تنقید برائے اصلاح

589

وہ منہ میں نوالہ رکھتے ہی بولیں ’’اے ہے… سالن میں نمک زیادہ ہے، کیا بیمار کرنا ہے!کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہورہا ہے اس لڑکی سے۔‘‘

نمرہ کی شادی کو ابھی دو مہینے ہی ہوئے تھے، وہ گھر کے سارے کام کررہی تھی لیکن اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا سب کے لیے ضروری تھا۔ اس تنقید کی وجہ سے وہ جھنجھلا جاتی، مگر اب یہ اس کا گھر تھا، اسے انہی لوگوں میں رہنا تھا۔ امی نے بھی اسے سمجھایا: تمہارے گھر والے جیسا چاہتے ہیں ویسا کرنے کی کوشش کرو۔

لہٰذا وہ گھر والوں کو خوش کرنے کے لیے وہی کرتی جو انہیں پسند تھا، یہاں تک کہ اس کا اوڑھنا پہننا سب گھر والوں کی پسند کے مطابق تھا، لیکن گھر والوں کی تنقید پہلے دن کی طرح جاری تھی۔

نمرہ نے اپنی سہیلی سے مشورہ کیا: ’’تحسین! میں تو تھک گئی ہوں، میرے گھر والے کسی طرح بھی مجھ سے خوش نہیں ہیں، میں کیا کروں؟‘‘

تحسین بولی: ’’میری دوست! کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے تنقید کرنے کی، گرچہ وہ دل کے برے نہیں ہوتے۔ لہٰذا تم اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دو، اپنا جی جلانے سے کچھ نہیں ہوگا، بس تم اُن کی پسند ناپسند کا خیال کررہی ہو، یہ کافی ہے۔‘‘

لہٰذا نمرہ نے اپنی دوست کی بات پر عمل کیا۔ وہ بڑے تحمل سے گھر والوں کی بات سنتی، عمل بھی کرتی۔ لیکن ایک چیز اُس نے نوٹ کی کہ اس ساری صورتِ حال سے اس کی وہ چاہت اور محبت جو وہ لے کر اِس گھر میں آئی تھی اب اس میں کمی آگئی تھی۔

جی ہاں سامنے والے کی بار بار اور ہر کام پر تنقید انسان کو بے زار کردیتی ہے۔ کبھی کبھی وہ اس تنقید سے کچھ سیکھ بھی لیتا ہے، لیکن اکثر وہ اور پیچھے کی طرف چلا جاتا ہے۔ اور اگر یہ تنقید برائے اصلاح کی جائے تو نہ صرف سامنے والے کا بلکہ اپنا بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے اپنا فائدہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کا اندازہ میری اس دوست کے واقعے سے ہوجائے گا جواُس نے مجھے بتایا:

’’میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئی تو سوائے تعلیم کے میرے پاس کوئی تجربہ نہ تھا، لیکن اُس وقت مجھے ملازمت کی اشد ضرورت تھی، لہٰذا میں نے جوائن کرلیا۔ مجھے چونکہ کوئی تجربہ نہ تھا لہٰذا بہت محتاط ہوکر قدم بڑھارہی تھی کہ کہیں کوتاہی نہ رہ جائے۔ لیکن وہاں کی میڈم میری معمولی غلطی پر بھی پورے اسٹاف کے سامنے مجھ پر چیخ پڑتیں، اکثر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے، میں نے سوچا کہ یہاں کی نوکری چھوڑ دوں اور کہیں اور تلاش کروں، پھر میری مجبوری میرے پیروں کی بیڑی بن جاتی اور میں برداشت کرنے پر مجبور ہوجاتی، لیکن میں پہلے سے بھی زیادہ اپنے کام پر توجہ دینے لگی اور ہر قدم اٹھانے سے پہلے انچارج صاحبہ سے ضرور بات کرتی۔ وہ ایک شفیق خاتون تھیں جو ہر معاملے میں میری رہنمائی کرتیں، لیکن میڈم مجھ پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتیں، جس سے میں دل برداشتہ ہوچکی تھی، جب کہ انچارج میرے کام کو اب سراہنے لگی تھیں۔ سالانہ امتحانات میں بچوں کا میرے مضمون میں رزلٹ دیکھ کر میڈم کے رویّے میں معمولی سا فرق آیا تھا۔

