سوشل میڈیا کے الارم

235

دبئی ٹاپ ٹرینڈ:
ٹوئٹر ’ایکس‘ پر پابندی تاحال جاری ہے، اس ہفتے سندھ ہائی کورٹ نے پی ٹی اے کو حکم بھی دیا کہ پابندی ختم کی جائے۔ اُمید ہے ختم ہوجائے۔ پابندی کے ایام میں کچھ معلومات لینے کے لیے وی پی این کا خطرناک طریقہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ کے آئی پی ایڈریس سے جب ٹوئٹر میں قدم رکھا تو لندن کی ٹرینڈ لسٹ میں ’دبئی‘ دیکھ کر کچھ حیرانی ہوئی۔ ٹرینڈ دبئی کی سیلابی بارش کی وجہ سے خبروں کا مرکز بنا تھا۔ اُس کے ذیل میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی ایجنسی کے سیکریٹری کا بیان بھی ملا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’دُنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے صرف 2 سال رہ گئے ہیں۔‘‘ یہی نہیں ٹوئٹر، فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ سب پر دبئی، عمان و دیگر شہروں کی وڈیوز دیکھنے کو ملیں تو بات سمجھ میں آئی۔ افسوس اِس بات کا تھا کہ لوگ صرف برسات کی تباہی کو ہی موضوع بنائے ہوئے تھے، اُن کے نزدیک یہ سیلابی برسات کی تباہی معمول کی سی بات تھی۔

2 سال میں کیا ہوگا:
پاکستان میں بھی اپریل کے مہینے میں ہونے والی برسات… یہی نہیں عمان، سعودی عرب، افغانستان، متحدہ عرب امارات میں سیلابی بارشوں اور بے موسم برف باری کو کسی عمومی موسمیاتی تبدیلی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ جدید تعلیم یافتہ، جدید آلات سے مزین موسمیاتی ماہرین چیخ چیخ کر متوجہ کررہے ہیں کہ یہ موسمیاتی، ماحولیاتی تبدیلی پوری دنیا کو تباہ کررہی ہے۔ یہ کوئی ارتقائی عمل نہیں ہے۔ اب سب نے دیکھا کہ دبئی بھی ڈوب گیا، ریگستانی خطے میں سیلاب آگیا، مگر بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ امریکا کے ایک حصے میں قحط اور دوسرے حصے میں سیلاب کی صورتِ حال صبح کے الارم کی کیفیت نہیں بلکہ ’’چھُٹی کا گھنٹہ‘‘ہے۔ اقوام متحدہ کی موسمیاتی ایجنسی نے کہا ہے کہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لیے انسانوں کے پاس صرف 2سال باقی ہیں۔ وہ کئی سال سے سب (جدید ترقی یافتہ ممالک)کو متنبہ کررہی ہے کہ سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی پر قابو پائو، اس ساری ترقی نے جو اثرات چھوڑے ہیں وہ پوری دنیا کو ایسے تباہ کررہے ہیں کہ اب 2 سال بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیںملے گا۔ ترقی یافتہ ممالک کے گرمی میں اضافہ کرنے والے مواد کے اخراج کو روکنے کے لیے جلد مؤثر اقدامات کا مطالبہ مستقل کیا جا رہا ہے۔ ایجنسی کے ایگزیکٹو سیکرٹری سائمن اسٹیل کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ انتباہ ایک ڈرامائی بیان لگتا ہے لیکن جلد اقدامات بہت ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتوں کے پاس دنیا کو بچانے کے لیے 2سال ہی رہ گئے ہیں، جب کہ درحقیقت کرۂ ارض کا ہر فرد اس کا ذمے دار ہے۔

