گمراہی اور گناہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ گناہ گار انسان اپنے گناہوں پر نادم ہوتا ہے اور استغفار کرتا ہے۔ جبکہ گمراہ انسان اپنے گناہوں پر نادم ہونے کے بجائے اس پر اصرار کرتا ہے، تاویلات پیش کرتا ہے اور دوسرے کسی کے گناہ اور غلطیوں کا جواز پیش کرکے اپنے گناہوں اور غلطیوں کو جائز ٹھیراتا ہے۔
سب سے پہلے آدم علیہ السلام اور اماں حوّا کے انحرافِ حکمِ خداوندی کو دیکھتے ہیں کہ جب آپ دونوں نے ممنوع پھل کھا لیا اور دونوں کے جسموں سے جنت کا لباسِ فاخرہ اتر گیا تو فوراً انہیں احساس ندامت ہوا، انہوں استغفار کیا اور کہا ’’اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اگر آپ ہمیں معاف نہیں کریں گے تو ہم خسارے میں پڑ جائیں گے۔‘‘ (القرآن)
اس کے برعکس عزازیل نے حکمِ ربانی کے باوجود آدم ؑ کو سجدہ نہیں کیا، اور جب اللہ نے اس سے یہ پوچھا کہ ’’تم نے سجدہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ تو اُس نے اپنی خلقت پر تکبر کیا اور اپنے گناہ پر اصرار کیا، اور تاقیامت لعنتی اور ابلیس قرار پایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا مکالمہ دیکھیے کہ جب نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ ’’آپ کا رب کیا کرتا ہے؟‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ ’’میرا رب لوگوں کو پیدا کرتا ہے اور مارتا ہے۔‘‘ نمرود نے دو قیدیوں کو بلوایا، ایک کو قتل کردیا دوسرے کو آزاد کردیا اور کہا ’’دیکھو یہ تو میں بھی کرتا ہوں‘‘۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ ’’میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے، تُو اس کو مغرب سے نکال اور مشرق میں غروب کرکے دکھا‘‘، اس پر نمرود لاجواب ہوگیا، لیکن اس دلیل کے بعد بھی ایمان نہیں لایا۔ نمرودی قوم کی گمراہی دیکھیے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ بتوں کو میں نے نہیں اس بڑے بت نے توڑا ہے، تو قوم نے جواب دیا: یہ تو نہ دیکھتا ہے، نہ بولتا ہے اور نہ کھاتا ہے اور نہ حرکت کرسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ جب یہ بے جان ہے تو تم اس کو کیوں پوجتے ہو؟ پھر بھی دلیل کو گمراہ قوم نے نہیں مانا۔ ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈال دیے گئے اور 40 دنوں کے بعد جب ہشاش بشاش زندہ نکلے تو بھی قوم اس معجزے کو دیکھ کر ایمان نہیں لائی۔
فرعون کے دربار میں موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں کو شکست دی، پھر بھی فرعون اور اس کے درباری ایمان نہیں لائے۔ سمندر میں عصا کی ضرب سے راستہ بن گیا، پوری قومِ بنی اسرائیل سمندر پار ہوگئی جب کہ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ڈوب گیا، مگر بنی اسرائیل کے تھوڑے لوگ پختہ ایمان والے بنے۔
12 قبیلوں کے لیے 12 چشمے جاری ہوئے۔ صحرائے سینا میں بادلوں کا سایہ، من و سلویٰ کھانے کے بعد بھی گمراہ ہوئے اور بچھڑے کی پوجا کی۔ دراصل گمراہ لوگ نہ دلیل مانتے ہیں اور نہ معجزہ دیکھ کر توبہ کرتے ہین۔
جب قومِ صالح نے حضرت صالح علیہ السلام سے اُن کی نبوت کا ثبوت یہ کہہ کر طلب کیا کہ اگر آپ اس ریوا پہاڑی سے زندہ اونٹ نکال دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ صالح علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی اور ایک نو ماہ کی اونٹنی پہاڑ سے نکل آئی، اس نے بچہ بھی دیا۔ پھر بھی صالح علیہ السلام پر ایمان نہیں لائے اور اونٹنی کو چند ماہ بعد مار ڈالا، جس کی پاداش میں پوری قوم ہلاک کردی گئی۔
