عید سعید

158

بھانجی امبر کی شادی سے واپسی پر نعیم صاحب سارے راستے خاموش رہے، اور ناعمہ نے تو چپ سی سادھ لی۔ کتنے دن گزر گئے سارا گھر پریشان تھا، کیوں کہ شادی میں ہر کوئی نعیم صاحب سے اُن کی اکلوتی بیٹی ناعمہ کی رخصتی کا پوچھ رہا تھا:

’’بھائی! پانچ سال ہوگئے ہیں نکاح کو۔‘‘

’’ لڑکا امریکا میں ہو یا کسی اور ملک میں، ایک سال کے اندر اندر ویزا مل جاتا ہے۔‘‘

’’یہ کیا معاملہ ہے؟ لڑکے والوں سے کھل کر بات کرو۔‘‘ نعیم صاحب کے بڑے بھائی وقار صاحب نے چپکے سے ایک طرف لے جاکر سمجھایا۔کیوں کہ وہ اپنے بی اے پاس کلرک بیٹے کے لیے پہلے سے خواہش مند تھے، مگر ناعمہ کا نکاح عاصم سے طے ہوا جو امریکا میں IT انجینئر تھا۔

خاموشی کی وجہ تو ناعمہ کا بڑا بھائی عزیر بھی جانتا تھا،کیوں کہ اس کی شادی بھی التوا میں تھی۔ دونوں بہن بھائیوں کی شادی کا خرچہ خاندان بڑا ہونے کی وجہ سے زیادہ متوقع تھا، تو یہ طے ہوا کہ عزیر کے ولیمے پر ناعمہ کی رخصتی ہوجائے گی اور اس طرح ایک ہی کھانے سے ایک پنتھ دو کاج ہوجائیں گے، اس طرح نعیم صاحب گریجویٹی کی رقم سے دونوں بچوں کے فرض سے فارغ ہوجائیں گے۔

ناعمہ نے ماسٹرز کے بعد پی ایچ ڈی بھی کرلی، پرائیویٹ کالج میں اسے جاب مل گئی، مگر گورنمنٹ میں اپلائی نہ کیا کہ باہر جانا ہے، کسی کا حق کیوں ماریں!

ناعمہ کی بڑی خالہ آمنہ دبئی سے آئیں، انہوں نے اپنی چھوٹی بہن فرزانہ (ناعمہ کی امی) سے کہا کہ ’’لڑکے والوں کو گھر بلائو اور اُن سے کھل کر بات کرو کہ کب سے انتظار کررہے ہیں، اب فائنل تاریخ دیں، ہماری بچی کی عمر بڑھ رہی ہے۔ اس کی عمر کی بچیاں ایک ایک کرکے اپنے گھر کی ہوگئیں۔پورا خاندان ہم سے پوچھ رہا ہے کہ ناعمہ کی رخصتی کب تک ممکن ہے۔ ان پر زور ڈالو جلدی بلائیں لڑکے کو۔‘‘

دوسرے دن فرزانہ بیگم نے عاصم کی والدہ رضیہ صاحبہ کو فون کیا۔ انہوں نے دو تین دن کا وقت مانگا اور کہا ’’عاصم سے بات کرکے ہم حاضر ہوتے ہیں۔‘‘

تین چار دن کے بعد عاصم کی والدہ فرزانہ عاصم کے والد کے ساتھ تشریف لائیں اور ایک ماہ کا وقت مانگا کہ جیسے ہی ویزے کی کارروائی مکمل ہوتی ہے، وہ ٹکٹ لے کر آجائے گا۔ سب خوش ہوگئے۔

عاصم نے بھی ناعمہ سے کہا کہ ’’ ویزا پروسیسنگ میں ہے، تم میرا اعتبار کرو، بس جیسے ہی ویزا ملتا ہے اگلی فلائٹ سے میں پاکستان میں ہوں گا اِن شاء اللہ۔‘‘

مہینہ گزر گیا، دو مہینے بعد کا شادی ہال بھی بک کروایا ارجنٹ، مگر عاصم نے پھر معذرت کی کہ ناعمہ کا ویزا ابھی نہیں ملا۔ ایک سال ہوگیا، چھ سال ہونے کو آئے تو نعیم صاحب کے بڑے بھائی وقار اور خالہ آمنہ نے مشورہ دیا کہ طلاق لو، ہوسکتا ہے لڑکے نے وہاں شادی کرلی ہو… اور اب ٹال مٹول کررہے ہیں۔

خیر، عاصم کی والدہ اور والد کو بلایا گیا اور تایا اور خالہ کی عدالت میں فیصلہ ہوا کہ اگر ایک ماہ کے اندر عاصم ویزا حاصل نہ کرسکا تو طلاق لے کر ناعمہ کا نکاح کہیں اور کردیں گے۔

