آخر شپ کے ہم سفر

220

ندی کا رنگ سُرخ ہوگیا۔ دور سے شیروں کے گرجنے کی آواز آرہی تھی۔ ریحان نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا۔ پھر کہا۔

’’ابھی تمہارے آنے سے پہلے میں سوچ رہا تھا‘‘۔ پھر اُس نے ٹھٹھک کر پوچھا۔ ’’تم نے علاول (سیّد علاول۔ سترہویں صدی بنگال کا عظیم شاعر جس کی کشتی پرتگال قزاقوں اور طوفانوں کا مقابلہ کرتی اراکان پہنچی) پڑھا ہے؟‘‘

’’تھوڑا سا‘‘۔
’’کوئی نظم یاد ہے؟‘‘
’’رات سُرخ اور تاریک تھی…؟‘‘

’’ہاں۔ اُدھر دیکھو…‘‘ ریحان نے دور اُفق کی طرف اشارہ کیا جہاں سمندر اور دریا اور جنگل ایک ہوگئے تھے۔

’’سُرخ اور تاریک رات میں ایک ہری نائو‘‘۔ اس نے پانی میں اُنگلیاں ڈبو کر آہستہ آہستہ اپنی خوب صورت آواز میں کہنا شروع کیا۔ ’’ہلتی، ڈولتی، طوفان زدہ، متحیر، خائف، اراکان کے ساحل کی طرف بڑھ رہی تھی…‘‘

’’لیکن طوفان آیا…‘‘ دیپالیؔ نے مسکرا کر کہا۔
’’لیکن طوفان آیا…‘‘ریحان کہتا رہا۔ ’’اور نائو ساحل کے بجائے ایک دور دراز جزیرے سے جا لگی اور نائو میں سے وہ نوجوان نکلا، بھوکا، زخمی، نڈھال… وہ ریت پر پڑا تھا۔ جب وہ لڑکی وہاں پر آئی اور اس نے کہا…‘‘

’’اُس نے کہا۔ میں تمہیں اپنے گھر لے جائوں گی۔ انسان کو بے آسرا اور مایوس نہ ہونا چاہیے‘‘۔
دیپالی نے کہا۔

’’تم انسان ہونا۔ تاریک تنہا غضب ناک سمندر کی روح تو نہیں؟‘‘
وہ ٹھٹھک گئی اور ریحان کو دیکھ کر علاول کے الفاظ میں سوال دہرایا۔
ریحان نے اقرار میں سر ہلایا۔

’’کیونکہ…‘‘دیپالی کہتی رہی۔ ’’سمندر اپنے غیض میں مبتلا سارے کرئہ ارض کے ساحلوں سے ٹکراتا ہے۔ مگر زمین تک نہیں پہنچ پاتا۔ زمین مضبوط ہے۔ اس نے انسانیت کے مظالم کا بوجھ اپنے اُوپر اُٹھا رکھا ہے۔ سمندر تو ایک چھوٹی سی نوکا کو بھی سہارا نہیں دے سکتا۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑے بڑے میورپنکھی جہاز چاہئیں۔ ایسے بجرے، جن کو چودہ چودہ مانجھی کھیتے ہیں‘‘۔

’’اور اس لڑکی نے علاول سے کہا تھا۔ دھرتی پر گھر بنے ہیں، آسمان خوبصورت ہے۔ چاند خوبصورت ہے۔ مگر چاند میں گھر نہیں ہے۔ گھر ناریل کے سائے میں بنتے ہیں۔ میں تمہارا گھر بنونگی‘‘۔

ہوا ساکت رہی، کائنات تھم گئی… ندی نے بہنا بند کردیا۔ ایک ازلی، ابدی لحظے کے لئے سارا وجود خلاء میں تحلیل ہوگیا۔
پھر ہوا چلی۔ سندری کے درخت سرسرائے۔ ندی بہنے لگی۔ دیپالی اپنی گود میں ہاتھ رکھے اسی طرح ساحل پر بیٹھی رہی۔
’’پھر کیا ہو شوکتی؟ علاول نے اسے کیا جواب دیا؟‘‘ ریحان کی آواز سناٹے میں لہروں کے ساتھ گونجی۔
’’مجھے پتہ نہیں آگے مجھے یاد نہیں آرہا‘‘۔ دیپالی نے جواب دیا۔ پھر اس نے سادگی سے پوچھا ’’آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے‘‘۔
’’ایک اہم کانفرنس کے لئے‘‘۔ ریحان نے سنجیدگی سے کہا۔
’’باقی لوگ ابھی نہیں پہنچے۔ سربندر دا وغیرہ اور عائشہ آپا‘‘۔
’’نہیں، بس اب آتے ہی ہوں گے‘‘۔
’’میں آپ کی ساری چیزیں جو منگوائی تھیں لیتی آئی ہوں‘‘۔
’’گُڈ‘‘۔

