قرآن حکیم مقصد ‘ پیغام اور تقاضے

167

قدرت کا قانون ہے کہ جب تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے‘ تو روشنی اس کا سینہ چیرتی ہوئی رونما ہوجاتی ہے۔ ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں اور فضا نور سے بھر جاتی ہے۔ تاریخ انسانی میں روشنی اور نور کا سب سے بڑا سیلاب ۲۷ رمضان المبارک‘ ۱۳ قبل ہجرت میں رونما ہوا۔

خشکی‘ تری اور بحروبر پر تاریکی کا غلبہ تھا ‘ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم ۳۰:۴۱)۔ ظلم اور فساد سے خدا کی زمین بھر گئی تھی۔ انسان اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر جھوٹے خدائوں کی بندگی کر رہے تھے۔

ارض و سما کے مالک نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے جو ہدایت اور رہنمائی بھیجی تھی‘ انسان نے اس کو گم کردیا تھا۔ نتیجے کے طور پر گمراہی اور ضلالت کا دور دورہ تھا۔ انسان آگ‘ درخت‘ پتھر‘ پانی اور جانوروں تک کی پوجا کر رہے تھے۔ زندگی کے اجتماعی معاملات میں کچھ انسان دوسرے انسانوں کے خدا اور رب بن بیٹھے تھے‘ اور اپنی من مانی کر رہے تھے۔ نیکیاں معدوم ہو رہی تھیں اور برائیاں فروغ پا رہی تھیں۔ نسل‘ قوم اور قبیلے کے بتوں کی پوجا ہو رہی تھی۔ حق‘ انصاف‘ آزادی‘ مساوات اور بندگی رب کو انسانیت ترس رہی تھی۔

یہ تھی وہ دنیا ‘ جس میں خدا کے ایک برگزیدہ بندے‘ انسانیت کے گل سرسبد اور دنیا کے سب سے نیک انسان‘ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھیں کھولیں۔ وہ ظلم کے اس راج اور بدی کے اس غلبے پر حیران و سرگرداں تھا‘ وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ فَھَدٰی (الضحیٰ ۹۳:۷)۔ وہ جھوٹے خدائوں کا باغی اور ایک حقیقی خدا کی بندگی کا جویا تھا۔ دست فطرت نے ۴۰ سال اس کی تربیت فرمائی۔ پھر زمین و آسمان کے مالک نے ایک شب اسے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے آخری نبیؐ کی حیثیت سے مامور فرما دیا۔ وہ غارحرا میں عبادت میں مشغول تھا کہ خدا کا فرشتہ‘ اس کا امین‘ اور پیام بر رونما ہوا۔ بندگی میں مشغول بندے کو سینے سے لگایا‘ اسے خوب بھینچا اور رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض کی طرف سے پہلی وحی اس پر نازل کی:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۵) ’’پڑھو (اے نبیؐ)‘ اپنے رب کے نام سے جس نے (ساری چیزوں) کو پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔ پڑھو‘ اور تمہارا رب بڑا کریم ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘ اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں‘ جو اس کو معلوم نہ تھیں‘‘۔

تاریکیوں کے لیے پیغام موت آگیا۔ طاغوت کے غلبے کا دور ختم ہو گیا۔ رب کی آخری ہدایت کا دور شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ ۲۳ سال تک چلتا رہا۔ حتیٰ کہ ہدایت مکمل ہوگئی اور انسانیت کو نور کا وہ خزانہ مل گیا‘ جس کی روشنی تاقیامت قائم رہے گی جس کے ذریعے وہ ہمیشہ رہنمائی اور ہدایت حاصل کرتی رہے گی:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵ :۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے‘ اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘۔

آج اس نزول وحی کے آغاز اور بعثت نبوی ؐ کو ۱۴ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ ساری دنیا میں محمدؐ کے نام لیوا اس واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں‘ جو ماضی اور حال کی تاریخ کے درمیان حدفاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے انسانیت کی تاریخ میں قرآن اور محمدؐ کے دور کا آغاز ہوا۔

