ہم تو بڑے خوش ہوئے کہ دوپہرکی شادی کی دعوت ہے، کوئی مسئلہ ہی نہیں، سب جائیں گے۔ پھر اتفاق سے دوسری جگہ سے بھی دوپہر کی شادی کی دعوت آگئی، بہت اچھی بات ہے ۔
لیکن پہلی دوپہر کی شادی گلشن اقبال میں تھی۔ ٹریفک اتنا زیادہ، موسم نہایت خوش گوار۔ ظہر کی نماز پڑھ کر ڈرتے ڈرتے گئے کہ دیر نہ ہوجائے۔ مگر جناب کیا بات ہے میرے شہر والوں کی، ہمیشہ کی طرح پہلی دس پوزیشن میں ہمارا بھی شمار ہوگیا۔
اب مرحلہ انتظار کا تھا! انتہائی مہذب اور باوقار تقریب رہی، لوگ خراماں خراماں آتے رہے، غصہ بڑھاتے رہے، ہم بھی اپنا صبر آزماتے رہے۔ بھوک بھی لگ رہی تھی، پرس میں پڑے تھوڑے سے چنے چباتے رہے۔ پھر اللہ کا شکر ہے لوگ ایسے آرہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ تین بج گئے، صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اللہ اللہ کرکے ٹیبلز بھر گئیں اور پھر کھانا کھلا۔ گویا قسمت کھلی کہ چلو اب اِن شاء اللہ گھر جاکر عصر کی نماز پڑھیں گے! مگر میں تو حیران ہوں کہ کھانا شروع ہونے کے آدھے گھنٹے بعد تک بھی ہنستے مسکراتے لوگ آتے گئے اور کھانے میں شریک ہوگئے۔ ماشاء اللہ گرما گرم چائے بھی ملی۔ کھانے بھی انواع و اقسام کے تھے۔ کچھ کو چھوڑا، کچھ کھایا جو من کو بھایا۔ شکر ادا کیا، نہ زیادہ چکنا تھا، نہ تیزمرچ۔
چمکتی بھوک میں ہر چیز سبحان اللہ بہت ہی ذائقے دار لگی۔ ماشاء اللہ برکت بھی بہت تھی۔ میزبان خاتون جو دو بیٹیوں کی ماں تھیں، بہت زیادہ خوش ہوئیں اور شکر ادا کررہی تھیں کہ ماشاء اللہ جن کو بلایا تھا سب آگئے۔ شکر ادا کررہی تھیں اللہ کا، اور ساتھ ساتھ آنے والے مہمانوں کا، جو بہت ہی اچھا لگا۔ دولہے کو میں نے چار، پانچ سال بعد دیکھا تھا جو ماشاء اللہ بہت ہی سنجیدہ، کامیاب شخصیت بن کر بیرونِ ملک سے آئے تھے۔ انتہائی خوشی ہوئی اور بہت مبارک باد دی پڑھ کر کامیابی سے ملک لوٹنے پر۔ جب ہم واپس رخصت ہونے لگے تو عصر کی اذان ہوچکی تھی۔
کوئی گاڑی نہیں ملی۔ باہر روڈ پر آکر ہم نے آن لائن گاڑی منگوائی۔ خدا خدا کرکے وہ آئی اور ہم مغرب سے آدھا گھنٹہ پہلے گھر پہنچ گئے۔ مگر ساتھ بیٹھی بہن اور بہنوئی کو اپنے گھر پہنچنے میں مغرب ہوگئی۔ وہاں پر بھی اسی چکر میں لوگوں کی نمازیں نکلیں جن کا اکثر لوگوں کو افسوس رہا۔ دراصل ہمارے ہاں ہر طرف ٹریفک کا مسئلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ توقع کے مطابق ہمیں چار بجے تک گھر پہنچ جانا چاہیے تھا۔ چار بہت ہوتے ہیں، مگر ساڑھے پانچ اور چھ بلکہ بعض کو توسات تک بج گئے۔ سنا کہ رخصتی بھی فوراً ہوگئی تھی، رات کی شادی کی نسبت سب جلدی گھر پہنچ گئے۔