اور کہیں کیوں؟ تایا اور خالہ امیدوار کھڑے تھے۔ مگر ناعمہ اور فرزانہ بیگم دونوں پریشان تھیں۔ ادھر عاصم کے فون آرہے تھے ناعمہ کو کہ ’’سمجھاؤ اپنے گھر والوں کو، میں دھوکے باز نہیں ہوں، اللہ جانے کیوں دیر ہورہی ہے، امریکا میں اکثر کو ویزا دیر سے ملتا ہے، میں اپنی پوری کوشش کررہا ہوں۔ ایسا کرو کہ آنٹی سے کہو کوئی ہال بک نہ کرائیں، میرے دوست کا گھر ہزار گز کا ہے، ان کا لان بڑا ہے، وہیں ارینج کرلیں گے۔ عزیر کا بھی وہیں کروالیں گے۔ مگر رشتہ نہ ختم کریں… پلیز۔‘‘

وہ عزیر کو بھی روز فون کرتا اور ناعمہ کو بھی۔ اسی اثنا میں رمضان آگیا اور نعیم صاحب نے بھی رمضان تک کی ڈیڈ لائن دے دی کہ اس کے بعد ہماری طرف سے رشتہ ختم ۔

پندرہ رمضان کو نعیم صاحب نے وکیل صاحب کو خلع کے پیپر تیار کرنے کو کہا اور اکیس رمضان کو عاصم کے والد صاحب کو مطلع کر دیا۔ عاصم کا برا حال تھا اور ناعمہ رو رو کر بے حال تھی۔ فرزانہ بیگم نے کہا کہ ’’بیٹا اب اللہ سے دعا کرو، سب اس کے بس میں ہے، اس کے حکم سے سب ممکن ہوگا۔‘‘

آخر نعیم صاحب نے عاصم سے کہا کہ ’’وہ رمضان کا آخری عشرہ دے رہے ہیں۔ بصورتِ دیگر وہ امریکا سے اپنی جاب ختم کر کے پاکستان آجائے۔ رزق اس کے نصیب کا پاکستان میں بھی مل جائے گا۔‘‘

اس کے لیے عاصم کے والدین نہ مانے مگر عاصم بضد کہ ’’آپ رشتہ ختم نہ کریں، میں ناعمہ کو نہیں چھوڑ سکتا ۔ میں ہر ممکن کوشش کروں گا۔‘‘
عید کی وجہ سے سیٹ بھی نہیں مل رہی تھی۔ بس ناعمہ گڑ گڑا کر بار گاہِ الٰہی میں دعائیں کررہی تھی کہ اس کا رشتہ نہ ٹوٹے، اپنے ابو سے بھی کہا، مگر نعیم صاحب حتمی فیصلہ کرچکے تھے۔ تیسواں روزہ بھی افطار ہوگیا اور ناعمہ کا اعتکاف ختم ہوگیا۔ اس نے عشا کی نماز میں بارگاہِ الٰہی میں رو رو کر دعا کی۔ ساری رات نیند نہ آئی۔ تہجد پڑھی، پھر پتا نہیں کب نیند نے آنکھوں میں بسیرا کیا۔
فجر کی اذان ہوئی، منوں بھاری قدموں سے اٹھی، وضو کیا، نماز ادا کی، قرآن پاک کی تلاوت کی۔ بس جو جائے نماز پر سر رکھا پھر نہ اٹھایا اور بے ہوش ہوگئی۔
امی کے جھنجھوڑنے پر ناعمہ کو ہوش آیا۔ کانوں میں آواز آئی ’’بیٹا! عاصم کی امی کا فون آیا ہے کہ عاصم ابھی فجر میں پاکستان پہنچ گیا ہے… آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘
یہ سن کر ناعمہ اور سب گھر والوں کی جان میں جان آئی۔
عید کی نماز کے بعد عاصم نے عید مبارک کا فون کیا کہ ’’یہ عید ہمارے لیے عیدِ سعید ہے، خوشی ومسرت کا پیغام ہے۔ مجھے کل ویزا ملا جب میں اپنا استعفیٰ ٹائپ کررہا تھا۔ اسے چھوڑ کر چند کپڑے بیگ میں ڈال کر ائر پورٹ پہنچا۔ میری سیٹ کنفرم نہیں تھی۔ ائرپورٹ پر ایک مسافر نے میری پریشانی دیکھ کر لاسٹ فلائٹ میں مجھے اپنی سیٹ دے دی۔ اور میں فجر کی نماز پڑھ کر گھر آیا ہوں۔‘‘
دونوں گھروں میں عید سے پہلے عید کا سماں تھا۔ عید کی نماز پڑھ کر اپنے والدین کے ساتھ عاصم ناعمہ کے گھر آیا اور دو دن بعد ناعمہ کی رخصتی طے ہوگئی۔

حصہ