قرآن مجید نے انسانی زندگی کا مقصد دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اللہ کے دیے ہوئے نظامِ زندگی پر عمل درآمد کرنا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا قرار دیا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔
دنیا کے تمام اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ پورا قرآن جنت کی بشارت اور جہنم کی وعید سے بھرا پڑا ہے۔ قصص القرآن میں اللہ کی باغی اقوام کے تذکرے موجود ہیں اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے نافرمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا‘‘۔ ان کے عالی شان محلات کے کھنڈرات روئے زمین پر نشانِ عبرت کے طور پر موجود ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے کی تیرہ سالہ حیاتِ طیبہ میں جن تعلیمات کو اپنی دعوت کا محور بنایا وہ درج ذیل ہیں:
توحید و رسالت، فکرِ آخرت یعنی مر کر قیامت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور میدانِ حشر میں اللہ کے حضور پیش ہوکر دنیا میں کیے گئے اپنے اعمال کا حساب دینے کے ہیں، جن میں رائی کے دانے کے برابر اعمالِ خیر اور رائی کے دانے کے برابر اعمالِ شر تولے جائیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے بگڑے ہوئے اخلاق کو تطہیرِ افکار و نظریات اور تعمیرِ سیرت وکردار سے سنوارا، اور فرمایا کہ اللہ نے مجھے معلم ِاخلاق بنا کر مبعوث کیا ہے۔ آپؐ نے دورِ جاہلیت کی تمام رسومات کی بیخ کنی کی۔
فکر ِآخرت دراصل وہ بنیادی عقیدہ ہے جو انسان کو دنیا میں احکام خداوندی اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پابند بناتا ہے۔ اگر اونٹ کی ناک میں نکیل ڈال دی جائے تو اسے ایک بچہ بھی اپنے اشاروں پر چلاتا ہے، اسی طرح فکرِ آخرت صاحبِِ ایمان کو سیدھے راستے پر چلنے پر مجبور کردیتی ہے۔
فکرِ آخرت دراصل خود کو جہنم سے نجات دلانے اور جنت حاصل کرنے کا وہ عقیدہ ہے جو عملِ صالح پر آمادہ کرتا ہے۔ ایمان لانے کے بعد بے خدا زندگی بسر کرنا دراصل اللہ سے بغاوت ہے جس کی سزا جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جس نے لوگوں کو اللہ کی جانب بلایا، نیک عمل کیے اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘ (سورۃ حم السجدہ 54)
حضرت بلالؓ حبشی سے ان کے مالک امیہ بن خلف نے کہا کہ بلال تم احد کہنا چھوڑ دو تو میں تم کو آزاد کردوں گا۔ حضرت بلالؓ نے کیا ایمان افروز جواب دیا: امیہ تم مجھ کو بازار عکاظ میں لے جاتے ہو اور مٹی کا گھڑا خریدتے ہو تو اس کو بجاکر دیکھتے ہو کہ یہ کھرا ہے یا کھوٹا۔ میں نے جس اللہ سے جنت کا سودا کیا ہے کیا وہ مجھے نہیں آزمائے گا؟
وہ دس اصحابؓ جن کو ’’عشرہ مبشرہ‘‘ کہتے ہیں جب انہیں جنت کی بشارت مل گئی تو وہ پہلے سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے ہوگئے، ان سب کا کہنا یہ تھا کہ جس نے یہ نعمت بخشی ہے ڈر ہے کہ ہماری کوتاہیوں سے چھین نہ لے۔