خدا کی اس زمین پر انسان کی بنیادی ضرورتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق اس کی جسمانی اور مادی زندگی سے ہے‘ اور دوسری وہ جو اس کی روحانی‘ اخلاقی اور سماجی زندگی سے متعلق ہیں۔ خدا کی ربوبیت کاملہ کا تقاضا تھا کہ انسان کی یہ دونوں ضرورتیں پوری کی جائیں‘ تاکہ وہ زندگی کی آسائشیں بھی حاصل کرسکے اور ان کو صحیح مقاصد کے لیے صحیح طریقوں سے استعمال بھی کر سکے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو بہ حسن و کمال پورا کیا ہے۔ مادی اور جسمانی ضروریات کی تسکین کے لیے زمین و آسمان میں بے شمار قوتیں ودیعت کر دی ہیں‘ جن کی دریافت اور ان کے مناسب استعمال سے انسان کی تمام ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی روحانی‘ اخلاقی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت نازل فرمائی‘ اور اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اس ہدایت کو انسانوں تک پہنچایا‘ بلکہ ان کی زندگیوں میں اسے متشکل کر کے بھی دکھا دیا۔ اس طرح انسانیت نے اپنا سفر تاریکی میں نہیں‘ روشنی میں شروع کیا‘ اور ہر دور میں خدا کی ہدایت اس کے لیے مشعل راہ بنی رہی۔ اس دنیا میں پہلا انسان (آدم علیہ السلام) پہلا نبی بھی تھا۔ خدا کی یہ ہدایت اپنی آخری اور مکمل ترین شکل میں حضرت محمدؐپر نازل کی گئی۔ یہی ہدایت قرآن کی شکل میں موجود ہے اور قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔

قرآن کا اساسی تصور
قرآن جس تصور کو پیش کرتا ہے‘ وہ مختصراً یہ ہے:

۱- یہ دنیا بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو اس کا مالک‘ آقا‘ رب اور حاکم ہے۔ ہر شے پر اس کی حکومت ہے اور وہی اس کا حقیقی فرماں روا ہے۔ ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیار‘ کلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے‘ اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق ‘ مالک اور حاکم ہے۔ اس مالک حقیقی نے انسان کو‘ ایک خاص حد تک اختیار اور آزادی دے کر‘ اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے اور باقی تمام مخلوقات کو اس کے تابع فرمان کیا ہے۔

۲- انسان کو خلافت کی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لائق بنانے کے لیے مالک حقیقی نے اسے اپنی ہدایت سے نوازا ہے اور اس کی رہنمائی صراط مستقیم کی طرف کی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ پورا جہان اس کے لیے ہے اور اس کے تابع ہے لیکن وہ خود خدا کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ خدا کی بندگی اختیار کرے‘ اور اپنی پوری زندگی کو رب کی اطاعت میں دے دے۔ اس زندگی کی حیثیت ایک امتحان اور آزمایش کی سی ہے۔ اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کر دے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔ جس نے اس راستے کو اختیار کیا‘ وہ کامیاب و کامران ہے اور اس عارضی زندگی کے بعد ابدی راحت‘ اور چین اس کے لیے ہے۔ جس نے اس راہ سے انحراف کیا‘ وہ ناکام و نامراد ہے اور آنے والی ابدی زندگی میں جہنم اس کا ٹھکانا ہو گا۔

۳- یہ باتیں انسان کو ازل میں سمجھا دی گئیں۔ ان کا شعور اور احساس اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا۔ ان کی تذکیر اور بندگی رب کے راستے کی تشریح و توضیح کے لیے‘ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک‘ اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا۔ ایک طرف انسان کو عقل اور سمجھ دی گئی کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کے معاملات کی صورت گری کرے اور دوسری طرف خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیا علیہم السلام) نے بڑی سے بڑی قربانی دے کر انسانیت کو سیدھی راہ پر لگانے کا کام انجام دیا۔ ہر ملک اور ہر قوم میں انبیا مبعوث ہوئے اور اس سنہری سلسلے کی آخری کڑی محمد عربیؐ ہیں۔