متحدہ عرب امارات والوں کا حال یہ ہے کہ 24 سال قبل بارش کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی بارشیں کرا رہے تھے۔ اَب جو بارش کا سامنا ہوا ہے تو سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے، سارا نظام درہم برہم ہوگیا۔ بے موسم کی اس برسات نے صرف برسنے کا ریکارڈ ہی نہیں توڑا بلکہ ’تصورِ ترقی‘ کو بھی پاش پاش کردیا۔ قدرت کو تباہ کرتی ترقی کی غلیظ چادر اوڑھنے کے بعد اس خطے میں ہونے والی بے موسم برسات نے سب کچھ تلپٹ کردیا۔ وہ خطہ جو قدرت نے ہمیشہ ہر قسم کی برسات سہنے کے لیے بنایا تھا، وہاں کنکریٹ کا جنگل کھڑا کرکے اُس کی ہیئت بدلنے سے پیسہ تو بہت کمالیا گیا مگر یہ سب ایک بارش میں سارے نظام کو بہا لے گیا۔ قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے تو اب وہ ردعمل دے رہی ہے، اور قدرت کے ساتھ جنگ تو کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔سوال یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کے برے معاشی حالات جان کر یورپ یا امریکا جانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسے میں جب پوری دنیا ہی تباہ ہونے جا رہی ہے،وہ اب مزید کہاں جائیں گے؟ لوگ اب بھی اقوام متحدہ کی جدید ٹیکنالوجی سے معلوم کی گئی اس حقیقت بھری تنبیہ کو سنجیدہ نہیں لے رہے، جبکہ اس کا انجام ایک گائوں،شہر یا ملک اور براعظم نہیں بلکہ پوری دُنیا کی تباہی کی صورت پڑنے جارہا ہے۔ایک ایسی تباہی جسے نہ پیسے دے کر بچایا جا سکتا ہے نہ ہی واپس لوٹایا جا سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پابندی:
یہ معاملہ ابھی تو ٹرینڈ نہیں بنا مگر اس کا تعلق براہِ راست ہمارے موضوع سے ہے، اس لیے ڈسکس کرنا ضروری ہے۔ یہ موضوع بھی اوپر والے موضوع کی طرح ایک بہت بڑا ’’الارم‘‘ہے۔ اوپر دنیا کی طبعیاتی یا جسمانی تباہی تھی، اِس کیس میں روحانی تباہی ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر کے ریگولیٹر نے سندھ ہائی کورٹ کو اس ہفتے بتایاکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے قابلِ اعتراض مواد پر ساڑھے بارہ لاکھ سے زیادہ یو آر ایل کو بلاک کردیا ہے۔ اتھارٹی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اَپ لوڈ کیے جانے والے ’’قابلِ اعتراض، غیر اخلاقی اور غیر قانونی‘‘ مواد کے خلاف دائر درخواست پر اپنا جواب جمع کرایا۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور درخواست گزاروں کے وکیل کو ریگولیٹر کے جواب کی کاپی بھی فراہم کی۔ پی ٹی اے نے اس طرح کے مواد کو روکنے اور اس کے اثرات سے بچانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور علمائے کرام سے مشاورت کے دیگر اقدامات بھی عدالت کو بتائے۔ ریگولیٹر نے عدالتِ عالیہ کو بتایا کہ بلاک کیے گئے یو آر ایلز میں سے 9 لاکھ سے زائد میں غیر اخلاقی فحش مواد، اسلام کی شان کے خلاف 90 ہزار لنکس،84 ہزار لنکس جو ملکی سلامتی اور دفاع کے خلاف مواد پرمشتمل تھے، اُن کو بلاک کردیا گیا۔ اس کے علاوہ فرقہ واریت، ہتک عزت اور نقالی، پراکسی و دیگر متفرق وجوہات کی بنا پر ایک لاکھ کے قریب اکائونٹس بلاک کیے گئے ہیں۔ تفصیلات بتاتے ہوئے پی ٹی اے نے کہا کہ بلاک شدہ یو آر ایلز میں سے فیس بک، ٹک ٹاک، یوٹیوب، انسٹاگرام، اسنیک ویڈیو، Bigo، ڈیلی موشن کے بھی اکائونٹس و لنک ہیں۔