انہی دنوں مجھے معلوم ہوا کہ اسکول کی نئی برانچ میرے گھر کے قریب کھلی ہے تو میں نے اسکول مالکن سے وہاں تبادلے کی بات کی، جس پر وہ راضی ہوگئیں، لیکن اب میڈم مجھے روکنے کی کوشش کرنے لگیں، لیکن اس خاتون کا تنقیدی رویہ میرے فیصلے کو بدل نہ سکا۔ میرے جانے کے بعد انہوں نے ٹیچرز کی سالانہ میٹنگ میں اس بات کا اقرار کیا کہ اس مضمون میں آج تک دو ٹیچرز قابلِ تعریف آئی ہیں جن میں‘ مَیں بھی شامل تھی۔ بلکہ سالانہ میٹنگز وغیرہ میں جب بھی میرا سامنا ہوتا تو کہتیں کہ تمہیں ہم نے سکھایا اور تم مجھے دھوکہ دے گئیں اور دوسری برانچ میں چلی گئیں۔‘‘

میری اس دوست نے آخر میں کہا کہ ’’میں اعتراف کرتی ہوں کہ اس اسکول کی وجہ سے (اپنی انچارج کی وجہ سے) مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا تھا، لیکن اس تنقیدی ماحول میں میرا دم گھٹنے لگا تھا۔ معاشی مجبوری نہ ہوتی تو میں اس سے پہلے ہی جاچکی ہوتی۔‘‘

ان دونوں نوعیت کے واقعات بتانے کا مطلب یہی ہے کہ چاہے بڑا ہو یا چھوٹا، آپ جہاں ضرورت محسوس کریں اُس کی مثبت طریقے سے اصلاح ضرور کریں لیکن اسے منفی انداز میں تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ میرا دین اسلام بھی مثبت طریقے سے دوسروں کی اصلاح کرنے کا راستہ دکھاتا ہے۔

مجھے یہاں ایک چھوٹے بچے کا واقعہ یاد آگیا کہ جب اُس نے مسجد میں ایک بزرگ کو وضو غلط کرتے دیکھا تو احترام سے ان سے کہا ’’حضرت میں وضو کررہا ہوں، آپ دیکھیں، اگر میں غلط کروں تو میری اصلاح فرما دیجیے گا‘‘۔ جب ان بزرگ نے بچے کا وضو دیکھا تو بے اختیار کہا ’’برخوردار وضو تو میں غلط کررہا تھا، آپ نے تو بالکل درست کیا۔‘‘

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب میں پھیلی گمراہی کو اس مثبت انداز سے دور کیا کہ دشمن بھی آپؐ کے دوست ہونے پر مجبور ہوگئے۔ آپؐ تو کسی کے خراب اور ناقص ہدیے پر بھی منہ تک نہ بناتے۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپؐ کو ککڑی پیش کی، آپؐ نے اپنی عادت کے مطابق ساتھیوں کو پیش نہیں کی بلکہ خود کھائی۔ صحابہ کرامؓ بڑے حیران ہوئے کہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ نے محفل میں بیٹھے لوگوں کو نہ دیا ہو۔ اس بندے کے جانے کے بعد آپؐ سے سوال کیا گیا کہ (اس میں بھی ضرور کوئی تعلیم ہو) آج آپؐ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ آپؐ نے فرمایا کہ ’’وہ ککڑی کڑوی تھی، میں نہیں چاہتا تھا کہ آپ اسے کھا کر منہ بنائیں اور وہ دکھی ہوجائے۔‘‘

آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے بھی اس بات کو اس لیے بیان کیا کہ وہ بھی یہی طریقہ اپنائیں، کیوں کہ یہ مثبت رویہ اور طریقہ تعلقات میں دراڑیں نہیں ڈالتا بلکہ عزت و احترام کا باعث بنتا ہے۔

میں یہاں اپنی مثال ضرور پیش کروں گی کہ میں آج تھوڑا بہت جو کچھ لکھنے کی کوشش کرنے کے قابل ہوئی ہوں، اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ہوئی ہوں۔ ایسے ساتھی جو مثبت طریقے سے میری تحریر میں اصلاح کا باعث بنے ہیں، بے شک میں ان سب کی مشکور بھی ہوں۔

حصہ