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی تنکا اٹھا کر کہتے کہ کاش میں تنکا ہوتا تو مجھ سے آخرت میں حساب نہ لیا جاتا۔ آپؓ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا سو جائے گا تو آخرت میں اللہ عمر سے حساب لے گا۔‘‘ قرونِ اولیٰ کے اہم ترین واقعات میں ایک واقعہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ ایک غزوہ میں آپ کی ایک ٹانگ زخمی ہوگئی اور زخم میں ناسور ہوگیا۔ طبیب نے کہا کہ آپ کی ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ آپ نے کہا کاٹ دو۔ ذرا تصور کریں اُس زمانے میں آج کی طرح جراحی کے آلات نہیں تھے۔ بہرحال جب آپ کی ٹانگ کاٹی جارہی تھی تو آپ کی زبان پر الحمدللہ اور سبحان اللہ کی صدائیں تھیں۔ جب طبیب نے مرہم پٹی کردی تو آپ نے کہا کہ کٹی ہوئی ٹانگ کو یہیں چھوڑ دو۔ اصحاب جو یہ سب دیکھ رہے تھے انہیں حیرت ہوئی کہ آپ اپنی ٹانگ کو ہاتھ میں لے کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’اے ٹانگ تُو آخرت میں اللہ کے حضور گواہی دینا کہ ایمان لانے کے بعد تجھ کو لے کر ایسی جگہ نہیں گیا جہاں اللہ اور اس کے رسول ناراض ہوتے ہیں۔‘‘ یہ فکرِ آخرت کا ایمان افروز واقعہ ہے جو ہمارے اعمال کو درست کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہر صاحبِ ایمان یہ جانتا ہے کہ ہمارے جسم کا ہر حصہ ہمارے حق میں اور ہمارے خلاف گواہی دے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’جب قبروں کو کھولا جائے گا تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ آگے کیا بھیجا تھا اور ساتھ میں کیا لے کر آ ئے ہو۔‘‘ (سورۃ الانفطار، آیت 4 5)
سورۃ العادیات میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’جب قبروں کو کھولا جائے گا تو تم کو سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ اللہ تمہارے دلوں کے بھید کو نکال کر رکھ دے گا۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مٹی بولے گی۔ اصحاب کی حیرت پر آپؐ نے سورہ زلزال کی آیت پڑھی جس کا ترجمہ ہے کہ ’’جب زمین اپنے اندر سے سب کچھ باہر نکال کر رکھ دے گی تو انسان کہے گا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ یہ اپنے رب کے اِذن سے سب کچھ بول دے گی۔‘‘ آج کے دور میں تمام الیکٹرانک آلات جن میں آڈیو وڈیو سنی اور دیکھی جاتی ہے سب مٹی سے حاصل شدہ خام اشیا سے بنائی جاتی ہیں۔ اب تو آدمی کا آخرت پر ایمان مضبوط ہوجانا چاہیے۔
ہر صاحبِ ایمان کی آرزو ہے کہ وہ جنت میں داخل کیا جائے چاہے اس نے اپنی پوری زندگی بے عملی میں گزاری ہو۔ اس کے ورثا اس کی مغفرت کے لیے قرآن خوانی اور صدقات و خیرات کرتے ہیں۔ مگر لمحۂ فکر یہ ہے کہ اللہ نے دنیا کی زندگی آخرت کی تیاری کے لیے بخشی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرما۔‘‘ ہر صاحبِِ ایمان یہ دُعا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب صحابہؓ کے حلقوم پر تیر لگتے تو وہ پکار اٹھتے ’’خدا کی قسم آج ہم کامیاب ہوگئے۔‘‘
دیکھیے رنگیں قبا میں ہے کتنا بانکپن
جب کبھی اپنے لہو میں تر بتر ہو جایئے
(رحمن کیانی)
زمانۂ قدیم سے انسان آبِ حیات کی جستجو میں ہے مگر شہادت یعنی اللہ کے راستے میں جان کی قربانی دائمی زندگی ہے۔ ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُن کو مُردہ نہ کہو، یہ تمہاری طرح زندہ ہیں۔‘‘ (البقرہ)
’’جو اللہ کے راستے میں مارے جائیں انہیں تم مُردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں اور اللہ انہیں رزق دیتا ہے‘‘ (آل عمران)۔ یہ آخرت کے انعامات ہیں اور یہی مومن کی تمنا ہے۔
