دعا کے آداب

174

-1 دعا صرف اللہ سے مانگیے، اس کے سوا کبھی کسی کو حاجت روائی کے لئے نہ پکاریئے۔ دعا، عبادت کا جوہر ہے اور عبادت کا مستحق تنہا اللہ ہے۔

قرآن پاک کا ارشاد ہے:
’’اسی کو پکارنا برحق ہے اور یہ لوگ اس کو چھوڑ کر جن ہستیوں کو پکارتے ہیں وہ ان کی دعائوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ ان کو پکارنا تو ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا کر چاہے کہ پانی (دور ہی سے) اس کے منہ میں آپہنچے، حالانکہ پانی اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ بس اسی طرح کافروںکی دعائیں بے نتیجہ بھٹک رہی ہیں‘‘(الرعد: 14/13)

یعنی حاجت روائی اور کارسازی کے سارے جذبات اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کے سوا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ سب اسی کے محتاج ہیں۔اس کے سوا کوئی نہیں جو بندوں کی پکار سنے اور ان کی دعائوں کا جواب دے۔

’’انسانو! تم سب اللہ کے محتاج ہو اللہ ہی ہے جو غنی اور بے نیاز اور اچھی صفات والا ہے‘‘ (الفاطر: 15/35)

نبیؐ کا ارشادہے کہ اللہ نے فرمایا ہے:
’’میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کرلیا ہے تو تم بھی ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کو حرام سمجھو، میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں، پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا، میرے بندو! تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس شخص کے جس کو میں کھلائوں، پس تم مجھی سے روزی مانگو تو میں تمہیں روزی دوں گا، میرے بندو! تم میں سے ہر ایک ننگا ہے، سوائے اس کے جس کو میں پہنائوں، پس تم مجھی سے لباس مانگو میں تمہیں پہنائوں گا۔ میرے بندو! تم رات میں بھی گنہ کرتے ہو اور دن میں بھی اور میں سارے گناہ معاف کردوں گا‘‘ (صحیح مسلم)

اور آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ آدمی کو اپنی ساری حاجتیں اللہ ہی سے مانگنی چاہئیں۔ یہاں تک کہ اگر جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو اللہ سے مانگے اور اگر نمک کی ضرورت ہو تو وہ بھی اسی سے مانگے‘‘ (ترمذی)

مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی چھوٹی سی چھوٹی ضرورت کے لیے بھی اللہ ہی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اس کے سوا نہ کوئی دعائوں کا سننے والا ہے اور نہ کوئی مرادیں پوری کرنے والا ہے۔

-2 اللہ ہی سے وہی کچھ مانگیے جو حلال اور طیب ہو، ناجائز مقاصد اور گناہ کے کاموں کے لئے اللہ کے حضور ہاتھ پھیلانا انتہائی درجے کی بے ادبی، بے حیائی اور گستاخی ہے، حرام اور ناجائز مرادوں کے پورا ہونے کے لیے اللہ سے دعائیں کرنا اور منتیں ماننا دین کے ساتھ بدترین قسم کا مذاق ہے۔ اسی طرح ان باتوں کے لئے بھی دعا نہ مانگیے جو اللہ نے ازلی طور پر طے فرمادی ہیں اور جن میں تبدیلی نہیں ہوسکتی مثلاً کوئی پستہ قد انسان اپنے قد کے دراز ہونے کی دعا کرے یا کوئی غیر معمولی دراز قد انسان قد کے پست ہونے کی دعا کرے یا کوئی دعا کرے کہ میں ہمیشہ جوان رہوں اور کبھی بڑھاپا نہ آئے وغیرہ۔

قرآن کا ارشاد ہے:’’اور ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک اسی طرف رکھو، اور اسی کو پکارو، اس کے لئے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے‘‘ (اعراف: 29/7)

اللہ کے حضور اپنی ضرورتیں رکھنے والا نافرمانی کی راہ پر چلتے ہوئے ناجائز مرادوں کے لئے دعائیں نہ مانگے بلکہ اچھا کردار اور پاکیزہ جذبات پیش کرتے ہوئے نیک مرادوں کے لئے اللہ کے حضور اپنی درخواست رکھے۔

