حالات

162

’’السلام علیکم امی!‘‘ واعظ نے تھکے تھکے انداز میں ماں کو سلام کیا اور صوفے پر ڈھے سا گیا۔
’’وعلیکم السلام بیٹا! سب خیریت ہے؟ آج بہت دیر کردی آنے میں۔‘‘ شازیہ نے فکرمندی سے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
’’امی میرا دوست عمیر ہے نا، آپ بھی جانتی ہیں، کئی دفعہ ہمارے گھر بھی آچکا ہے، اُس کی امی کا انتقال ہوگیا ہے۔‘‘
’’انا للہ وانا الیہ راجعون… بہت افسوس ہوا بیٹا! کیسے ہوا؟ کیا بیمار تھیں؟‘‘
’’نہیں امی! وہ تو بالکل ٹھیک تھیں، کل رات کو آنٹی اور انکل کسی تقریب سے واپس آرہے تھے کہ کچھ ڈاکوں ان کے پیچھے لگ گئے اور ویران جگہ دیکھ کر ان کا پرس چھیننے لگے، اسی چھینا جھپٹی میں آنٹی بائیک سے گر گئیں اور ان کے سر پر اتنی شدید چوٹ آئی کہ اسپتال پہنچنے تک انہوں نے دَم توڑ دیا۔ سب کچھ اتنا اچانک ہوا ہے کہ بے چارہ عمیر غم سے نڈھال ہورہا ہے، اسی لیے ہم سارے دوست اُس کے ساتھ ہی تھے۔‘‘
’’ہاں بیٹا! اچھا کیا، اِس وقت اُسے دوستوں کے ساتھ کی ضرورت ہے۔ غم بھی تو اتنا بڑا ہے۔ میں بھی چلوں گی تمہارے ساتھ اُس کے گھر۔ اللہ تعالیٰ سب کو ناگہانی سے بچائے، اب تو گھر سے نکلتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے، ڈکیتی کی وارداتیں دن بہ دن بڑھتی جارہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کرے جن کی نظر میں انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں۔‘‘
’’امی! یہ حکومت تو خود قوم کی مجرم ہے، کوئی بھی مخلص نہیں ہے۔ عوام کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ اس وقت ہمارے ملک کو محبِ وطن اور محنتی لوگوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہے ہو بیٹا! ملکی قیادت نیک لوگوں کے ہاتھ میں ہی ہونی چاہیے، یہی لوگ ملک کے حالات بہتر کریں گے اِن شاء اللہ۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ اچھے لوگوں کی مدد فرمائے اور انہیں فتح نصیب ہو،آمین۔‘‘

حصہ