خودی کو کر بلند۔۔۔۔

205

صبح صبح میں نے بچوں کو اسکول چھوڑا تو سوائے بیکری کے کوئی دکان نہیں کھلی تھی، سڑک مکمل طور پر سناٹے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ایسے میں ایک بند دکان کے آگے خواتین کی بھیڑ دیکھی جو فٹ پاتھ پر لائن سے بیٹھی دکان کے کھلنے کا انتظار کررہی تھیں۔ لائن میں ہر عمر کی خاتون شامل تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کیوں انتظار کررہی ہیں! پھر غور کیا تو پتا چلا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ماہانہ پیسے لینے کے لیے بیٹھی ہیں۔

شدید افسوس ہوا کہ یہ ہم نے کیسے پروگرام شروع کر رکھے ہیں کہ صبح سے شام تک لائن میں لگی ہماری خودداری، خودی معمولی رقم، ایک تھیلا آٹے یا راشن کے لیے سڑکوں پر کھڑی ہے۔ آخر کیوں اور کب تک…؟

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہی خواتین 10، 20 سال پہلے صبح صبح اپنے گھریلو کاموں سے فراغت کے بعد سلائی کڑھائی کے کام شروع کرتیں اور سارا دن کرتی رہتیں۔ زیادہ مجبوری میں رات کو بھی کام کرتیں۔ اس سے وہ اپنے ماہانہ خرچ کے علاوہ کچھ بچا بھی لیتیں۔ ان کی ماہانہ آمدنی آج کے حکومتی انکم سپورٹ پروگرام سے کہیں زیادہ ہوتی۔ بالکل اسی طرح وہ گھریلو خواتین جن کے لیے باہر کام کرنا ممکن نہیں تھا، لیکن انہیں فارغ بیٹھنا اور گھر کے واحد کفیل پر بوجھ ڈالنا بھی منظور نہیں تھا، وہ گھریلو صنعتوں سے جڑی تھیں۔ گھریلو صنعت کا شعبہ اُن کے دَم سے ہی چل رہا تھا۔ بہت سی پڑھی لکھی خواتین دن کا ابتدائی حصہ اسکولوں میں پڑھا کر گزارتیں اور گھر گرہستی بھی سنبھال لیتیں۔ اس طرح غربت کے باوجود اچھی گزر بسر ہوتی۔

مہنگائی اُس زمانے میں بھی تھی، مگر گھر کی ہوشیار خواتین گھر کے بجٹ میں اپنا حصہ ڈالتیں بغیر کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے۔

مگر افسوس، آج صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی ادارے بھی لائنوں میں کھڑا کرکے ایک ایک تھیلا آٹا یا راشن دے رہے ہیں۔ نجی یا سرکاری سطح پر اُن خواتین کو اپنی باعزت آمدنی کمانے یا ہنرمند بنانے کے لیے ہنرمندی کے کسی بھی پروگرام، گھریلو صنعت یا دیگر ایسے کاموں کے ساتھ جوڑنے کی کسی قسم کی کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے، نہ خواتین خود ایسی کوئی کوشش کررہی ہیں۔ حالانکہ ماضی میں یہی خواتین لائن میں لگنے کے بجائے معمولی سہی لیکن اپنے ہاتھ سے کماکر کھانا چاہتی تھی۔ مگر آج جہاں دیگر سماجی برائیوں نے تیزی سے معاشرے کے اخلاقی انحطاط میں حصہ ڈالا ہے، وہیں خودداری یا خودی کا جذبہ بھی ناپید ہوگیا ہے۔ اب ہمیں کسی لائن میں لگ کر مفت راشن یا آٹا لینے میں کوئی شرم نہیں آتی۔ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کو ہم نے اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کا بہانہ بنا لیا ہے۔ حالانکہ اگر ہم اسوۂ حسنہ کا جائزہ لیں تو آپؐ اور آپؐ کے اہلِ خانہ کئی کئی روز بھوکے رہتے، کئی بار محض ایک کھجور کے ٹکڑے سے روزہ افطار کرتے مگر آپؐ نے اللہ سے ہمیشہ امت کی فلاح کی دُعا مانگی۔ آپؐ نے نہ کبھی اپنے اور اپنے رفقا کے لیے زر و دولت کی دعا کی، نہ امت کو اس کی طلب کے لیے تگ و دو کی راہ دکھائی۔ آج ہم بطور مسلمان قرآن وسنت کی یہ تعلیمات فراموش کرچکے ہیں۔ لہٰذ ا ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری یا نجی سطح پر مفت اشیا تقسیم کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کی جائے اور سرکاری و نجی ادارے فوری طور پر گھریلو صنعت کو ترقی دینے، خواتین کو ہنرمند بنانے اور نجی یا انفرادی طور پر روزی کمانے کے دوررس اقدامات کریں۔ اس مقصد کے لیے درج ذیل تجاویز پر عمل کیا جاسکتا ہے:

٭ ضلعی سطح پر ہنرمندی پروگرام یا ورکشاپ منعقد کرائی جائیں۔

٭زکوٰۃ یا دیگر صدقات کی نقد تقسیم کے بجائے سلائی مشین، گھریلو دستکاری کا سامان، فیشن یا بوتیک کھولنے کے لیے سامان اور جگہ کی دستیابی، آلو چپس بنانے کی مشین یا سامان، گھریلو دکان کا سامان، رکشہ یا ٹھیلا اور اسی قسم کا دیگر سامان دلایا جائے جس سے گھریلو خواتین خود سے روزگار کما سکیں۔

٭ایسی خواتین جو کہ گھریلو صنعت شروع کرنا چاہتی ہوں ان کے لیے حکومت قرضِ حسنہ یا آسان اقساط پر قرض فراہمی کے پر وگرام شروع کرے۔
٭گھریلو صنعتو ں کو ٹیکس فری قرار دیا جائے تاکہ یہ صنعت فرو غ پاسکے۔
٭لائن میں لگا کر کسی بھی مفت شے کی تقسیم پر مکمل پابندی لگائی جائے اور میڈیا میں ایسی کسی تقریب کی کوریج پر مکمل پابندی ہو۔
٭ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت صرف 60 سال سے زیادہ عمر کی خواتین جن کا کمانے والا کوئی نہ ہو اور وہ خود بھی کما نہ سکتی ہوں،بذریعہ ڈاک سروس رقم پہنچائی جائے۔
nn

حصہ