’’دیپالی نے بیگ میں سے دو سو کے نوٹ نکال کر اُس کی طرف بڑھائے۔ ’’یہ آپ کے پاس کہاں سے آگئے تھے‘‘۔
اس نے چونک کر نوٹوں پر نظر ڈالی۔ ’’ہمیں اپنی کتاب کی رائلٹی ملی تھی۔ مگر تم کیسے آئیں یہاں تک‘‘۔

’’ہم بھی رئیس ہوگئے ہیں۔ ہمیں اپنے ریکارڈوں کی رائلٹی ملی تھی‘‘۔
’’افوہ۔ تو اس وقت گویا دو سرمایہ دار سندر بن میں آئوٹنگ کررہے ہیں‘‘۔ اس نے شگفتگی سے ایک کنکر پانی میں پھینکا۔
دیپالیؔ پھر بڑی متفکر نظر آئی۔ ’’ریحان دا‘‘۔
’’کہو‘‘۔ وہ کنکر اُٹھا اُٹھا کر ندی میں پھینکتا رہا۔
’’باقی لوگ کہاں ٹھہریں گے؟‘‘

’’ارے بھئی‘‘۔ اُس نے چونک کر جواب دیا۔ ’’کیا باقی لوگ باقی لوگ کرکے بور کر رکھا ہے‘‘۔
’’کیوں؟‘‘
وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔ اور اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
دیپالی نے بھونچکی ہو کر اُسے دیکھا۔ ’’تو آپ نے اونل سے جھوٹ بولا تھا‘‘۔
’’بالکل‘‘۔
’’اور آپ کا خیال تھا۔ میں چلی آئوں گی‘‘۔
’’میرا خیال صحیح تھا!‘‘۔
’’دیپالیؔ غصے سے دوسری طرف مڑ گئی۔
’’شوکتی!‘‘۔
اس نے جواب نہیں دیا۔ اور ندی کے کنارے چلنے لگی۔
’’شوکتی!‘‘
اس نے جواب نہیں دیا۔ اور ندی کے کنارے کنارے چلنے لگی۔
’’شوکتی!‘‘
وہ اور آگے بڑھ گئی۔

’’ایسے ہی چلتی چلی جائو تو سیدھی ڈھاکے پہنچ جائو گی۔ ذرا خیال رکھنا۔ وہ تمہارے سامنے ایک عدد آدم خور گھڑیال بیٹھا ہے…‘‘ ریحان نے بشاشت سے آواز دی۔ سامنے ندی کی سطح پر ایک سیاہ لکیر نظر آرہی تھی۔ ایک گھڑیال تیزی سے دوسرے کنارے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دیپالی چیخ مار کر واپس پلٹی۔

ریحان کھلکھلا کر ہنستا ہوا سیڑھی پر بیٹھ گیا۔ دیپالی اس سے کچھ فاصلے پر دوسری سیڑھی پر آبیٹھی۔ ندی کا پانی سیاہ ہوچکا تھا اور دوسرے کنارے پر سندری کے جھنڈ سرسرا رہے تھے۔ ریحان نے سر اٹھا کر دیپالی کو دیکھا۔ پھر یک لخت بے حد سنجیدہ ہوگیا۔ اور اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’شاید مجھے کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ میں تم کو اس طرح۔ اس طرح زحمت دوں‘‘۔