ریگولیٹر نے عدالت کو بتایا کہ وہ تقریباً 1.3ملین لنکس کا ریکارڈ برقرار رکھے ہوئے ہیں، جس میں سے 71ہزار سے زیادہ اب بھی قابلِ رسائی ہیں۔ ڈیٹا بیس کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے، URLs کی بار بار تصدیق اور دوبارہ تصدیق کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ ’’ایک جاری مشق‘‘ تھی۔ کراچی کے ایک معروف ٹیوبر ’حسن بیگ‘ نے ایڈووکیٹ عثمان فاروق کے توسط سے سندھ ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر قابلِ اعتراض و غیر اخلاقی مواد کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی۔ پی ٹی اے نے اپنے جواب میں پٹیشن کو بے بنیاد کہہ کر مسترد کرنے کی درخواست کی، مگر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ان امور کی سنگینی سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے الٹا پی ٹی اے سے جواب طلب کرلیا کہ جو کچھ وہ کرچکے ہیں اس کی تفصیلات بتائیں۔ ’’غیر قانونی آن لائن مواد‘‘کے عنوان سے الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 پی ٹی اے کو اختیار دیتا ہے کہ ’’اگر وہ اسلام کی شان یا سالمیت و سلامتی کے مفاد میں ضروری سمجھتا ہے تو کسی بھی معلوماتی نظام کے ذریعے کسی معلومات تک رسائی کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے لیے ہدایات جاری کرے۔ یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کے دفاع، امنِ عامہ، شائستگی یا اخلاقیات، یا توہینِ عدالت یا اس ایکٹ کے تحت کسی جرم پر اکسانے کے سلسلے میں جو بھی کام کیے تھے ان کی تفصیلات عدالت کو جمع کرائے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر مزید کوئی ایسے اکائونٹس یا لنکس ہیں تو ہمیں بتائے جائیں تاکہ ہم ان سب کو بند کر سکیں۔ عدالت نے اس ضمن میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر سے بھی جواب لینے کے لیے سماعت 15 مئی تک ملتوی کر دی۔

پی ٹی اے نے جو جواب جمع کرایا ہم نے اس کی کاپی ایڈووکیٹ عثمان فاروق سے حاصل کی اور ا س کے مزید اہم نکات سے آپ کو ضرور مطلع کریں گے تاکہ بحیثیت والدین یا بحیثیت مسلمان آپ اس اہم ذمہ داری کو سمجھ سکیں۔ رمضان سے قبل کی تحریر میں ’سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد‘ سے متعلق میں نے سزا پانے والے ایک شخص کی تفصیل اور حکومتی اقدام بتائے تھے۔ پی ٹی اے کی جانب سے جن لنکس پر پابندی لگی ہے اس میں سب سے بڑی تعداد فحش مواد سے تعلق رکھتی ہے، لیکن اس کے بعد اگلا نمبر ’گستاخانہ مواد‘ کا ہے۔ہماری اطلاعات کے مطابق کئی منظم گروہ اِن دونوں دائروں میں کام کر رہے ہیں اور اب بھی ایسے لاکھوں لنکس اور یو آر ایل موجود ہیں جن کو روکنا ہوگا، وگرنہ وہ سب کچھ بہا لے جائیں گے۔

رپورٹ پڑھ کر اندازہوتا ہے کہ پی ٹی اے نے اپنی دانست میں شکایات وصول کرنے اور اس پر عمل کرنے کاایک نظام ضرور بنایا ہے۔فیکس، ای میل، خط، ایپلی کیشن سمیت ہر ذریعہ پی ٹی اے نے فراہم کیا ہواہے۔ یہی نہیں، کئی بار نوجوانوں کو انٹرنیٹ کا محفوظ استعمال سمجھانے کے لیے سیمینار، موبائل میسیجز، لیکچرز و دیگر سرگرمیاں بھی منعقد کی ہیں۔ دینی جماعتوں اور سوشل میڈیا پر معروف و متحرک دینی شخصیات جن میں مولانا طارق جمیل، مولانا خبیر آزاد، مولانا حنیف جالندھری، عبدالحبیب عطاری، شجاع الدین شیخ، جامعۃ الرشید سمیت کئی لوگوں کو اس مشاورت میں شامل کیا ہے، ان کے مختصر بیانات کی وڈیوز بنائی ہیں۔ اس کے علاوہ یونی سیف، ٹک ٹاک، میٹاکے اداروں کو بھی آن بورڈ لیا ہے۔ کرکٹر حضرات سے بھی پیغامات دلوائے گئے ہیں۔ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر آگہی کے پروگرامات کیے گئے ہیں۔اخبارات میں مضامین و کالم شائع کرائے گئے، اس کا الگ سے دن بھی منایا گیا۔