-3 دعا، گہرے اخلاص اور پاکیزہ نیت سے مانگیے اور یقین کے ساتھ مانگیے کہ جس اللہ سے آپ مانگ رہے ہیں وہ آپ کے حالات کا پور پورا علم بھی رکھتا ہے اور آپ پر انتہائی مہربان بھی ہے، اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی پکار سنتا اور ان کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ نمود و نمائش، ریاکاری اور شرک کے ہر شائبے سے اپنی دعائوں کو بے آمیز رکھیے۔

قرآن میں ہے:
’’پس اللہ کو پکارو اس کے لئے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے‘‘ (المومن: 14/40)

اور سورۂ بقرہ میں ہے:’’اور اے رسولؐ!جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، لہٰذا انہیں میری دعوت قبول کرنی چاہیے اور مجھ پر ایمان لانا چاہیے تاکہ وہ راہ راست پر چلیں‘‘ (البقرہ: 182/2)

-4 دعا پوری توجہ، یک سوئی اور رقت قلب سے مانگیے اور اللہ سے اچھی امید رکھیے، اپنے گناہوں کے انبار پر نگاہ رکھنے کے بجائے اللہ کے بے پایاں عفوو کرم اور بے حد و حساب جود و سخا پر نظر رکھیے۔ اس شخص کی دعا درحقیقت دعا ہی نہیں ہے، جو غافل اور لاپروا ہو اور لا ابالی پن کے ساتھ محض نوک زبان سے کچھ الفاظ بے دلی کے ساتھ ادا کررہا ہو اور اللہ سے خوش گمان نہ ہو۔

حدیث میں ہے: ’’اپنی دعائوں کے قبول ہونے کا یقین رکھتے ہوئے (حضور قلب سے) دعا کیجیے۔ج اللہ ایسی دعا کو قبول نہیں کرتا جو غافل اور بے پروا دل سے نکلی ہو‘‘ (ترمذی)

-5 دعا، انتہائی عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ مانگیے۔ خشوع و خضوع سے مراد یہ ہے کہ آپ کا دل اللہ کی ہیبت اور عظمت و جلال سے لرز رہا ہو اور جسم کی ظاہری حالت پر بھی اللہ کا خوف پوری طرح ظاہر ہو، سر اور نگاہیں جھکی ہوئی ہوں، آواز پست ہو، اعضا ڈھیلے پڑے ہوئے ہوں، آنکھیں نم ہوں اور تمام انداز و اطوار سے مسکینی اور بے کسی ظاہر ہورہی ہو، نبیؐ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے دوران داڑھی کے بالوں ے کھیل رہا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا: ’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا‘‘۔

دراصل دعا مانگتے وقت آدمی کو اس تصور سے لرزنا چاہیے کہ میں ایک درماندہ فقیر ایک بے نوا مسکین ہوں، اگر اللہ نہ کرے میں اس در سے ٹھکرا دیا گیا تو پھر میرے لئے کہیں کوئی ٹھکانہ نہیں، میرے پاس اپنا کچھ نہیں ہے جو کچھ ملا ہے اللہ ہی سے ملا ہے اور اگر اللہ نہ دے تو دنیا میں کوئی دوسرا نہیں ہے جو مجھے کچھ دے سکے۔ اللہ ہی ہر چیز کا وارث ہے، اسی کے پاس ہرچزی کا خزانہ ہے، بندہ محض فقیر اور عاجز ہے۔

قرآن پاک میں ہدایت ہے:’’اپنے رب کو عاجزی اور زاری کے ساتھ پکارو‘‘ (الاعراف: 55/7)

عبدیت کی شان ہی یہی ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کو نہایت عاجزی اور مسکنت کے ساتھ گڑ گڑا کر پکارے اور اس کا دل و دماغ، جذبات اور احساسات اور سارے اعضا اس کے حضور جھکے ہوئے ہوں، اور اس کے ظاہر و باطن کی پوری کیفیت سے احتیاج و فریاد ٹپک رہی ہو۔

-6 دعا، چپکے چپکے دھیمی آواز میں مانگیے۔ اللہ کے حضور ضرور گڑگڑایئے لیکن اس گریہ و زاری کی نمائش ہرگز نہ کیجیے۔ بندے کی عاجزی اور انکساری اور فریاد صرف اللہ کے سامنے ہونا چاہیے۔