دوسری شادی میں بھی ایسا ہی ہوا اور باوجود اعلیٰ انتظامات اور میزبانوں کی حتی الامکان کوششوں کے، تقریباً ڈھائی بجے بارات آئی۔ دستور کے مطابق مہمانان گرامی کے لیٹ ہونے کی وجہ سے کھانے میں ’’تھوڑی‘‘ تاخیر رہی، مگر اس دن دھرنے کے باعث ٹریفک کی صورت حال گمبھیر رہی اور لوگ خاصے لیٹ ہوتے رہے، یہاں تک کہ رخصتی کے وقت تک مہمان آتے رہے، مگر شکر ہے کہ روشنی میں ہی رخصتی ہوگئی۔ ہم بھی روشنی میں گھر پہنچ گئے اور یقینا دلہن بھی روشنی میں ہی مغرب سے پہلے سسرال پہنچ گئی۔ الحمدللہ! انتظامات اور کھانا ماشاء اللہ بہت اچھا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے خوشیوں میں سب کو ملایا۔ برسوں کے بچھڑے دور دراز ممالک کے رشتے داروں سے مل کر بڑی ہی خوشی ہوئی جو حیران کن اس لیے بھی تھی کہ چھوٹے بچوں کو بڑا اور نوجوان دیکھا۔ یقین ہی نہ آیا کہ وقت کیسے دبے پاؤں گزر گیا؟ بہت کچھ تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں، ساتھ ہی اپنی عمروں کے بڑھنے اور جواب دہی کے احساس نے اللہ کی تعریف اور اپنے گناہوں پر توبہ استغفار کرنے پر مائل کیا، دوسری طرف عزیز ترین مہربان بزرگ شخصیات یعنی مرحومین کی یادوں نے بھی آنکھوں میں دیے جلائے، جو دلوں کو مغموم کیے جاتے تھے۔ دعا کی کہ اللہ تُو ہی بہتر کرتا ہے، ان کی بہترین مغفرت فرما اور ہمیں اور ان بچوں کی خوشیوں کو سلامت رکھنا۔ صحت، تندرستی اور ایمان کی بہترین حالت میں رکھنا اور ہمیں خوشیوں میں ملانا، دونوں جہاں کی کامیابی عطا فرمانا، آمین۔
برسوں بعد دوپہر کی شادی نے، جس میں ہم نے کورونا سے پہلے شرکت کی تھی، کی یاد تازہ کر دی جو گرمیوں میں ہوئی تھی اور ہم نے گھر آ کر بعد نمازِ عصر شام کی چائے پی تھی۔ مگر گھڑی وہی وقت اب بھی بتا رہی تھی مگر کیوں کہ گرمیوں کے دن تھے اس لیے برا نہ لگا، نمازیں ضائع نہیں ہوئیں۔ کیوں کہ یہ دسمبر ہے تو گھڑیاں اپنا کام تو بالکل درست کررہی تھیں، لیکن ہمارے انتظامی امور متاثر تھے اور ہم وقت پراپنا کام مکمل نہ کرپائے۔ لہٰذا سبق یہ ملا کہ وقت کی پابندی ضروری ہے ہر عمل کے لیے۔ کتنے خوب صورت اوقات ہیں نماز کے، جو ہمیں ہر وقت پابندیٔ وقت کا عظیم درس دے کر تقریبات کو ہی نہیں، زندگیوں کو بھی کامیاب بنانا سکھاتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہماری یہ دیر سے آنے کی روایت ختم ہو اور ہم پابندیٔ وقت کو اہمیت دیں اور اس پر عمل بھی کریں، کہ اس کو اپنانے میں ہی زندگی کا سدھار اور بہار ہے۔ اللہ پاک اس بہار کو ہمیشہ ہماری زندگیوں میں رائج رکھے اور ہمیں دونوں جہاں میں کامیاب کرے۔ دوپہر میں بھی ٹریفک کے ازدحام کا ایک بڑا سبب سڑکوں کی خستہ حالی اور کھدائی ہے۔ دعا ہے اللہ ہمارے شہر کراچی کو ان مسائل سے نجات دلائے، آمین۔