عیسیٰ علیہ السلام جب بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو پوری قوم حضرت مریم علیہ السلام پر تہمت لگانے کے لیے اکٹھی ہوگئی، مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پالنے سے اپنی ماں کی پاکیزگی اور اپنے رسول ہونے کا اعلان کیا تو اس حیرت انگیز معجزے کو دیکھ کر بھی قوم کی گمراہی دور نہیں ہوئی۔ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے بہت سارے معجزات بخشے تھے۔ آپ پیدائشی اندھے کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے تو اس کی بینائی لوٹ آتی تھی۔ آپ مٹی کے پرندوں پر پھونک مارتے تو وہ زندہ ہوجاتے۔ آپ اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے۔ آپ کے زمانے میں کوڑھ کی بیماری عام تھی، آپ کوڑھیوں کے جسم پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اچھے ہوجاتے تھے۔ اس طرح جب آپ کی مقبولیت بڑھی تو آپ کے حواریوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ پھر کیا تھا، گمراہی میں مبتلا بنی اسرائیل کے لوگوں نے قیصر روم کو بھڑکایا کہ عیسیٰ علیہ السلام آپ کی سلطنت کا تختہ الٹ دیں گے۔ لہٰذا قیصرِ روم نے آپ کو سولی پر چڑھانے کی سزا دی، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ آپ دجال کو ختم کرنے کے لیے دنیا میں دو بارہ تشریف لائیں گے اور ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا زمانہ مکمل طور پر کفر و الحاد کا زمانہ تھا۔ روئے زمین پر کہیں بھی وحدہٗ لاشریک کی پرستش نہیں ہوتی تھی۔ اللہ کا کعبہ 360 بتوں کا مرکز تھا۔ ایرانی آتش پرست تھے۔ مصری ابوالہول کے پجاری اور فراعنۂ مصر کی حنوط شدہ لاشوں میں راہِ نجات تلاش کرنے والے۔ چینی کنفیوشس کی تعلیمات کو بھول چکے تھے۔ عیسائی تثلیث کے پجاری تھے اور اب بھی ہیں۔ یہودی حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اور توریت و زبور کی تعلیمات بھلا بیٹھے تھے اور آج بھی گمراہ ہیں۔ بھارت کے کروڑوں انسان ہزاروں دیوی دیوتاؤں، پتھروں کو پوجتے تھے اور آج بھی پوج رہے ہیں۔
ایسے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور 40 سال کی عمر میں غارِ حرا سے نبوت و رسالت عطا ہوئی تو آپؐ نے پہلے اپنے خاندان والوں کو لا الٰہ الااللہ محمد الرسول اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ آپؐ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ، آپؐ کے چچا زاد حضرت علیؓ، آپ کے دوست حضرت ابوبکرؓ ایمان لائے۔ غلاموں میں آل یاسرؓ ، حضرت بلالؓ، حضرت خبابؓ کے علاوہ تھوڑے لوگ ایمان لائے جن میں حضرت عثمانؓ، حضرت عمرؓ بن خطاب اور جید اصحاب شامل ہیں۔ مگر جب آپؐ سورہ مدثر کے نزول کے بعد کوہِ صفا پر اجتماعی دعوتِ توحید کے لیے لوگوں کو پکارنے کے لیے گئے، اہلِ مکہ کو ’’یا صباحاہ یا صباحاہ‘‘ کہہ کر پکارا تو اہل مکہ اکٹھے ہوگئے۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ ’’اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے سے دشمن کی فوج آرہی ہے تو یقین کرو گے؟‘‘ لوگوں نے بیک زبان کہا کہ ’’آپ صادق و امین ہیں، ہم آپ کی بات پر یقین کریں گے۔‘‘ جب آپؐ نے کہا یا ایھا الناس قولو لا الہ الااللہ تفلحون تو تمام لوگ بپھر گئے اور جن کو چند لمحوں پہلے صادق و امین کہا تھا ان کو جھٹلانے لگے اور ابولہب نے جو آپؐ کا حقیقی چچا تھا، کنکریاں ماریں۔ یہ آغاز تھا آپؐ کی رسالت کے خلاف مخالفت کا، جو مکہ کی تیرہ سالہ اور مدینہ کی دس سالہ زندگی تک مرحلہ وار جاری رہا۔ بعد ازاں فتح مکہ کے بعد کفر سرنگوں ہوا۔ اس 23 سالہ مکی اور مدنی زندگی کے رسالت کے معجزات دیکھنے کے بعد بھی مشرکین مکہ اور یہود ونصاریٰ کے گمراہی سے باز نہ آنے کے واقعات اختصار کے ساتھ تحریر کروں گا۔