وہ چپ چاپ بیٹھی رہی۔ ریحان نے گمبھیر آواز میں کہا۔

’’دیپالی۔ میں تین برس سے مسلسل متواتر تین برس سے جرائم پیشہ لوگوں اور ڈاکوئوں کی طرح چھپتا پھر رہا ہوں۔ مدتوں سے مجھے چین کی نیند اور ذرا سی ذاتی مسرت نصیب نہیں ہوئی۔ تمہیں معلوم ہے چارلس بارلو نے قسم کھائی ہے کہ زندہ یا مردہ مجھے گرفتار کرکے رہے گا…؟ تم… تم مجھے کیا سمجھتی ہو… میں انسان ہوں آخر… فولاد کی مشین گن تو ہوں نہیں۔ یا ہوں۔ بتائو؟‘‘ اس نے دوبارہ شگفتگی کی کوشش کی۔ پھر اس نے کہا۔ ’’نہیں… دیپالی میں تم سے ملنا چاہتا تھا۔ شاید مجھے اس طرح غلط بہانہ کرنے تم کو اتنی دور نہ بلانا چاہیے تھا۔ مگر میں بے حد خود غرض انسان ہوں۔ اور بہرحال اب تو تم آہی گئیں۔ اب کیا ہوسکتا ہے!‘‘ اس نے پھر ہنسنے کی سعی کی۔

دیپالی آنکھیں پھلا کر اسے دیکھنے لگی۔ مختصر سے گھاٹ کی شکستہ سیڑھی پر بیٹھا وہ ایک چھوٹے سے لڑکے کی طرح معلوم ہورہا تھا۔ اسکول کا چھوٹا سا لڑکا، جو استانی کے سامنے اپنی شرارت کی معافی چاہ رہا ہو۔ مگر ساتھ ہی کسی دوسری شرارت پر بھی تلا بیٹھا ہو۔ دیپالی کو یک لخت ہنسی آگئی۔

اسکول گرل گِگلز… اس کے کان میں گونجا۔ اور اس گونج کو شکست دیتے ہوئے ایک اینٹ اُٹھا کر بھرپور مسرت کے ساتھ دور ندی میں پھینک دی۔

’’کھا جائے گا اگر گھڑیاں‘‘۔ ریحان نے کہا۔

وہ زور سے ہنسی… ’’ ادما دیدی۔ میری اس، ہنسی کو اسکول گرل گِگلز کہتی ہیں‘‘۔ اس نے کہا اور دوسرے لمحے اس نے سوچا میں یہ نام لے کر قسمت کو TEMPT کررہی ہوں اور میں وہمی بھی بنتی جارہی ہوں۔ اور میرے ذہنی زوال کا ذمے دار یہ شخص ہے۔ ہاہاہا۔ اس نے زور سے پانی اُچھالا۔

’’اُدما دیدی…‘‘ ریحان نے سگریٹ جلاتے ہوئے بے پرواہی سے کہا۔ ’’بڑی اچھی آدمی ہیں۔ ان کی سنگت میں رہوگی تو تمہارے اندر بھی عقل آجائے گی‘‘۔

’’ابھی بے عقل ہوں؟‘‘
’’بے حد، ایک اجنبی آدمی کے بلانے پر تن تنہا اس کے پاس بنوں میں آگئیں‘‘۔
’’مجھے اس اجنبی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے تھا؟‘‘
’’قطعی نہیں!‘‘
’’اور ایسے ناقابل اعتبار آدمی کے ہاتھوں میں صوبے کی تحریک کی باگ ڈور ہے۔ جب ہی تو یہ گت بن رہی ہے تحریک کی۔ ہاہاہا‘‘۔
ہاہاہا۔ وہ بھی خوب ہنسا۔
اب چاند دلدلی جنگلوں کے سیاہ اُفق پر آہستہ آہستہ اوپر آرہا تھا۔
’’چلو تم کو اپنے میزبانوں سے ملوا دیں‘‘۔
وہ اس بوڑھے جوڑے کے مسکین اور باصبر چہرے کو یاد کرکے فوراً دکھی ہوگئی۔
’’یہ کون لوگ ہیں؟‘‘

’’مولوی ابولہاشم… ماہی گیر ہیں اور اس گائوں کی مسجد کے پیش امام۔ ان کے لڑکے بھی مچھیرے ہیں اور ہمارے ورکر بھی ہیں۔ میں ان کے یہاں دو مہینے سے مقیم ہوں۔ کھلنا میں کافی کام ہورہا ہے۔ گورفتار سست ہے‘‘۔

’’آپ نے ان دونوں میاں بیوی کو میرے متعلق کیا بتایا ہے؟‘‘
’’تمہارے متعلق…؟ کچھ نہیں۔ ان سے کہہ دیا تھا کہ اس ہندو لڑکی کو مسلمان کرکے شادی کرنے والا‘‘۔ ریحان نے پروائی سے جواب دیا۔
’’شرم تو نہیں آتی آپ کو‘‘۔ دیپالی نے غصے سے سرخ ہو کر کہا۔

