لیڈر کون ہوتا ہے؟

209

دنیا میں انقلابات اور تبدیلی لیڈر کے ذریعے آتی ہے۔ لیڈر وہ شخص ہوتا ہے جو مشکل اور پیچیدہ ترین حالات میں بھی لوگوں کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ اپنے وقت کے مسائل اور رجحانات سے آگاہ ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو دوسروں کو متاثر کرسکتا اور ترغیب دے سکتا ہے کہ وہ مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے کام کریں۔ یہ ایسے باہمت لوگ ہوتے ہیں جو زندگی میں آنے والی رکاوٹوں کو اپنے لیے نئے راستے تلاش کرنے کا ذریعہ یا بہانہ سمجھتے ہیں اور دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔ یہ کچھ الگ ہوتے ہیں، ان کی سرگرمیاں جزیات سے ہٹ کر بحیثیتِ مجموعی مقاصد سے جڑی ہوتی ہیں۔ ایک اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو شکست دے کر دوسروں کو فتح کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک بڑا لیڈر وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو اتنا بااختیار بناتا ہے کہ وہ خود لیڈر بن جائیں۔ اصل میں تو لیڈر کا کام رہنمائی کرنا اور راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اُس کام کو کرنے کے لیے متحرک کرتا ہے جو وہ کرنا ممکن نہیں سمجھتے، یا اُن میں کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ لیڈر ان کے اندر حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ اس کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ لوگوں کو محسوس کرائے کہ وہ اہم ہیں، چاہے وہ کتنا بھی معمولی کیوں نہ لگتے ہوں۔ اس کمال کے شخص میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد کرتا ہے۔ ایک لیڈر وہ ہوتا ہے جو دوسروں کو بہتر بناتا ہے۔ وہ فیصلے کرتا اور کراتا ہے۔ وہ لوگوں کو یہ محسوس کراتا ہے کہ وہ کسی مقصد کا حصہ ہیں جو اُن کی اپنی شخصیت سے بڑا ہے۔ وہ مثال قائم کرتا ہے، جو لوگوں کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے میں مدد دیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لیڈرشپ کے مختلف پہلوئوں کو اگر دیکھا جائے تو ایک اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو مختلف حالات میں درست فیصلے کرنے کے قابل ہو، اور جو اپنے ساتھیوں اور پیروکاروں کو بہتر بنانے کے لیے وقف ہو۔ کہتے ہیں کہ حقیقی لیڈر وہ نہیں ہوتے جو صرف بلند و بالا تقریر کرتے یا جذباتی نعروں سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ وہ ایسے افراد ہوتے ہیں جن میں ایک خاص قسم کی بصیرت اور دوراندیشی ہوتی ہے جو انہیں معاشرے کے انفرادی ارکان کی اجتماعی خواہشات اور توقعات کو سمجھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ یہی بصیرت انہیں انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات کے حصول کی جدوجہد میں ضم کرنے اور انہیں اس طرح پیش کرنے کا طریقہ تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے جو مختلف طبقات کے لوگوں کو متاثر کرے اور انہیں اپنی حمایت پر آمادہ کرے۔

لیکن اس مملکتِ خداداد کی بدقسمتی ہے کہ قائداعظم کے بعد کوئی حقیقی لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا جو ریاست کی طاقت سے نہیں بلکہ اپنی قائدانہ صلاحیت سے مضبوط اور بڑا لیڈر بنتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ بقول اکبر الٰہ آبادی

کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا

لیڈر دیانت داری، باہمی ہمدردی اور ایک اچھے سامع ہونے کی صلاحیت پر انحصار کرتے ہیں۔ ایک اچھا لیڈر یا رہنما سننے کی صلاحیت زیادہ رکھتا ہے۔ ایسے رہنما ایسا حل تلاش کرتے ہیں جو عوام کے ایک بڑے حصے کے لیے قابلِ قبول ہوں۔ لیڈرشپ کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور اپنے منتخب کردہ نمائندوں کو اپنے فیصلوں کے لیے جواب دہ سمجھنا چاہیے۔ ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ ہم معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ آنے والے لیڈروں میں مستقبل کے لیے ایک واضح تصور ہوتا ہے۔ ہر زمانے میں ایک رہبر اور لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’خود کو ڈھونڈ لے تو دنیا تجھے ڈھونڈے گی‘‘۔ کچھ لوگ اپنے اوصاف سے عروج پاتے ہیں تو کچھ زوال پذیر ہوجاتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی لیڈر بار بار غلط فیصلے کرتا ہے تو اس سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور وہ اس کی قیادت پر سوال اٹھانے لگتے ہیں۔ اگر کسی لیڈر پر بدعنوانی کا الزام ثابت ہوجائے تو اس سے اُس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور وہ عوام کی نظروں میں اپنی legitimacy کھو دیتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی لیڈر اپنے عہدے کے لیے نااہل ہے اور اس کے پاس مقصدکے حصول کے لیے ضروری صلاحیتیں اور ویژن نہیں ہے تو وہ جلد ہی ناکام ہوجاتا ہے اور اس کے زوال کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ ایک اور بات جو اہم ہے اور سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ جب کوئی لیڈر غرور و تکبر کا شکار ہوجاتا ہے اور لوگوں یا عوام کی بات سننے سے انکار کردیتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو الگ تھلگ کرلیتا ہے اور اس کا زوال یقینی ہوجاتا ہے۔ ابن خلدون کا کہنا ہے کہ جب بادشاہ ظالم ہوجاتا ہے اور رعایا پر ظلم و ستم کرتا ہے تو رعایا اُس کے خلاف بغاوت کردیتی ہے اور اسے تخت سے اتار دیتی ہے۔ اسی پس منظر میں میکاولی کا کہنا ہے کہ ایک لیڈر کو ہمیشہ عوام کی حمایت حاصل رکھنی چاہیے، اگر وہ عوام کی حمایت کھو دیتا ہے تو جلد ہی ناکام ہوجائے گا۔

آئیے اپنے اندر لیڈر والی صفات پیدا کریں، معاشرے میں رہنمائی کرنے والا بنیں، اور جس میدان میں ہوں اپنی الگ منفرد اور مثبت شناخت کو سامنے لائیں، اور اپنا لیڈر بھی ایسا ہی تلاش کریں، اُسی کی پیروی کریں جو خدا اور اس کے رسولؐ سے رہنمائی حاصل کرتا ہو۔ یہ دینی اور قومی تقاضا ہے جس کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

حصہ