بلاشبہ بعض اوقات دعا زور زور سے بھی کرسکتے ہیں لیکن یہ تو تنہائی میں ایسا کیجیے یا پھر جب اجتماعی دعا کررہے ہوں تو اس وقت بلند آواز سے دعا کیجیے تاکہ دوسرے لوگ آمین کہیں۔ عام حالات میں خاموشی کے ساتھ پست آواز میں دعا کیجیے اور اس بات کا پورا پورا اہتمام کیجیے کہ آپ کی گریہ و زاری اور فریاد بندوں کو دکھانے کے لئے ہرگز نہ ہو:

’’اور اپنے رب کو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ یاد کرو، اور زبان سے بھی ہلکی آواز سے صبح و شام یاد کرو اور ان لوگوں میں سے نہ ہوجائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘ (الاعراف: 205/7)

حضرت زکریاؑ کی شان بندگی کی تعریف کرتے ہوئے قرآن میں کہا گیا ہے:

’’جب اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا‘‘(مریم: 3)

-7 دعا کرنے سے پہلے کوئی نیک عمل ضرور کیجیے، مثلاً کچھ صدقہ و خیرات کیجیے، کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیجیے، یا نفلی نماز اور روزوں کا اہتمام کیجیے اور اگر اللہ نہ کرے کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائیں تو اپنے اعمال کا واسطہ دے کر دعا کیجیے جو آپ نے پورے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کے لیےکئے ہوں۔

قرآن میں ہے:
’’اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند مدارج طے کراتے ہیں‘‘ (الفاطر: 10)

نبیؐ نے ایک بار تین ایسے اصحاب کا واقعہ سنایا جو ایک اندھیری رات میں ایک غار کے اندر پھنس گئے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے مخلصانہ عمل کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کی اور اللہ نے ان کی مصیبت کو دور فرمادیا۔

واقعہ یہ ہوا کہ تین ساتھیوں نے ایک رات ایک غار میں پناہ لی، اللہ کا کرنا، پہاڑ سے ایک چٹان پھسل کر غار کے منہ پر آپڑی اور غار بند ہوگیا، دیوقامت چٹان تھی، بھل ان کے بس میں کہاں تھا کہ اس کو ہٹا کر غار کا منہ کھول دیں۔ مشورہ یہ ہوا کہ اپنی اپنی زندگی کے مخلصانہ عمل کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کی جائے، کیا عجب کہ خدا سن لے اور اس مصیبت سے نجات مل جائے۔ چنانچہ ایک نے کہا:

’’میں جنگل میں بکریاں چرایا کرتا تھا اور اسی پر میرا گزارا تھا۔ جب میں جنگل سے واپس آتا، تو سب سے پہلے بوڑھے ماں باپ کو دودھ پلاتا اور پھر اپنے بچوں کو، ایک دن میں دیر سے آیا، بوڑھے ماں باپ سو چکے تھے، بچے جاگ رہے تھے اور بھوکے تھے لیکن میں نے یہ گوارا نہ کیا کہ ماں باپ سے پہلے بچوں کو پلائوں اور یہ بھی گوارا نہ کیاکہ والدین کو جگا کر تکلیف پہنچائوں، چنانچہ میں رات بھر دودھ کا پیالہ لیےان کے سرہانے کھڑا رہا۔ بچے میرے پیروں میں چمٹ چمٹ کر روتے رہے لیکن میں ضبح تک اسی طرح کھڑا رہا۔

الٰہی! میں نے یہ عمل خالص تیری خاطر کیا! تو اس کی برکت سے غار کے منہ سے چٹان ہٹادے اور چٹان اتنی ہٹ گئی کہ آسمان نظر آنے لگا۔