آپؐ کا سب سے بڑا، دائمی، لافانی اور لاثانی، لاریب معجزہ آپؐ پر نازل ہونے والا کلام اللہ قرآنِ مقدس ہے۔ یہ خیرِ کثیر ہے۔ یہ مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ یہ نظامِ حیات ہے۔ یہ ابتدا سے ہی منکرینِ قرآن کو چیلنج کرتا ہے کہ تم ساری دنیا کے اہلِ علم و دانش کو جمع کرلو پھر بھی اس کی ایک آیت جیسی کوئی آیت تحریر نہیں کرسکتے۔ کفارِ مکہ اس قرآنِ مقدس کی دلیل و برہان کو دل ہی دل میں سچ ماننے کے باوجود اس کی دعوت کو قبول کرنے سے انکاری تھے، کیوں کہ گمراہ دلیل نہیں مانتے جیسا کہ سابقہ گمراہوں نے نہیں مانا اور اللہ کے غضب کا شکار ہوئے۔
ابوجہل مٹھی میں کنکر جو لایا
تو سرکار نے ان سے کلمہ پڑھوایا
مگر پھر بھی وہ ایمان نہ لایا
آپؐ کے سفر معراج کے واقعات سن کر کفار تمسخر اڑانے لگے، مگر جب آپؐ نے مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کی تمام نشانیاں بیان کیں تو ششدر تو ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپؐ نے یہ سفر کیا ہے، مگر ایمان نہیں لائے۔
جب مشرکوں نے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا مطالبہ کیا اور آپؐ کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوا اور دوبارہ اپنی جگہ آکر مل گیا تو اس معجزے کو دیکھ کر عرب سے دور مالابار کا راجا سامری مسلمان ہوا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات بھی کی، یہ روایت ہے مگر دیگر مؤرخین اس کی نفی کرتے ہیں۔ بہرحال مطالبہ کرنے والے مشرکین ایمان نہیں لائے۔
فتح مکہ کے بعد یہی مشرکین سرنگوں ہوئے اور جوق در جوق ایمان لائے۔ اس طرح چند سال میں جزیرۃ العرب سے بت پرستی کا خاتمہ ہوگیا۔
دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب ہوچکی ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ اس دور کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جارہا ہے۔ عیسائی دنیا گو کہ عیسائیت پر یقین رکھتی ہے، مگر اس میں اکثریت ملحدوں کی ہے۔ ہندوستان کے نوّے کروڑ ہندو ہزاروں دیوی دیوتاؤں کے علاوہ شجر و حجر کی پوجا کرتے ہیں، کمیونسٹ تو سرے سے ہی اللہ کو نہیں مانتے۔ سائنس داں یہ جانتے ہیں کہ سوئی کی نوک بھی خود سے وجود میں نہیں آسکتی، مگر اتنی بڑی کائنات، لاتعداد ستارے اور سیارے، اور لامحدود وسعتوں والا آسمان خود بہ خود کیسے وجود میں آجائیں گے؟ اس کا جواب اُن کے پاس نہیں ہوتا۔ مگر انہی میں سے بہت سی ایسی سعید روحیں ہیں کہ جب وہ رب کی خلاّقی پر غور کرتی ہیں تو ایمان لاتی ہیں۔ مثلاً فرانس کے سائنس دان بورس موکائل نے فرعون کی حنوط شدہ لاش جو صدیوں بعد سمندر سے ملی تھی، کا مطالعہ کیا اور قرآن مجید میں فرعون کے انجام کے بارے میں پڑھا تو ایمان لے لایا۔ ملحدوں کے سوال عجیب و غریب ہوتے ہیں، کہتے ہیں: اللہ ہے تو نظر کیوں نہیں آتا؟ عقل کے ان کوڑھیوں کو ہوا نظر نہیں آتی مگر وہ اس کی موجودگی سے انکار نہیں کرتے۔ جب سائنس دان کوئی مشین بناتا ہے تو وہ مشین میں نہیں مشین سے باہر ہوتا ہے۔ خالق اپنی خلقت میں نہیں، بلکہ اس کی خلاّقانہ صفت اس میں موجود ہوتی ہے۔ اللہ تو ہماری شہ رگ کے قریب ہے، وہ سمیع و بصیر ہے، علیم و خبیر ہے۔ وہ ہماری سانسوں اور دل کی دھڑکن کو سنتا ہے۔ ان اللّٰہ بصیر بالعباد۔ علامہ اقبال اپنی پہلی نظم میں ارشاد فرماتے ہیں:
اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
اک جلوہ تھا کلیم طورِ سینا کے لیے
تُو تجلی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے
قصہ مختصر کہ جو گمراہ ہوتا ہے اللہ اس کا نورِ بصیرت چھین لیتا ہے۔
گل غنچے آفتاب شفق چاند کہکشاں
ایسی کوئی بھی چیز نہیں جس میں تُو نہ ہو
( واحد پریمی )