ریاستی دائرے میں بظاہر تو کوشش نظر آتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نوجوان یا انٹرنیٹ یوزر ریاستی ہدایات کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ پی ٹی اے کے آفیشل یوٹیوب چینل پر صرف 3 ہزار سبسکرائبر ہیں۔ سب سے مقبول وڈیو چوری شدہ موبائل کی رپورٹ کرانے کا طریقہ ہے جو صرف 89 ہزار ویوز رکھتی ہے۔ بے شک پی ٹی اے نے اہم ترین معلومات ڈالی ہوئی ہیں مگر ان کو لوگ دیکھتے ہی نہیں۔ جب دیکھیں گے نہیں تو عمل تو بہت دور کی بات ہے۔ طارق جمیل کی وڈیو کے صرف 564 ویوز ہیں یوٹیوب پر۔ ہوسکتا ہے کہ مولانا نے یہ گفتگو اپنے طور سے مختلف بیانات میں کردی ہو، لیکن ہم تو پی ٹی ا ے کے تناظر میں بات کررہے ہیں۔ پی ٹی اے نے آپشن سے متعلق عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا آپریٹرز تو ٹیلی کام سیکٹر سے لائسنس یافتہ نہیں ہوتے اور اپنے ملک میں اپنے قواعد سے چلتے ہیں، بلکہ یہ OTT سرورز سے ہوسٹ کیے جاتے ہیں۔ او ٹی ٹی مطلب Over the top جس میں انٹرنیٹ سے براہِ راست چیزیں نشر ہوتی ہیں بغیر کسی درمیانی واسطے کے۔ یہ پاکستان میں کہیں رجسٹرڈ نہیں ہیں، تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے بھی شکایات درج کرانے کا نظام بنا رکھا ہے، اس پر لوگ اگر مستقل شکایات کریں اور اس کی آگہی رکھیں تو اس سے بھی فرق پڑتا ہے۔

یہ سب معلومات آپ کو دینے کا مقصد یہی ہے کہ براہِ کرم اپنے بچوں کے ہاتھ میں انٹرنیٹ، موبائل ایسے ہی مت تھما دیں۔ لاکھوں لنکس بند کرادیے گئے ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی مزید کئی لاکھ ابھی باقی ہیں۔ یہ سب ایسے اچانک نظروں کے سامنے آجاتے ہیں کہ آپ نہ چاہتے ہوئے ان کو دیکھ لیتے ہیں، پڑھ لیتے ہیں، یہ آپ کے دماغ میں نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ نوجوان بچہ اکیلا ہو تو معاملات تجسس کی بنیاد پر مزید خراب ہوجاتے ہیں۔ بلوغت کی عمر یعنی آٹھویں جماعت سے بارہویں جماعت کے درمیان کے بچوں کو دوستوں کی گیدرنگ سے جو نئی معلومات ملتی ہیں اُس میں وڈیوز، سوشل میڈیا سمیت کئی ذرائع ایک خطرناک سمت لے جاتے ہیں، بچوں کو اُن چیزوں کی حقیقت کا شعور نہیں ہوتا اور وہ اُس دائرے میں آنا شروع ہوجاتے ہیں جس میں اُن کو نہیں جانا چاہیے۔ اس لیے براہِ کرم جدید آلات کو نئی ٹیکنالوجی سمجھ کر بچوں کے ہاتھ میں ایسے مت دیجیے کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔

ایرانی حملہ:
ایران نے اپنے اہم فوجی جرنیلوں، کمانڈروں، سفیر، فوجی سپاہیوں کی اسرائیل و امریکا کے ہاتھوں اموات کا بدلہ ڈرون و دیگر حملوں سے لے لیا۔ ایران کے حوالے سے انٹرنیٹ پر بھی عوام تقسیم نظر آئے، یعنی ایک طبقہ مکمل شاباشی دے رہا اور حمایت کررہا تھا کہ ایران بہرحال مزاحمتی قوت ہے۔ دوسرا طبقہ کہہ رہا تھا کہ چلو ایران ہی سہی، کسی نے ہمت تو کی، کیونکہ دیگر ممالک تو اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں کررہے۔ تیسرا طبقہ وہ تھا جو ایران کو ایک سازشی کردار اور اس کے عقائد کی بنیاد پر، ایران کے ہاتھوں شام و عراق میں سنی مسلمانوں کے قتل کی روشنی میں اِس حملے کو ایک ’نورا کشتی‘ قرار دے رہا تھا۔ ہم بھی بس یہ بتائیں گے کہ سوشل میڈیا پر کیا آرا تھیں۔

حصہ