خطرناک مہم

110

ابھی سورج بھی غروب نہیں ہوا تھا کہ ان کی گاڑی خوبصورت وادی کے ایک اوسط سے بھی کم درجے کے ہوٹل کے احاطے میں داخل ہوئی جو ایک پہاڑی دریا کے کنارے پر واقع تھا۔ گاڑی سے باہر قدم رکھتے ہی انھیں سخت سردی کا احساس ہوا لیکن ہوٹل کا بند دروازہ کھول کر جب وہ اندر داخل ہوئے تو سردی کا احساس کافی کم تو ضرور ہو گیا لیکن وہ سمجھ چکے تھے اپنے کمرے میں پہنچتے ہی ان کو اپنے گرم کپڑوں کی ضرورت پڑ جائے گی۔

اگلی صبح ان کو ٹکسٹ میسج کے ذریعے جو پیغام ملا اس کے مطابق جس مقام پر جانا تھا وہ پڑوسی ملک کی سرحد سے بمشکل ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا لیکن یہ فاصلہ فضائی تھا۔ اگر یہی فاصلہ پیدل طے کیا جاتا تو آٹھ دس کلو میٹر کا ضرور بن جاتا۔ ایک قبائلی سردار عطا اللہ کا ڈیرہ تھا۔ اس قبیلے کا ایک ایک فرد سرحد کے محافظ کا کردار ادا کرنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا تھا لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ پڑوسی ملک کے اندر گھس کر کوئی غیر قانونی کام کرتا ہو یا کسی تخریبی کارروائی میں ملوث ہو۔ جس طرح اس قبیلے کو اپنے ملک کی سرحدوں کا احترام تھا بالکل اسی طرح اس کو یہ بات گوارہ نہیں تھی کہ وہ پڑوسی ملک کی سرحدوں کی حرمت کو پامال کرے۔

ڈیرے کے سردار عطا اللہ نے جمال، کمال اور ان کے والد کا بہت گرم جوشی سے استقبال کیا۔ جمال اور کمال کو اس بات پر حیرت تھی کہ سردار نے ان سب سے یہاں آنے کا نہ تو کوئی سبب دریافت کیا اور نہ ہی حیرت کا اظہار ظاہر کیا بلکہ جس انداز میں ان کا استقبال کیا گیا اس سے جمال اور کمال کو یوں لگا جیسے سردار کو ان کے یہاں آنے کی پہلے سے خبر ہو۔ اگر اس بات کو محسوس بھی کیا ہوگا کہ سردار کو ان کے یہاں آنے کا علم کیوںکر ہوا تب بھی جمال اور کمال کو اس بات پر زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی اس لیے کہ ”پربت کی رانی کا انجام” والی مہم کے دوران وہ اسی طرح کئی ایک ڈیرہ دیکھ چکے تھے۔ اس ڈیرے کے لوگ سرحدی محافظوں کا سا کردار ادا کرتے تھے اور وہاں کا سردار بھی ادارے کےلیے کام کیا کرتا تھا یقیناً یہاں بھی صورتِ حال ایسی ہی رہی ہوگی اور ان سب کے یہاں آنے کی خبر ان کو ادارے کی جانب سے مل گئی ہوگی۔ خاطر داری کے بعد ان سب کو ایک اچھی سی رہائش گاہ میں منتقل کر دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ وہ مکمل آرام کر لیں تو اچھا ہے۔ خاص طور سے جمال اور کمال کےلیے یہ ہدایت زیادہ تاکید سے دی گئی تھی۔

جمال نے کمال سے کہا کہ ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ آرام کی تاکید میں مجھے تو کوئی راز دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والی رات ہمارے لیے زیادہ اہم ہو۔ خیر جو کچھ بھی ہو گا دیکھا جائے گا۔ لگتا ہے کہ جو جوان گزشتہ رات اغوا کئے گئے تھے، ان ہی کی بازیابی کا کوئی سلسلہ ہو لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ڈیرہ ”پربت کی رانی کا انجام” والی مہم ہی جیسے کسی سردار کا ڈیرہ ہے اور یہاں کا سردار بھی اسی ڈیرے کی طرح ادارے اور ملک کا وفادار ہے تو یہاں کے افراد سے بازیابی کا کام کیوں نہیں لیا جا سکتا تھا۔ کمال نے کہا میرا خیال ہے کہ ہمیں اس مسئلے پر زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ ایسا کرنے میں بھی کوئی نہ کوئی راز ضرور ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی اس راز سے پردہ اٹھا کر ہمیں حقیقی صورتِ حال سے ضرور آگاہ کیا جائے گا۔

دن گزر چکا تھا۔ رات کا کھانا وہ کھا کر سونے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ جمال اور کمال کو سردار کے حکم کے مطابق ان کو ایک خاص مقام پر طلب کر لیا گیا۔ یہ بھی ایک الگ تھلگ قیام گاہ تھی جیسی خود جمال اور کمال کے قیام کےلیے دی گئی تھی البتہ یہ قیام گاہ زیادہ پُر شکوہ تھی۔ جس کمرے میں جمال اور کمال کو لایا گیا تھا وہاں صرف سردار موجود تھا۔ یہاں تک لانے والوں کو جانے کا اشارہ کیا گیا اور وہ فوجیوں کے سے انداز میں مڑ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔

ان کے جانے کے بعد سردار نے دونوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ہمیں تم دونوں کے متعلق سب کچھ بتا دیا گیا ہے۔ ”پربت کی رانی کا انجام” والی مہم میں تم دونوں کا اہم کردار خود ہمارے پڑوس کے ڈیرے والے سردار نے تفصیل سے بتا رکھا تھا لیکن اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ تم دونوں ہو کون، نہ ہی شکل و صورت کی کوئی ایسی تصویر کشی کی تھی کہ ہم کہیں دیکھیں تو تم دونوں کو پہچان سکیں۔ اپنے بارے میں میں تم دونوں کو بتاتا چلوں کہ اس ملک کے قیام کے اول روز سے ہی میرے دادا نے یہ عہد کر لیا تھا کہ ہم اس نئے ملک کے ساتھ ہمیشہ وفاراری کریں گے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کےلیے جو قربانی دینا پڑی دیں گے۔ دادا کے بعد میرے والدِ محترم نے یہ ذمہ داری اٹھائی بھی نبھائی بھی لیکن اب وہ کافی ضعیف ہو چکے ہیں اس لیے انھیں نے یہ ذمے داری میرے کندھوں پر ڈال دی ہے۔ میں یا میرے قبیلے کا کوئی ایک فرد بھی ادارے کا ملازم نہیں لیکن سرحد کی حفاظت کا جو عہد میرے دادا نے کیا تھا، اس عہد پر یہاں کا ایک ایک جوان قائم ہے۔ ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ اس ملک کا ہر ادارہ ہم پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرتا ہے اور سرحدی کشیدگی کے معاملے میں ہم سے مشورہ بھی کرتا ہے ہمیں مدد بھی فراہم کرتا ہے۔(جاری ہے)

حصہ