آپ ؐ ساری دنیا کے لیے بھیجے گئے اور سارے زمانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کا وہی دین‘ یعنی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا‘ جو اس سے پہلے پیش ہوتا رہا تھا۔ جن لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کر لی اور اسلا م کو زندگی کے دین اور راستے کی حیثیت سے اختیار کر لیا‘ وہ ایک امت بن گئے۔ اب یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کا نظام اس ہدایت کے مطابق تشکیل دے‘ جو اللہ کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جس کا نمونہ آپؐ نے اپنی مبارک زندگی میں پیش فرمایا۔ اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتے رہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جس میں پوری دعوت موجود ہے‘ جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے‘ جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیروفلاح کی ضامن ہے۔

قرآن کی حیثیت اور مقصد
(الف) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo (البقرہ ۲: ۱۲) ’’یہ اللہ کی کتاب ہے ‘ اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔

(ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِی لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے‘‘۔

یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے:
الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲: ۱۸۵) ’’قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے‘‘۔

(ج) یہ ہدایت کا ایسا مرقع ہے‘ جس میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کر دی گئی ہے اور یہ پورے خیر کا مجموعہ ہے:

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ ۵:۴۸) ’’پھر اے نبیؐ ‘ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے‘ اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے‘‘۔

(د) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹) ’’بلاشبہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں‘‘۔

انسانیت کے دکھوں کا واحد علاج یہی ہدایت ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَا ٓئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ لا وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o (یونس ۱۰:۵۷) ’’لوگو! تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے۔ یہ دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے ان تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں‘‘۔

(ر) اور یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو مھیمن (نگہبان) کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔

قرآن کی اس نوعیت کو سمجھ لینے کے بعد اس کی حقیقت اور اس کے مقصد کی وضاحت آسان ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم مختصراً یوں بیان کر سکتے ہیں:

٭ قرآن کاموضوع انسان ہے کہ انسان کی فلاح اور اس کا خسران کس چیز میں ہے۔

٭ قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہربینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے باعث انسان نے خدا‘ نظام کائنات‘ اپنی ہستی اور اپنی دنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں‘ اور ان نظریات کی بنا پر جو رویے اختیار کر لیے ہیں‘ وہ سب حقیقت کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کن ہیں۔ حقیقت وہ ہے‘ جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بتا دی تھی۔ اس حقیقت کے لحاظ سے وہی رویہ درست اور خوش انجام ہے‘ جو خدا کو اپنا واحد حاکم اور معبود تسلیم کرے۔ اور پھر انسان اس دنیا میں اپنی پوری زندگی اسی خدا کی ہدایت کے مطابق گزارے۔

٭ قرآن کا مدعا انسان کو اس صحیح رویے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے‘ جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے (ملاحظہ ہو‘ تفہیم القرآن‘ جلد اول‘ مقدمہ از سید ابوالاعلیٰ مودودی)۔

اس بات کو شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی نے اس طرح بیان فرمایا ہے‘ کہ قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ راہ اعمال کی اصلاح اور درستی ہے (الفوز الکبیر)۔

قرآن تمام انسانوں کو ابدی سعادت کی طرف بلاتا ہے‘ اور انسان کے ظاہر و باطن کی ایسی تعمیر کرتا ہے‘ کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ دنیا اور آخرت کی زندگیوں میں حقیقی چین اور راحت نصیب ہو۔ یہ راستہ رب کی بندگی کا راستہ ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِo (الذاریت ۵۱:۵۶) ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔

یہ بندگی انسان کی پوری زندگی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ہر سانس احساس عبدیت سے معمور ہونا چاہیے اور اس کا ہر عمل مالک کی اطاعت کا مظہر ہونا چاہیے۔

قرآن کا انقلابی تصورِ حیات
یہی وہ مقام ہے جہاں سے قرآن کا انقلابی تصورِ حیات ہمارے سامنے آتا ہے۔

قرآن انسانی زندگی کو مختلف گوشوں اور شعبوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ وہ پوری زندگی کو بندگی رب میں لانا چاہتا ہے۔ انسان کے فکروخیال اور عقیدہ و رجحان سے لے کر اس کی اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے- اس کا مطالبہ خود مسلمانوں سے یہ ہے کہ:

اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃ ً ص(البقرہ ۲:۲۰۸) ’’داخل ہو جائو خدا کے دین میں پورے کے پورے‘‘۔ (جاری ہے)

حصہ