرکے پہلی بار سرینگر سے باہر ریاسی جیل بھیج دیے گئے۔ 1948ء میں پھر گرفتارکیے گئے اور اب کی بار جموںجیل میں رکھے گئے۔ 1959ء اور 1965ء میں سرینگر سینٹرل جیل میں مقید رہے۔ 1965ء کی ہندو پاک جنگ کے بعد صورت ِحال تبدیل ہوگئی، جس کا مفصل خاکہ کھینچنا یہاں مقصود نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی اگرچہ غلام محی الدین رہبر صحافت کے پیشے سے جڑے رہے لیکن یہ وہ دور تھا جب وادی میں تحریکِ مزاحمت کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ تاہم خواجہ رہبر اپنے قلم کی وساطت سے مجروح جذبات کی ترجمانی کرتے رہے۔ بالآخر زمانے کے نشیب و فراز اور اپنوں کے ستم برداشت کرنے کے بعد آسمانِ صحافت کا یہ درخشاں ستارہ 11جنوری 1986ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ البتہ اس دوران وہ اپنے مشن کی اہمیت اور اس سے لگائو کی حدوں کے بارے میں اپنے بچوں تک بات پہنچا چکے ہیں جو ابھی تک ’’رہبر‘‘کی اشاعت کی شکل میں شمع کو فروزاں کیے ہوئے ہیں۔

حصہ