کہیں ایسا نہ ہوجائے

109

ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے

ان ارادوں کو باندھتے، سوچتے اور توڑتے آج جب سر اٹھا کر دیکھا تو عمرِ عزیز کی چالیس بہاریں دیکھنے کے بعد میں سوچ رہی ہوں کہ زندگی نے مجھے بہترین مواقع اور عمدہ حالات میں رکھا لیکن ان سب کا میں نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ صحت، پیسہ اور آزادی یہ سب نعمتیں ساتھ مل جائیں تو ایک انسان کیا کچھ جوہر دکھا سکتا ہے! لیکن میں نے نت نئے فیشن میں اپنا وقت صرف کیا۔ آج سوچ جاگی تو اندازہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ رہی سہی مہلت بھی ختم ہوجائے اور میرے ہاتھ خالی رہ جائیں۔ میں سوچتی رہ گئی کہ شوہر اجازت دیں تو پردہ کروں، میں سوچتی رہ گئی کہ بچوں کا مستقبل سنور جائے، یہ اپنے پیروں پہ کھڑے ہوجائیں تو جائے نماز سنبھالوں یا جوانی میں باپردہ ہوجاؤں، کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ کہیں ’’ملّانی ہی بن گئی ہیں‘‘، یا اتنی نوکری کرلوں کہ اچھا گھر بن جائے پھر اللہ اللہ کروں گی۔

میں کیسے بھول گئی کہ مجھے تو حکمِ الٰہی ہے کہ اپنا دین اپنے مردوں کے حوالے نہ کروں۔ ’’پھر کیا میں اپنا دین والدین اور شوہر میں ڈھونڈ رہی تھی؟‘‘ اس سوال نے مجھے مزید تھکا دیا۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ مجازی خدا کو خوش کرتے کرتے میں اپنے خدا کو بھول جاؤں۔

میرے بچوں کا مستقبل تو میری نیکیاں سنواریں گی، جس کا وعدہ سورہ کہف میں میرے اللہ نے کیا ہے کہ ’’چوں کہ ان کا باپ نیک تھا اس لیے یتیم بچوں کو خزانہ ملا۔‘‘ پھر مجھے یاد کیوں نہ رہا۔

دن رات پیزا، برگر بنانے کی دوڑ میں کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ میرے بچے کھانے پینے کو ہی اپنا مقصدِ حیات بنالیں۔ آج اسکول میں A گریڈ لانے والے میرے بچے میرے لیے فاتحہ اور میری قبر پر اونٹ ذبح ہوکر گوشت تقسیم ہوجانے تک تلاوت کرسکیں گے؟ کہیں ایسا نہ ہوجائے یہ ٹھنڈے کمروں اور نرم بستروں کے عادی ہوجائیں…آہ ! میرے ارادے نیک تھے، میں نے راستے غلط چنے۔

اب گھر تو بن گیا میاں بیوی دونوں کی بچت اور محنت سے، ابھی سجانا سنوارنا باقی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ کہیں ’’ریال میں کمایا کہیں نظر نہیں آرہا۔‘‘ آگے بچوں کی شادیاں بھی دھوم دھام سے کرنی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو لوگ کہیں ’’سعودیہ میں رہیں اور سونا نہ بنایا؟‘‘

میرے جانے کے بعد میرا نام لیوا تو میرا اخلاق ہے اور میں نے عزیز رشتہ داروں سے اس لیے تعلقات نہیں بڑھائے کہ میری روٹین ڈسٹرب نہ ہوجائے، کہیں ایسا نہ ہو اولاد اور اسٹیٹس کے باوجود میں بے نام رہ جاؤں۔ لیکن نہیں! ابھی مجھ میں امید کی کرن باقی ہے۔ اپنا راستہ چننے اور اس پر چلنے کا اختیار رکھتی ہوں۔ اب میری فکر لوگ، اسٹیٹس اور روایات نہیں، بلکہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اور حکم اللہ کا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ میری مہلت ہی ختم ہو جائے اور میں سوچتی رہ جاؤں۔

حصہ