’’بالکل نہیں… چلو… اُٹھو…‘‘ریحان نے بڑے تکلف اور شائستگی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور لالٹین اٹھالی۔ وہ بانس کی سیڑھیاں چڑھ کر جھونپڑے میں داخل ہوئے۔

زینب بی نے ماچھی بھات ان کے سامنے رکھا۔ دیوار پر پھیلے مچھلی پکڑنے کے جال کے نیچے وہ دونوں چٹائی پر بیٹھ گئے۔ ان دونوں کا سایہ دیوار پر بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔ اتنے میں مولوی کا داڑھی والا جھکا جھکا سایہ بھی پرچھائیوں میں آشامل ہوا۔

’’بابا…خالہ…‘‘ریحان نے دونوں بوڑھی پرچھائیوں سے کہا۔ ’’یہ ہماری لولثُم ہے۔ کولثُم دیپالی‘‘۔

مولوی نے سر اُٹھا کر لڑکی کو دیکھا۔ اور سر ہلایا۔
ریحان کہتا رہا۔ ’’یہ ہمارے لیے کولثُم بھی ہے اور دیپالی بھی۔ کسی دن میں تم کو سمجھائوں گاکہ اس دیس میں کولثُم اور دیپالی ایک کیسے ہوسکتی ہیں‘‘۔

بس شروع ہوگئی تبلیغ۔ ایک منٹ کو بھی پارٹی لائن چلانا نہیں بھولتے۔ دیپالی نے ذرا الجھن سے سوچا اور یک لخت اسے ایسا لگا کہ سامنے پرچھائیوں میں بنوئے چندر سرکار کا سایہ بھی آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ یہ میں کیا کررہی ہوں۔ وہ سر جھکا کر تندہی سے کھانا کھانے میں منہمک ہوگئی۔

کھانے کے بعد ریحان نے کہا۔ ’’رات بہت آگئی ہے۔ تم اتنا طویل سفر کرکے آئی ہو دیپالیؔ۔ اب آرام کرنا چاہوگی‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’گڈ نائٹ‘‘۔ مولوی ابوالہاشم کمرے سے باہر چلے گئے۔
اُس رات، سُندر بن کے عمیق سناٹے میں، زینب بی بی کے برابر والی کھاٹ پر لیٹ کر دیپالیؔ نے سوچا۔ زندگی کی کوئی تُک بھی ہے۔ بہت جلد اسے نیند آگئی۔

دوسرے روز صبح سویرے وہ جھونپڑے سے نکلتی ہوئی ایک قریبی کنج میں چلی گئی۔ جہاں دور سے رنگین گلدار ہرنوں کی ایک ڈار چوکڑیاں بھرتی گزر رہی تھی۔ وہ ایک درخت کی شاخت پر ہاتھ رکھ کر ان خوبصورت ہرنوں کا نظارہ کرنے میں محو تھی۔ جب کسی نے پیچھے سے کھنکارا۔

’’نہ ہوئی غریب شکنتلا، اس وقت اس پوز کر دیکھ کر فوراً بے ہوش ہوجاتی اور کالی داس کو سین دوبارہ لکھنا پڑتا…!‘‘
دیپالی نے پلٹ کر دیکھا۔

’’ریحان۔ آپ اس قدر نون سیریس ہوگئے ہیں کہ مجھے آپ کی طرف فکر ہوچلی ہے۔ آئیے۔ میں آپ کو آپ کے رسالے دے دوں‘‘۔

’’اجی پڑھ لیں گے رسالے‘‘۔ وہ آرام سے ایک درخت کے کٹے ہوئے تنے پر بیٹھ گیا۔

’’مجھے آپ سے جنگ کی تازہ ترین صورت حال ڈسکس کرنا ہے‘‘۔

’’وہ بھی کرلی جائے گی‘‘۔
’’اچھا تو چل کر ناشتہ کرلیجئے‘‘۔

’’ناشتہ۔ اوہ۔ آج کا مینو ہے ہمارے بریکفاسٹ کا؟‘‘ریحان نے شان سے پوچھا۔
(جاری ہے)

حصہ