دوسرے نے کہا: ’’میں نے کچھ مزدوروں سے کام لیا اور اس کو مزدوری دے دی لیکن ایک شخص اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد جب وہ مزدوری لینے آیا تو میں نے اس سے کہا یہ گائیں، بکریاں اور یہ نوکر چاکر سب تمہارے ہیں لے جائو۔ وہ بولا اللہ کے لئے مذاق نہ کرو میں نے کہا، مذاق نہیں واقعی یہ سب کچھ تمہارا ہے تم جو رقم چھوڑ کر گئے تھے، میں نے اس کو کاروبار میں لگایا۔ اللہ نے اس میں برکت دی اور یہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو سب اسی سے حاصل ہوا ہے۔ یہ تم اطمینان کے ساتھ لے جائو۔ سب کچھ تمہارا ہے اور وہ شخص س کچھ لے کر چلا گی۔ الٰہی! یہ میں نے محض تیری رضا کے لئے کیا۔ الٰہی! تو اس کی برکت سے غار کے منہ سے اس چٹان کو دور فرمادے، اللہ کے کرم سے چٹان اور ہٹ گئی۔

تیسرے نے کہا: میری ایک چچا زاد بہن تھی جس سے مجھ کو غیر معمولی محبت ہوگئی تھی، اس نے کچھ رقم مانگی۔ میں نے رقم مہیا کردی، لیکن جب میں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے اس کے پاس بیٹھا تو اس نے کہا۔ اللہ سے ڈرو اور اس کام سے باز رہو، میں فوراً اٹھ بیٹھا اور میں نے وہ رقم بھی اس کو بخش دی، اے خدا تو خوب جانتا ہے کہ میں نے یہ سب محض تیری خوشنودی کے لئے کیا، الٰہی! تو اس کی برکت سے غار کے منہ کو کھول دے۔ اللہ نے غار کے منہ سے چٹان ہٹادی اور تینوں کو اللہ نے اس مصیبت سے نجات بخشی۔

-8نیک مقاصد کے لئے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو اللہ کی ہدایت کے مطابق سنوارنے اور سدھارنے کی بھی کوشش کیجیے۔ گناہ اور حرام سے پوری طرح پرہیز کیجیے۔ ہر کام میں اللہ کی ہدایت کا پاس لحاظ کیجیے اور پرہیزگاری کی زندگی گزاریئے۔ حرام کھاکر، حرام پی کر، حرام پہن کر اور بے باکی کے ساتھ حرام کے مال سے اپنے جسم کو پال کر دعا کرنے والا یہ آرزو کرے کہ میری دعا قبول ہو تو یہ زبردستی نادانی اور ڈھٹائی ہے۔ دعا کو قابل قبول بنانے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کا قول و عمل بھی دین کی ہدایت کے مطابق ہو۔

نبیؐ نے فرمایا:
’’خدا پاکیزہ ہے اور وہ صرف پاکیزہ مال ہی کو قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنوں کو اسی بات کا حکم دیا ہے، جس کا اس نے رسولوں کو حکم دیا ہے۔ چنانچہ اس نے فرمایا ہے:

’’اے رسولو! پاکیزہ روزی کھائو، اور نیک عمل کرو‘‘(مومنون: 51)
اور مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا:
’’اے ایمان والو! جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں وہ کھائو‘‘(البقرۃ: 172/2)

پھر آپؐ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبی مسافت طے کرکے مقدس مقام پر حاضری دیتا ہے، غبار میں اٹا ہوا ہے، گرد آلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اور حرام ہی سے اس کی نشوونما ہوئی ہے۔ تو ایسے باغی اور نافرمان شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے‘‘ (مسلم)

-9 برابر دعا کرتے رہیے۔ اللہ کے حضور، اپنی عاجزی، احتیاج اور عبودیت کا اظہار خود ایک عبادت ہے، خدا نے خود دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بندہ جب مجھے پکارتا ہے، تو میں اس کی سنتا ہوں۔ دعا کرنے سے کبھی نہ اکتایئے اور اس چکر میں کبھی نہ پڑیئے کہ دعا سے تقدیر بدلے گی یا نہیں، تقدیر کا بدلنا نہ بدلنا، دعا قبول کرنا یا نہ کرنا اللہ کا کام ہے، جو علیم و حکیم ہے۔ بندے کا کام بہرحال یہ ہے کہ وہ ایک فقیر و محتاج کی طرح برابر اس سے دعا کرتا رہے اور لمحہ بھر کے لئے بھی خود کو بے نیاز نہ سمجھے۔ (جاری ہے)

حصہ