طلاق کے بڑھتے واقعات

482

’’ساجدہ…!‘‘

’’جی بھابھی!‘‘

’’اللہ کا شکر کہ اُس نے نہ صرف خلع لے لی بلکہ سارے کیس بھی واپس لے لیے۔ پورے ڈیڑھ سال کے بعد میں آج رات سکون سے سوئی ہوں۔ اس لڑکی کے آنے سے تو ہمارے پورے گھر کا سکون ختم ہوگیا تھا، مجھ بیوہ کی حالت ہی خراب ہوگئی تھی۔‘‘

میں نے ساجدہ کی بات سن کر کہا ’’اللہ آپ کے بیٹے اسلم اور اُس لڑکی روبینہ کے ساتھ اچھا معاملہ کرے۔‘‘

اسلم متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ ماسٹرز کے بعد وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کررہا ہے، پچاس ساٹھ ہزار تنخواہ تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ ایسی لڑکی سے شادی کرے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہو تاکہ مل جل کر گزارا کیا جاسکے۔

روبینہ اس کے معیار پر پوری اتری، کیوں کہ وہ نہ صرف پڑھی لکھی، برسرِروزگار بلکہ ایک خوش حال گھرانے سے بھی تعلق رکھتی تھی۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اسے بے جوڑ رشتہ بھی کہہ سکتے ہیں، جس کے اثرات شادی کے فوراً بعد سامنے آنے لگے۔ لڑکی کو سسرال کی کوئی بات پسند نہیں آرہی تھی، ان کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا… یہاں تک کہ شوہر کی بھی کوئی بات، حتیٰ کہ اس کا چہرہ بھی پسند نہیں آیا تھا (جبکہ وہ خود بھی درمیانی شکل وصورت کی تھی۔)

ان سب چیزوں کا اظہار وہ برملا سب کے سامنے کرتی۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے دونوں میاں بیوی میں شادی کے چند دن بعد ہی لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے، اُس نے شوہر سے مطالبہ کیا کہ میں الگ گھر میں رہنا چاہتی ہوں۔ بیوہ ساس نے دل پر جبر کرکے کہا کہ ’’اسلم بیٹا! اگر یہ اس طرح خوش رہ سکتی ہے تو اس کی بات مان لو، ویسے بھی یہ ملازمت کے لیے صبح نکلتی، شام گئے واپس سیدھا اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے، اس کا گھر والوں سے کوئی تعلق تو ہے ہی نہیں۔‘‘

لیکن نئے اپارٹمنٹ میں بھی دونوں میاں بیوی کا وہی حال تھا، کہیں بھی دونوں میں سمجھوتے کی گنجائش نظر نہیں آرہی تھی۔ آخر روبینہ نے شوہر اور ساس پر کیس کردیا کہ انہوں نے میرے تمام جہیز پر جس کی مالیت 80 لاکھ سے زائد ہے، قبضہ کرلیا ہے۔ جبکہ ساس نے روکر قسم کھائی کہ زیور تو وہ ہمارے گھر لے کر ہی نہیں آئی تھی بلکہ نئے گھر میں شفٹ ہوتے وقت اپنے فرنیچر کے ساتھ ہمارا کچھ سامان اور جو کچھ بری میں ہم نے زیور کپڑے وغیرہ دیے، وہ بھی ساتھ لے گئی۔ عدالت کے ذریعے وہ گزشتہ چند ماہ سے شوہر سے نان نفقہ بھی حاصل کررہی تھی۔

ڈیڑھ سال یہ کیس چلتا رہا جس میں لڑکے کی تمام جمع پونجی خرچ ہوگئی… آخر لڑکی نے خلع لے لی۔ یہ کیس ایک عجیب نوعیت کا سامنے آیا۔

جب لڑکے سے کچھ رشتے داروں نے کہا کہ یقینا اس معاملے میں تم بھی قصوروار ہوگے تو اُس نے بتایا کہ میں تو اس کی خدمت کرتا تھا۔ آدھی رات کو اٹھ کر مجھ سے چائے بھی بنوا کر پیتی تھی… واللہ علم کہ زیادہ قصور کس کا تھا۔

دیکھا جائے تو فی زمانہ طلاق کے بڑھتے واقعات قابلِ تشویش ہیں جس کے پیچھے کئی وجوہات و اسباب پوشیدہ ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر وبیشتر عورت کو زیادہ قصوروار سمجھا جاتا ہے اور اس سلسلے میں خصوصاً متوسط طبقے میں طلاق یافتہ عورت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اگر اولاد والی ہو تو اس کی پریشانیاں دوچند ہوجاتی ہیں، اور اولاد پر اس کے اثرات تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