آج مسلم دنیا کے دفتروں میں تمام ذمہ داروں کی کرسیوں کے اوپر یہ لکھا ہوتا ہے ’’رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔‘‘ یہ بھی لکھا رہتا ہے کہ ’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘۔ لیکن اس کے باوجود رشوت دیے بغیر کوئی جائز کام نہیں ہوتا۔ مگر جن لوگوں کے دل و دماغ میں فکرِ آخرت ہوتی ہے وہ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک موقع پر دودھ کے خریداروں کی تعداد بڑھ گئی تو ایک دودھ بیچنے والی بوڑھی صحابیہؓ نے فرمایا کہ ’’بیٹی دودھ میں پانی ملا دو‘‘۔ بیٹی نے کہا ’’خلیفہ نے ملاوٹ کو جرم قرار دیا ہے۔‘‘ ماں نے کہا ’’عمرؓ تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔‘‘ بیٹی نے کہا کہ ’’عمرؓ نہیں تو اللہ تو دیکھ رہا ہے۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میدانِ حشر میں جن کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا اُن میں وہ نوجوان بھی ہوگا جس کو رات کی تنہائی میں ایک دولت مند، خوب صورت عورت دعوتِ گناہ دے گی مگر وہ اللہ کے ڈر سے ٹھکرا دے گا۔‘‘
دنیا میں ہر آدمی کبھی نہ کبھی سفر ضرور کرتا ہے اور کسی مقام پر کسی سرائے یا ہوٹل میں چند دنوں کے لیے قیام کرتا ہے، مگر وہ اس ہوٹل یا سرائے کی تزئین و آرائش اس لیے نہیں کرتا کہ وہ سمجھتا ہے یہ اس کا عارضی ٹھکانہ ہے اور اس کو یہاں سے اپنے مستقل گھر لوٹ کر جانا ہے۔ یہ دنیا بھی انسان کا عارضی ٹھکانہ ہے اور وہ یہاں محدود مگر نامعلوم وقت تک رہے گا، اُس کو تو اس مستقل گھر کی طرف لوٹ جانا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود وہ اِس دنیا کی ہوس میں اپنے آپ کو بھلا بیٹھا ہے اور یہاں سے خالی ہاتھ، کفِ افسوس ملتے ہوئے چلا جاتا ہے۔
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الااللہ
(علامہ اقبال)
’’یہ مال و اولاد دنیا کی زینت ہے، باقی رہ جانے والی چیز عمل صالح ہے، جو تیرے رب کے پاس ثواب اور امید کے لحاظ سے بہتر ہے۔‘‘ (سورہ الکہف 46 )
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ دنیا کافروں کے لیے جنت اور مومن کے لیے قید خانہ ہے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا ’’جب یہ دنیا جہنم میں ڈالی جائے گی تو چیخے گئی، چلّائے گی۔ باری تعالیٰ پوچھے گا ’’میرے بندوں کو گمراہ کرنے والی! کیوں چیخ رہی ہے؟‘‘ دنیا بولے گی ’’میرے رب! مجھے تنہا کیوں ڈال رہا ہے، میرے چاہنے والوں کو میرے ساتھ ڈال۔‘‘ پھر دُنیا کو چاہنے والے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔
’’دنیا تجھ کو پانے کے لیے
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
کاہے کو اتراوت ہے کیوں اتنا شور مچائے ہے
یہ جان تو اک دن جائے گی اور مٹی میں مل جائے گی
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا کچھ کام نہ تیرے آوے گا
جب کھٹیا خاک بچھونا ہو اور مٹی میں ہی سونا ہو
یہ نیکی ساتھ میں جائے گی اور باغِ ارم کی ٹھنڈی ہوا پھر جھر جھر کرتی آئے گی۔
جب پلڑہ بدی کا بھاری ہو، پھر کیسے رب سے یاری ہو
پھر آگ کی لپٹیں آئیں گی اور چہرے کو جھلسائیں گی
کچھ کام نہ تیرے آئے گا سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا
(تزمینی اشعار محمد امین اللہ امین)
قرآن کی آیات جنت کی بہاروں اور جہنم کی ہولناکیوں سے بھری پڑی ہیں۔
آغوشِ لحد میں جب کہ سونا ہو گا
جز خاک نہ تکیہ نہ بچھونا ہو گا
تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیسؔ
ہم ہوئیں گے اور قبر کا کونا ہو گا