جس طرح گاڑی کے دو پہیّے گاڑی کو آگے چلنے میں مدد دیتے ہیں اسی طرح زوجین کے رشتے کو آگے کامیابی سے چلانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک اس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے بھرپور کوشش کرے اور دوسرے میں یہ خوبی نہ ہو تو گھروندے میں کہیں نہ کہیں نقص یا جھول ضرور نظر آئے گا۔ اس لیے گھر کی سلامتی کے لیے دونوں یعنی میاں بیوی کے مثبت کردار و عمل کا ہونا لازمی ہے۔ اس سلسلے میں مجھ ناقص العلم کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ شادی سے قبل ماں باپ اپنے بیٹے اور بیٹی کی تربیت ضرور کریں اور شادی کے بعد بھی اپنے بچوں کو اس رشتے کی اہمیت کا احساس دلاتے رہیں کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کی بیٹی کو سسرال والوں یا شوہر کی طرف سے شکایت ہوتی ہے تو یا تو وہ بیٹی کو غلط مشورے دیتے ہیں یا کسی منفی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، جب کہ ان کا بیٹا اگر بیوی کے ساتھ ناانصافی یا بدسلوکی بھی کرے تو وہ بجائے بیٹے کو سمجھانے کے الٹا بہو کو ہی برا بھلا کہتے ہیں جس کے نتائج اکثر طلاق کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

بے شک طلاق اللہ رب العزت کی طرف سے جائز لیکن ناپسندیدہ فعل ہے۔ جائز اس لیے کہ اگر سمجھوتے کے سارے راستے بند ہوجائیں اور میاں بیوی کا اکٹھے رہنا ناممکن ہوجائے تو طلاق اس کا حل ہے۔

پرانے وقتوں میں تو شادی کے وقت لڑکی کو یہ نصیحت کی جاتی تھی کہ کچھ بھی ہوجائے تمہیں اسی گھر میں رہنا ہے، اب مر کر ہی تمہاری ڈولی اس گھر سے نکلے گی۔ لہٰذا لڑکی سسرال میں ہر ظلم و ستم برداشت کرتی تھی اور بعض اوقات اس کے ساتھ سخت ناانصافی بھی ہوجاتی تھی لیکن وہ طلاق کو گناہ اور اپنے لیے گالی سمجھتی تھی، اس لیے وہیں پڑی رہتی تھی جو کہ سراسر لڑکی کے ساتھ زیادتی اور اس کی زندگی ختم کرنے کے برابر ہے۔

ہماری نانی (اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے) اپنی ایک رشتے دار خاتون کے بارے میں بتاتی تھیں کہ اس کے بچپن میں اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا، مشترکہ خاندانی نظام تھا لہٰذا اس گھرانے میں اس کی پرورش ہوگئی، دونوں بھائی اس سے چھوٹے تھے، باپ نے جوان ہوتے ہی اس بیٹی کی شادی دوسرے شہر میں کردی جو ان کی برادری کے تھے۔ سسرال میں ایک جیٹھانی اور بیمار جیٹھ تھا۔ جیٹھانی نے آس پاس والوں کے کہنے پر دیور کی شادی کروائی تھی جب کہ وہ خود دیور کو پسند کرتی تھی۔ جب وہ لڑکی سسرال پہنچی تو اسے جیٹھانی اور شوہر کے تعلقات کا علم ہوا، لیکن اسے شادی سے پہلے پھوپھیوں اور خالاؤں نے نصیحت کی تھی کہ ہر حال میں تمہیں نباہ کرنا ہوگا، لہٰذا وہ اس چھت کے نیچے اپنے ساتھ ہونے والے ہر ظلم پر خاموش رہی اور برداشت کرتی رہی۔ دوسال بعد جیٹھ کے انتقال کے بعد اس کے شوہر نے نہ صرف اپنی بیوہ بھابھی سے شادی کر لی بلکہ اسے طلاق دے کر میکے بھیج دیا۔ یہ صدمہ اُس کے لیے اس قدر اذیت ناک ثابت ہوا کہ وہ اپنے حواس کھو بیٹھی، کیوں کہ اس کے آس پاس برادری، رشتے داروں میں کہیں کسی عورت کے ساتھ طلاق کا واقعہ نہیں ہوا تھا۔ دیکھا جائے تو اُس زمانے میں مذکورہ بالا قسم کی صورتِ حال بھی خواتین کے لیے درست نہیں تھی۔ اور ایسی صورتِ حال کے پیش نظر اللہ رب العزت کے نزدیک طلاق جائز عمل ہے۔

مختصر یہ کہ معمولی نوعیت کے مسائل مل بیٹھ کر حل کیے جاسکتے ہیں۔ بزرگوں اور والدین کو بھی ایسے مواقع پر مثبت طریقے اور انصاف سے بچوں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ یقینا ایسا ممکن ہے۔ اگر سمجھوتے اور نباہ کے لیے کوئی راستہ نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں طلاق کا راستہ اختیار کرنا بہتر ہے۔

حصہ